ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
عراق جس کو ارض السواد یا بلد النہرین بھی کہا جاتا ہے اسلامی تاریخ میں اس کی اہمیت ہمیشہ رہی ہے اور مستقبل قریب میں بھی اس کی اہمیت میں کوئی کمی واقع ہونے والی نہیں ہے۔ گرچہ وہ آج پورے طور پر حقیقی معنی میں آزاد نہیں ہے۔ اسلام سے قبل بابل و نینوا کی سر زمین کہلانے کا امتیاز بھی اس کو حاصل رہا ہے اور اس اعتبار سے اولین انسانی تہذیب کا سرخیل یہ ملک رہا ہے۔ اس کی تاریخ کی اسی قدامت اور عالمی تہذیب و تمدن پر اس کے گہرے اور دیر پا نقوش پر فخر کا ہی نتیجہ تھا کہ جب سابق تشدد پسند امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے عرب و اسلامی تاریخ کا مذاق اڑاتے ہوئے اس کو اونٹوں کے چرواہوں اور خیموں میں جینے والوں کی تہذیب کہہ دیا تھا تو صدام حسین نے پلٹ کر اس کا بڑا تیکھا جواب دیا تھا اور کہا تھا کہ اونٹوں کے چرواہے اور خیموں میں زندگی بسر کرنے والے ان لوگوں سے تو بہت بہتر ہوتے ہیں جن کی اپنی تاریخ یہ رہی ہو کہ وہ غاروں میں رہتے رہے ہوں اور خنزیروں کی چرواہی کا کام کرتے ہوں۔ صدام حسین سے امریکہ و مغرب کو ایسی دشمنی اور نفرت تھی کہ وہ کسی حال میں ان کے وجود کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ صدام حسین واحد ایسے عرب لیڈر تھے جو عرب قومیت کو بنیاد بناکر پورے عالم عربی کو متحد کرنا چاہتے تھے اور سر زمین عرب کے قدرتی ذخائر سے استفادہ کے لئے وہ صرف عالم عربی و اسلامی کو اس کا مستحق گردانتے تھے۔ وہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ مغربی طاقتیں اس سرزمین کو اپنی ناجائز پالیسیوں کی آماجگاہ بنائیں اور پورے خطہ کو قتل و خون اور دائمی انتشار کے مرکز میں تبدیل کردیں۔ ظاہر ہے کہ صدام حسین کی اس فکر کا منفی اثر مغربی مفادات پر سیدھا پڑتا تھا جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے سے امریکی و صہیونی نشانے پر رہتے تھے۔ امریکہ کو 2003 میں پہلی بار یہ موقع ہاتھ آیا کہ وہ صدام حسین سے پیچھا چھڑالے۔ یہ موقع وہ تھا جب 9/11حملوں کے لئے القاعدہ کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور پوری مسلم و عرب دنیا جرم کے احساس میں پڑ گئی۔ ادھر امریکہ نے تقریباً تمام دنیا کو یہ پیغام دے دیا کہ ہماری دہشت مخالف جنگ میں جو ہمارے ساتھ نہیں ہے وہ ہمارے خلاف تصور کیا جائے گا۔ لہٰذا سب خواہی نا خواہی اس کے ساتھ ہوگئے۔ 9/11 کے بعد امریکہ بالکل جنون کا شکار ہوگیا تھا اور اس کا واضح دشمن مسلم دنیا قرار پائی تھی۔ لیکن اس کا پہلا ہدف افغانستان بنا جس پر القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا گیا۔ اس کے بعد عراق وہ دوسرا ملک تھا جس کو امریکہ و مغرب کی جارحیت کا عذاب جھیلنا پڑا۔ اس وقت کا برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر عراق کے خلاف اس جنگ میں امریکہ کا سب کا بڑا حامی تھا۔ اسی نے بے بنیاد الزامات کا ایک طومار کھڑا کیا تھا جس کو اساس بناکر عراق پر حملہ کیا گیا۔ خود القاعدہ کو تعاون فراہم کرانے کا الزام صدام حسین پر ڈالا گیا تھا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ صدام حسین جب تک عراق کے صدر رہے تب تک القاعدہ سمیت کسی بھی تشدد پسند جماعت کو عراق میں پاؤں جمانے کا موقع نہیں ملا تھا۔ بعد کی تحقیقات نے یہ ثابت بھی کیا کہ ٹونی بلیئر کا طومار صرف جھوٹ کا ہی پلندہ تھا اور القاعدہ کو اگر عراق میں اپنا وجود قائم کرنے میں مدد ملی تو وہ صدام حسین کی شہادت کے بعد ہی ملی اور القاعدہ تک ہی بات محدود نہیں رہی بلکہ امریکی حمایت میں جو سرکار عراق میں نوری المالکی کی قیادت میں بنی تھی اس نے سنی آبادی کے خلاف ایسی ظالمانہ کارروائیاں کی کہ 2014 تک صرف القاعدہ ہی نہیں بلکہ داعش جیسی نہایت متشدد جماعت وہاں پیدا ہوگئی اور ایک طویل عرصہ تک شام و عراق کے وسیع رقبہ کو اپنی تحویل میں لے لیا اور آج تک یہ پورا علاقہ مکمل طور پر داعش کے وجود سے پاک نہیں ہوسکا ہے۔
