شاہد زبیری
17اور کو سپریم کورٹ میںمسلسل دو روز تک وقف (ترمیمی) قانون کے خلاف دائر عرضیوںپر سماعت ہوچکی ہے اگلی سماعت کیلئے 5مئی تک کا وقت رکھا گیا ہے ۔2روزہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں مسلم فریق کے وکلاء اور مرکزی حکومت کی طرف سے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے اپنے اپنے دلائل پیش کئے مرکزی حکومت کے سالیسٹر جنرل کی طرف سے سپریم کورٹ کے سوالوں کے جواب کیلئے ایک ہفتہ کی مہلت مانگی گئی جس کو منظور کرلیا گیا ہے اور جواب داخل کر نے کیلئے 7دن کا وقت دے دیا گیا ہے جبکہ اس کا جواب دینے کیلئے مسلم فریق کے وکلاء کو 5دن کی مہلت ملی ہے ۔ اس درمیان مرکزی حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ جب تک جواب داخل نہیں کرے گی وقف املاک کی حیثیت تبدیل نہیں کی جا ئے گی اور ضلع کلکٹر کو مداخلت کا حق نہیں ہوگا ۔حکومت کے جواب داخل کرنے کے بعد یہ کیس کیا رخ اختیار کرتا ہے ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی والی سہ رکنی بنچ کے سامنے اس 2روزہ سماعت میں سالسٹر جنرل تشار مہتہ کے پسینے چھوٹ گئے اور ان سے کوئی جواب نہیں بن پڑا۔ یہ حال تب ہے جب مرکزی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور جی سی پی کی میٹنگوں میں وقف ترمیمی قانون کے تمام پہلوئوں پر انتہائی غور خوض کے بعد وقف ترمیمی قانون کو منظور کیا گیا ہے اور صدر جمہوریہ کو بھیجا گیا ہے ۔صدر جمہوریہ نے بھی آناً فاناً اس پر دستخط کر دئے اور قانون گزٹ بھی ہوگیا ۔اگر مرکزی حکومت کا دعویٰ صحیح ہے تو سالسٹر جنرل تشار مہتہ اور ان کے لائق ترین وکلاء کی ٹیم ان سوالوں کا جواب کورٹ میں کیوں نہیں دے پائی اور کیوں اس نے ایک ہفتہ کی مہلت مانگی اور کیو ں کورٹ سے اس پر عبوری فیصلہ نہ دینے کی اپیل کی گئی، حالانکہ جو سوال سپریم کورٹ کی بنچ نے سالسٹر جنرل سے پوچھے وہ نئے نہیں ہیں بلکہ وہ لوگوں کی زبان پر پہلے سے تھے۔ یہ سب سوال مسلم پرسنل لاء بورڈ، ملّی تنظیموں، اپوزیشن جماعتوں اور قانون دانوں کی طرف سے وقف ترمیمی بل سے وقف ترمیمی قانون پاس کئے جانے تک پہلے دن سے ہی پوچھے جا رہے ہیں ۔
یہ سوال مرکزی حکومت سے بھی پوچھے گئے اور جے پی سی سے بھی۔ سپریم کورٹ کی بنچ نے اپنی سماعت کے دوران مر کزی حکومت سے تقریباً یہی سوال پوچھے ہیں جن میں وقف کونسل یا وقف بورڈ کمیٹیوں میں غیر مسلموں کو نمائندگی اور ہندو مندروںمیں غیر ہندوئوں کی نمائندگی کاسوال ،وقف بائی یوزر کے خاتمہ کے بعد وقف املاک کے رجسٹریشن کیلئے صدیوں پرانے وقف املاک کے دستاویزات کی فراہمی یا وقف املاک کی بابت حتمی فیصلہ کا حق ضلع کلکٹر یا کسی دوسرے بڑے افسر کو دئے جا نے کے سوال وغیرہ۔ ان میں کوئی ایک بھی سوال ایسا نہیں تھا جو وقف ترمیمی بل یا نئے وقف ترمیمی قانون پر بحث کے وقت نہ پوچھا گیا ہو ۔ اس دوروزہ سماعت کے دوران قانونی پیش رفت پر مسلم پرسنل لاء بورڈ اور ملّی تنظیموں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے اور مسلمانوں نے بھی راحت کی سانس لی ہے ۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے مرکزی حکومت نے وقف ترمیمی قانون جس بد نیتی اور مقاصد کے تحت پاس کرایا ہے ان کو بھی سامنے رکھنا چاہئے ۔وقف ترمیمی قانون کے بہانہ مرکزی حکومت نے پولرائزیشن کا کھیل کھیلنے کے علاوہ اس بہانے سیاسی روٹیاں سینکنا ،مذہبی منافرت اور مسلم دشمنی کی آگ کو دہکا ئے رکھنا بھی ہے ۔اس کا دوسرا یہ کہ کروڑوں اربوں کی وقف املاک کو کیسے اس قانون کے ذریعہ ہڑپ لیاجا ئے۔ پہلے مقصد میں تو سنگھ ،بی جے پی اور مرکزی حکومت نے بڑی حد تک کامیابی حاصل کر لی ہے حالا نکہ یہ کامیابی وقتی ہے حقیقت ایک نہ ایک دن ضرور سامنے آئے گی۔