عبیداللّٰہ ناصر
چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی قیادت میں سپریم کورٹ نے ادھر کئی معاملوں میں اپنی ریڑھ کی ہڈی دکھا کر حکومت کے لیے،مشکلات کھڑی کردی ہیں، ان میں تازہ ترین معاملہ وقف ترمیمی قانون کے سلسلہ میں عدالت کی جانب سے حکومت سے پوچھے گئے کچھ سوال ہیں جن کی وجہ سے پہلی سماعت میں ہی حکومت کی سانسیں اکھڑ گئیں اور اس نے ازخود عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اگلی سماعت تک اس قانون کی کسی شق پر عمل نہیں کرے گی۔ عدالت میں تو اس نے یہ یقیں دہانی کرا دی لیکن اپنی ٹرول بریگیڈ کو سرگرم کر دیا جس نے عدالت پر نازیبا ہی نہیں بلکہ بیہودہ الزام لگانا شروع کر دیا۔ شرم اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ غیر آئینی ، غیر قانونی اور غیر شریفانہ بیان بازی، پارٹی کا کوئی گلی کوچے کا چھٹ بھیا نیتا نہیں بلکہ نائب صدر جمہوریہ جیسے جلیل القدر عہدہ پر فائز دھن کھڑ صاحب، ممبر پارلیمنٹ نشی کانت دوبے اور ڈاکٹر دنیش شرما جیسے لوگ کر رہے ہیں۔ یہ لو گ عدالت کے اختیار کو ہی نہیں چیلنج کر رہے ہیں بلکہ دھن کھڑ صاحب نے اس پر سپرپارلیمنٹ ہونے تک کی بات کہہ دی۔ نشی کانت دوبے نے تو حد پار کرتے ہوے سپریم کورٹ پر ملک میں مذہبی بنیاد پر خانہ جنگی شروع کرانے تک کا الزام لگا دیا، ان کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ ہی قانون بنائے گا تو پھر پارلیمنٹ کی کیا ضرورت؟کیا ان لوگوں کو نہیں معلوم کہ سپریم کورٹ قانون تو نہیں بناتا لیکن پارلیمنٹ اور اسمبلی سے بنائے گئے قوانین کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینے کا اسے اختیار ہے اور اگر یہ قانون آئین کی روح اور منشا کے مطابق نہ ہوں تو انہیں رد بھی کر سکتا ہے۔ نشی کانت دوبے وغیرہ نے سپریم کورٹ کے اختیار کو ہی نہیں چیلنج کیا ہے بلکہ اس کی توہین بھی کی ہے اور اب یہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اختیار ہی نہیں بلکہ وقار کو بحال رکھنے کے لیے نشی کانت دوبے جیسوں پر سخت کارروائی کرے۔ نشی کانت د وبے اپنی بد زبانی کے لیے مشہور ہیں، انہوں نے سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی صاحب پر بھی بیہودہ الزام لگاتے ہوے انہیں مسلم کمشنر تک بتا دیا ہے، انہیں بھی دوبے پر مجرمانہ ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرنا چاہیے۔ در اصل ان جیسوں کو بے لگام چھوڑ دینے سے ان کی ہی نہیں دوسروں کی بھی ہمت بڑھتی ہے اور جس کے جو منہ میں آتا ہے، وہ بکنے لگتا ہے۔ اس ماحول نے ہمارے پورے جمہوری نظام کو مذاق بنا کے رکھ دیا ہے، جسے عدالت ہی روک سکتی ہے۔
نئے و قف قانون کے خلاف پورے ملک کے مسلمانوں میں ہی نہیں سیکولر انصاف پسند غیرمسلموں میں بھی جو بے چینی پھیلی ہوئی تھی، وہ اس قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کے دوسرے دن ہی کافی حد تک دور ہو گئی کیونکہ چیف جسٹس کی قیادت والی سہ رکنی بنچ کے رخ سے لرزہ براندام حکومت نے عدالت کو حکم امتناعی جاری کرنے کا موقع دینے سے پہلے ہی بیک فٹ پر آتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ اگلی سماعت یعنی5مئی تک نئے وقف قانون کی کسی شق کو لاگو نہیں کرے گی۔ حق اور انصاف کی اس لڑائی کا پہلا راؤنڈ مسلمان جیت چکے ہیں اور پورا یقین ہے کہ محض شرارت اور مسلمانوں کو ان کے آئینی حق سے محروم کرنے اور ان کے بزرگوں کے ذریعہ قوم کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کی گئی لاکھوں ایکڑ زمین سے انہیں محروم کرنے کی سازش کے طور پر منظور کیا گیا یہ قانون آئین کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترے گا۔ مسلمانوں کے خلاف اس گہری سازش کو ناکام کرنے میں غیر مسلموں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر متحدہ ہندوستانی قومیت پر ان کے اعتماد کو مستحکم کیا ہے۔ سیکڑوں غیر مسلم ممبران پارلیمنٹ دیر رات تک اس قانون کے خلاف ایوان میں سینہ سپر رہے، سیکڑوں غیر مسلم صحافیوں نے اس قانون کے خلاف پوری طاقت سے آواز اٹھائی اور جب معاملہ عدالت پہنچا تو راجیو دھون ، کپل سبل، ابھیشک منو سنگھوی، یو سی سنگھ جیسے غیر مسلم وکلا مسلمانوں کے حق کی لڑائی لڑنے کیلئے عدالت میں موجود رہے۔ چیف جسٹس کھنہ نے بھی کہہ دیا کہ جب ہم انصاف کی کرسی پر بیٹھتے ہیں تو ہمارا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔عدالت میں بحث کا آغاز کپل سبل نے کیا اور ان کی دلیلوں کے سامنے سالیسٹر جنرل تشار مہتا کی سانس پہلے دن ہی اکھڑ گئی اور انہوں نے بحث دوسرے دن کرنے اور دوسرے دن ایک ہفتہ کا نہ صرف وقت مانگا بلکہ عدالت کو مذکورہ یقین دہانیاں بھی کرائیں:
سپریم کورٹ کی چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی قیادت والی سہ رکنی بنچ نے جس میں جسٹس سنجے کمار اور جسٹس وشوناتھن بھی شامل ہیں، بنچ کے سامنے تقریباً 65عرضیاں قانون کی مخا لفت میں اور بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں کی عرضیاں قانون کی حمایت میں زیر سماعت ہیں۔سماعت شروع ہونے سے پہلے مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کرن رجیجونے سپریم کورٹ کوایک طرح سے آگاہی دیتے ہوئے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار میں مداخلت سے گریز کرے۔ انہوں نے کہا کہ آئین نے سبھی اداروں کے کاموں کی حد مقرر کر دی ہے اور کسی ادارہ کو اس حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے پہلے پارلیمنٹ میں مذکورہ بل پیش کرتے ہوئے بھی کرن رجیجو نے یا تو اپنی کم علمی کا مظاہرہ کیا تھا یا جان بوجھ کر ایوان کو گمراہ کیا تھا کہ وقف قانون کے تحت اگر بورڈ یہ کہہ دے کہ پارلیمنٹ کی عمارت وقف کی ہے تو وہ وقف کی ہی مان لی جائے گی۔ دراصل کرن رجیجو نے آر ایس ایس کے اس پروپیگنڈہ کو ہی ایوان میں دوہرا دیا تھا کہ وقف بورڈ جس زمین کو چاہتا ہے وقف میں شامل کر لیتا ہے اور اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہوسکتی جبکہ کوئی بھی جائیداد وقف کرنے کے لیے کئی مرحلوں سے گزرنا ہوتا ہے اور وقف ٹریبونل کے فیصلوں کے خلاف نہ جانے کتنے مقدمات ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ میں ابھی بھی زیر سماعت ہیں۔کرن رجیجو کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے آئین سازوں نے یہ انتظام پہلے ہی کر دیا تھا کہ محض ایوان میں اکثریت کی بنا پر کوئی حکو مت عوام کے آئینی اور بنیادی حقوق تلف نہ کرسکے، اس لیے کئی قدغن لگائے گئے تھے جس میں ایوان زیریں سے منظوری کے بعد ایوان بالا میں منظوری، پھر صدر جمہوریہ کی منظوری اور اس کے بعد بھی قانون آئینی تقاضوں کو پوراکرتا ہے یا نہیں ،اس کا فیصلہ کرنے کا حق سپریم کورٹ کو دیا تھا۔ وقف قانون یا اس سے پہلے کے کئی قوانین کی آئینی حیثیت پر سپریم کورٹ غور کر چکا ہے، یہ اس کی آئینی ذمہ داری ہے کہ ہر شہری کے آئینی حقوق کی حفاظت کرے۔ کرن رجیجو اقتدار کے نشہ میں اپنا آئینی فرض نہیں ادا کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ بھی حکومت کو من مانی کرنے کی چھوٹ دے دے۔