جہاں تک عراق میں امریکی غاصبانہ قبضہ کا معاملہ ہے تو اس کی سچائی یہ ہے کہ دیگر عرب ممالک کی طرح اب وہ بھی امریکہ کے زیر اثر ہے اور صدام حسین کی شہادت کے بعد سے اسرائیل کو بھی اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہی دو بڑے مقاصد تھے جن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے امریکہ و برطانیہ کی قیادت میں 30 مغربی ملکوں نے 2003 میں صدام حسین کے خلاف اس جارحیت میں حصہ لیا تھا جس کو اب تک عراق کی پوری تاریخ میں تیسری سب سے بڑی تباہی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس کو پہلی بڑی تباہی اس وقت پیش آئی تھی جب تاتاریوں نے بغداد کو جو کبھی اسلامی خلافت کی عظمت کا ستارۂ امتیاز سمجھا جاتا تھا بری طرح سے تباہ و برباد کر دیا تھا۔ وہ تباہی اتنی ہمہ گیر تھی کہ اس کے بعد پھر کبھی دوبارہ ویسی عظمت بغداد کو حاصل نہ ہو سکی۔ اس کے مقدر میں دوسری بڑی تباہی اس وقت آئی جب پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانوی استعمار نے اس کو تاراج کیا اور اپنے زیر نگیں رکھا۔ اس کے بعد اس امریکی جارحیت کا نمبر آتا ہے جس میں برطانیہ کے علاوہ دیگر 30 مغربی ملکوں نے اس میں حصہ لیا تھا۔ ان ممالک میں سے بعض نے تو عملی طور پر اپنا کردار اس جنگ میں نبھایا تھا لیکن اکثریت کی شمولیت کی نوعیت رمزی یا لوجسٹیک تھی۔ عراق پر اس جنگ کا آغاز 19 مارچ کو ہوا تھا. عراقی فوج نے بڑی بہادری سے اس جارحیت کا مقابلہ کیا لیکن وہ اس کو امریکہ کے غاصبانہ قبضہ میں جانے سے نہیں بچا پائے تھے۔ عالم عربی کی عہد جدید کی تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو برطانیہ و مغرب کے تعاون سے صہیونیوں کے ذریعہ فلسطین پر ناجائر قبضہ کے بعد عراق دوسرا ایسا ملک تھا جس پر مغربی استعمار کا قبضہ اکیسویں صدی کے آغاز میں ہوا تھا۔ عراق کو بھی پڑوسی عرب ممالک نے اسی طرح بے یارو مددگار چھوڑ دیا تھا جس طرح آج غزہ و فلسطین کے ساتھ عرب ملکوں کا مجرمانہ رویہ جاری ہے۔ عراق نے بھی صلیبی و مغربی قوتوں سے اسی طرح تن تنہا مقابلہ کیا تھا جس طرح آج غزہ کے مزاحمت کار اس صہیونی بربریت کا مردانہ وار مقابلہ کر رہے ہیں جس کی پشت پر امریکہ و مغرب پوری قوت کے ساتھ موجود ہے اور فلسطینیوں کے قتل عام میں برابر کا شریک ہو رہا ہے۔ عراق کو بے یارو مددگار چھوڑ دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ تقریباً 20 لاکھ معصوم عراقیوں کو قتل کیا گیا۔ عورتوں کی عزت تار تار ہوئی اور ابو غریب جیسے قید خانوں میں عرب نوجوانوں کو نہایت ذلیل کرکے غیر انسانی حالات میں رکھا گیا۔ امریکی سپاہیوں نے بچوں کی نگاہوں کے سامنے ان کی ماؤں کی بار بار عصمت دری کی۔ انسانی حقوق کی ادنی پاسداری بھی ’سوروں کے ان چرواہوں‘نے کبھی نہیں کی جس طرح آج غزہ و ویسٹ بینک میں کسی عالمی قانون کا لحاظ اسرائیل کے ذریعہ نہیں رکھا جا رہا ہے۔ امریکہ نے اپنی غیر انسانی و غیر مہذب حرکت کا مظاہرہ اس وقت بھی کیا جب صدام حسین کا مقدمہ نام نہاد عدالت میں چلایا گیا اور ان کے خلاف پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ صدام حسین کی پھانسی کے لئے جس دن کا انتخاب کیا گیا وہ عیدالاضحی کا دن تھا۔ ایسا دن جو تمام مسلمانان عالم کے نزدیک نہایت متبرک و مقدس ہے، لیکن اس تقدس کا بالکل پاس و لحاظ نہیں کیا گیا کیونکہ صلیبی روح سے سرشار جورج بش پوری مسلم دنیا کی تذلیل کرکے یک گونہ تسکین حاصل کرنا چاہتا تھا اور اس معرکۂ حطین کی ذلت کا داغ دھونا چاہتا تھا جو سلطان صلاح الدین ایوبی نے ہمیشہ کے لئے ان کے دامن پر لگا دیا ہے۔ حالانکہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی قوت و سطوت کے باوجود انصاف کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا اور کسی بے گناہ کو ذرا بھی تکلیف نہیں پہنچائی تھی، لیکن امریکہ و برطانیہ اور اس کے ہاتھوں پر پرورش پانے والی صہیونیت نے کبھی بھی اپنا انسانی چہرہ دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا ہے۔ امریکہ و فرانس و برطانیہ رہا ہو یا پھر آج کی صہیونی طاقت ہو سب کا طرز عمل اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ صرف وحشیانہ رہا ہے۔ جہاں ایک طرف عراق میں امریکی وحشت ناکی کو صدام حسین کی شہادت کے تعلق سے یاد رکھا جائے گا وہیں دوسری طرف صدام حسین کی اس جرأت کو بھی یاد رکھا جائے گا کہ جب سابق امریکی صدر جارج بش نے ان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ امریکہ سے معافی مانگ لیں تو ان کی جان بخش دی جائے گی تو انہوں نے بڑی حقارت سے امریکہ کے اس مطالبہ کو مسترد کر دیا تھا اور جن اصولوں پر وہ ایمان رکھتے تھے ان کی راہ میں شہادت کو قبول کرنا پسند کیا تھا۔ آج فلسطین کے مزاحمت کار بھی جو جنگ لڑ رہے ہیں وہ اب صرف ارض فلسطین یا مسجد اقصیٰ کی آزادی کی جنگ نہیں رہ گئی ہے بلکہ وہ آخری قلعہ ہے جو پورے عالم عربی و اسلامی کے دفاع میں کھڑی ہوئی ہے۔ اگر یہ مجاہدین آزادی گھٹنے ٹیک دیں گے جیسا کہ اسرائیل کا ان سے مطالبہ ہے اور بعض عرب ممالک ابھی اس بات کے خواہاں ہیں تو پھر کئی دہائیوں تک اس پورے خطہ میں کوئی ایسی طاقت اٹھ کھڑی نہیں ہوگی جو اسرائیل کی بربریت کو چیلنج کر سکے۔ جو عرب ممالک آج اس بات پر خوش ہیں کہ حماس نشانہ پر ہے اور ان کی قوت پامال ہو رہی ہے وہ جان لیں کہ ان کی لاج بھی انہی چند طالع آزما نوجوانوں کے دم سے باقی ہے۔ عالم عربی کو سبق سیکھنا چاہئے کہ ان کے آپسی انتشار اور صہیونیت کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کا ہی نتیجہ ہے کہ یمن سے لے کر فلسطین و لبنان اور شام تک کوئی قطع ارض صہیونیوں اور صلیبیوں کی دست برد سے محفوظ نہیں ہے۔ انہیں اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی پیدا کرنے ضرورت ہے۔ امریکہ و اسرائیل کی اتباع میں ایران کو اس خطہ میں عدم استحکام کے لئے ذمہ دار ماننے کے بجائے اگر اسرائیل کو تمام مسائل کی جڑ مان کر پالیسیاں طے کی جائیں تو بہت سے بہتر نتائج کی امید کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے سب سے پہلا قدم یہ اٹھانا ہوگا کہ عرب ممالک امریکہ پر اپنا ذلت آمیز انحصار ختم کریں اور اپنے مسائل کے حل کے لئے واشنگٹن کا رخ کرنے کے بجائے مکہ، دوحہ و دمشق کو اپنا مرکز بنائیں۔ اگر یہ ممالک ابھی بھی مسئلہ فلسطین کو حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو عراق جیسے انجام سے خود کو بچا سکتے ہیں ورنہ کوئی نہیں جانتا کہ اگلا نمبر کس کا ہوگا۔ کیونکہ امریکہ اپنے مفاد کی خاطر کسی بھی حد کو جا سکتا ہے جیسا کہ ٹرمپ کے جنونی فیصلوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جب تمام اسلامی و عرب دنیا کا مفاد مشترک ہے تو اس قدر آپسی انتشار کیوں؟ پوری اسلامی امت آج اس سوال کی بیجا پیچیدگی سے سخت پریشان ہے۔ اسلامی دنیا میں قیادت کے اس خلا سے جو بے چینی و اضطراب کا ماحول قائم ہے اس کو ختم کرنے کا یہ سب سے مناسب وقت ہے اور مسئلہ فلسطین کا حل اس راہ میں پہلا قدم تصور کیا جانا چاہئے۔
(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)