جہاںتک دوسرا اور بڑا مقصد وقف جائیدادوں اور املاک کو ہڑپنے یا اڈانی امبانی کی جھولی میں ڈالنے کا ہے اس کیلئے وہ قانون کے سامنے بے بس ہیں۔اسی لئے مرکزی حکومت نے جو بیانہ گھڑا ہے اور جو نریٹو بنا یا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ وقف کے قانونی مسئلہ کو ہندو مسلم کا رنگ دے دیا جا ئے اور ملک کے امن وآشتی ،صدیوں پرانے بھائی چارہ ،قومی یکجہتی اور سماجی تانے بانے کو بھی اس کیلئے دائو پر لگا دیا جائے۔ ماضی کی طرح اس کو بھی بابری مسجد اور رام مندر جیسا ایک مسئلہ بنا دیا جا ئے ۔ اس کے پیش نظر مسلم پرسنل لاء بورڈ اور ملّی تنظیمیں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہیں ان کی طرف سے قانونی لڑائی لڑنے اور پُر امن احتجاج کر نے کی حکمت عملی بنائی گئی ہے۔قانونی محاذ پر جہاں اب تک کی پیش رفت کو اطمینان بخش مانا جا رہا ہے احتجاج کے قانونی حق کے استعمال میں کہیں نہ کہیں چوک ہوئی ہے اور مغربی بنگال کے مرشدا ٓباد و ایک آدھ جگہ مزیدتشدد کی وارداتیں سامنے آئی ہیں جو تشویش ناک بھی ہیں اور افسوسناک بھی۔ کوئی بعید نہیں مسلم مخالف طاقتوں نے مسلمانوں کی صفوں میں کچھ کالی بھیڑیں گھسا دی ہوں جنہوں نے وقف ترمیمی قانون کے خلاف جا ری پر امن تحریک کو بدنام کرنے اور امن پسند ہندوبھائیوں کی نگا ہ میں مسلمانوں کی تصویر مسخ کر نے کی کوئی سازش رچی ہو؟ یہ تو ایماندارانہ اور منصفانہ تحقیقات سے ہی پتہ چل سکتا ہے ۔تشدد کے ان واقعات کے بہانے وقف ترمیمی قانون کے خلاف جاری تحریک اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے گودی میڈیا کو ایک اور موقعہ ہاتھ آگیاہے ۔ اس حالیہ تشدد پر ایک مشہور یو ٹیوب چینل کے نمائندے کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے مسلم پر سنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ پرسنل لاء بورڈ وقف ترمیمی قانون کے خلاف دو محاذوںپر لڑائی لڑ رہا ہے ایک قانونی اور دوسرے پر امن احتجاج کے ذریعہ انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ کچھ ضمیر فروش مسلمانوں کی وضع قطع والے شر پسند ہماری صفوں میں داخل کر دئے گئے ہوں اور حالیہ تشدد ان کی حرکت کا نتیجہ ہو لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم اس حق سے دست بردار ہوجائیں جو آئین نے ہمیں دیا ہے۔بورڈ کے صدر کی یہ بات آئین کے لحاظ سے تو درست ہے اس سے انکار نہیں لیکن اس میں مزیدمحتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہماری رائے میںوقف املاک بچانے کے لئے جو لڑائی لڑی جا رہی ہے وہ صرف مسلمانوں کے حق کی لڑائی نہیں ہے یہ آئین کے تحفظ اور بقاء کی بھی لڑائی ہے اس لڑائی میں ہماری سیکولر جماعتوں کی حصّہ داری سنسد ہی تک نہیں سڑک پر بھی نظر آنی چاہئے اور مسلمانوں کے ساتھ وہ بھی سنسد سے باہر سڑ ک پر اتریں ۔ چونکہ عدالتیں بھی باہر کے حالات پر نظر رکھتی ہیں۔ خود بابری مسجد رام مندر کیس اس کی مثال ہے کہ کیسے بابری مسجد کی جگہ آستھا کے نام پر رام مندر کیلئے دے دی گئی جبکہ مسلمانوں کے مالکا نہ حق کو عدالت نے اپنے فیصلہ میں تسلیم کیا ہے۔اس لئے عبوری راحت پر نہ تو زیادہ پر جوش ہو نے کی ضرورت ہے اور نہ فیصلہ حق میں آنے کی امید رکھنے کی ۔ نہیں معلوم قانونی موشگافیوں اور بحث مباحثہ کے بعد یہ معاملہ کیا موڑ لے او ر فیصلہ آنے میں کتنا وقت لگے ۔ بابری مسجد رام مندر کیس پر فیصلہ آنے میںسات دہائیاں گزر گئیں تھیں۔ وقف ترمیمی قانون کیخلاف یہ لڑائی صرف وقف بچانے کی نہیں بلکہ یہ آئین بچانے والوں اور آئین بدلنے والوں کے مابین ہے دیکھئے جیت کس کی ہو۔ موجودہ چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی مدت کار 13مئی کو پوری ہو نے والی ہے ۔بی آرگوئی نئے چیف جسٹس ہوں گے دیکھنا یہ ہے کہ وہ ا س تنازع کو کیسے حل کریں گے۔
[email protected]