وقف قانون میں ترمیم سے پورے ملک کے مسلمان ہی نہیں ملک کے سیکولر مزاج افراد بھی مطمئن نہیں ہیں اور وہ اقلیتوں کے خلاف اسے ایک گہری سازش سمجھتے ہیں، یہی وجہ بھی کہ ایوان میں بحث کے دوران دیر رات تک سبھی ممبران ایوان میں موجود رہے اور اس بل کے خلاف ووٹ دیا۔ حالانکہ کچھ لوگ یہ غلط فہمی پالے ہوئے تھے کہ نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو اس بل کی مخالفت کریں گے لیکن نہ یہ ہونا تھا اور نہ ہوا، در اصل نتیش یا نائیڈو مخالفت کرتے بھی تو مودی حکومت نے ان کی پارٹیوں میں پھوٹ ڈلوانے کا پورا انتظام کر لیا تھا۔ لوک سبھا میں جنتا دل متحدہ کے لیڈر للن سنگھ کی تقریر جنتا دل یو نہیں بلکہ بی جے پی کے لیڈر کی تقریر لگ رہی تھی۔ مودی شاہ نے ایک تیر سے دو نشانہ سادھ لیے ہیں، وقف قانون بھی منظور کرا لیا اور مسلمانوں میں نتیش اور نائیڈو کی امیج خراب کر کے ان کی سیاسی بازی پلٹ دی۔ بہار میں نتیش کو کنارے لگانے کی بی جے پی کی حکمت عملی پوری طرح کامیاب ہوگئی، اب نتیش بھی نوین پٹنائک، ایکناتھ شندے، جگن ریڈی کی صف میں کھڑے ہو گئے ہیں۔ جینت چودھری،جیتن رام مانجھی،چراغ پاسوان سب کے رہے سہے مسلم ووٹ بینک کو ایک جھٹکے میں بی جے پی نے ان سے دور کر دیا ہے۔
وقف ترمیمی قانون کے خلاف مسلمانوں کو پورے ملک کی حمایت حاصل ہے، سبھی غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں نے اسے اپنے یہاں نافذ نہ کرنے کا اعلان کیا ہے، ان میں بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی بھی شامل ہیں، ان کے اس کھلے اعلان اور وقف قانون کی مخالفت کے باوجود بنگال کے مرشدآباد ضلع میں اس قانون کو لے کر فساد ہوجانا اور تین غیر مسلموں کا قتل افسوسناک ہی نہیں شرمناک بھی ہے، جن عناصر نے یہ حرکت کی ہے، وہ مسلمانوں کے ہمدرد تو قطعی نہیں ہوسکتے، اس کے بر خلاف انہوں نے مسلمانوں کے مقدمہ کو کمز ور ہی کیا ہے۔لیکن اس فساد کی اصل وجہ اور اس کا متحرک کون ہے، اس کا پتہ لگانا ممتا بنرجی کا پہلا فرض ہے اور جو کوئی بھی اس کے پس پشت ہے، اسے بے نقاب کرنا اور عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا حکومت بنگال کی ذ مہ داری ہے۔ چند مہینوں بعد ہی بنگال میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں، اس فساد کا الیکشن سے تعلق نہیں ہے، یہ سوچنا ہی احمقانہ بات ہوگی اور دنگوں سے کس کو فائدہ ملتاہے یہ بھی کوئی پوشیدہ امر نہیں ہے۔
ملک کا جو سیاسی اور سماجی ماحول ہے اور جس طرح مسلم مخالف طاقتیں سازشیں کر کے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کر رہی ہیں اور جس طرح بی جے پی کی ریاستی حکومتیں کھلے عام پوری بے شرمی اور ڈھٹائی سے مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہیں اورجس کی بانگی اترپردیش میں خاص کر ہر روز دیکھنے کو ملتی ہے، اس ماحول میں عقلمندی اور دور اندیشی کا تقاضہ ہے کہ وقف قانون کے خلاف صرف قانونی لڑائی لڑی جائے۔ سوچئے بنگال کے علاوہ یہ فساد یوپی یا بی جے پی کی حکمرانی والی دوسری ریاست میں ہوا ہوتا تو مسلمانوں پر کیا مظالم ہوتے، اس لیے قانونی لڑائی تک ہی خود کو محدود رکھیں۔ ایسے بھی احتجاج حساس حکومتوں کے لیے کیا جاتا ہے بے حس، ظالم اور فرقہ پرست حکومتیں ان احتجاجوں کا کوئی نوٹس نہیں لیتیں۔بنگال کے واقعات سے سبق لیتے ہوئے ہی مسلمانوں کو اپنا لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔
[email protected]