داغ دھونے کیلئے مشترکہ کوششیں ضروری

0

ہندوستان ایک کثیر الثقافتی اور متنوع ملک ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے رہتے ہیں لیکن اس تنوع کے ساتھ فرقہ وارانہ حالات بھی اکثر سر اٹھاتے رہے ہیں ۔مذہبی خیالات اور نظریات سے اختلاف، غلط فہمیاںہی فرقہ وارانہ کشیدگی، تنائو اور تصادم کا سبب بنتی ہیں جو بدامنی اور تشدد، ٹکرائو اور نفرت کو اپنے پیچھے چھوڑ جاتی ہے ۔آزادی کے بعد وطن عزیز نے اس ماحول کو بنتے اور بگڑتے ہوئے کئی بار دیکھا ہے۔ہمیں یاد ہے کہ ملک میں نفرت نے جب بھی سر اٹھایا تو اسے سخت ناپسند کیا گیا اور اس کا سر کچل دیا گیا۔کیونکہ ایسے ماحول کو ہمیشہ بڑا قبیح اور برا سمجھا جاتا تھا ۔محبت اور بھائی چارہ، رواداری اور یکجہتی اور گنگا جمنی تہذیب کے احساس کا سمندر لوگوں کے دلوں میں ٹھاٹھیں مارا کرتا تھا ۔ملک کے کسی کونے سے تشدد اور فرقہ وارانہ ماحول کے بگڑنے کی آہٹ سنائی دیتی تھی تو لوگ سہم اٹھتے تھے اور نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ عوامی سطح پر حالات کو سدھارنے کی کوششیں تیز ہوجایا کرتی تھیں۔لیکن ادھر کچھ سالوں سے ملک کے فرقہ وارانہ ماحول نے جو کر وٹ لی ہے، اس سے ہر دل و دماغ بے چین ہے۔مذہب کے نام پربدتمیزی اور نفرت پھیلانے کے جنون کا سیاسی کھیل جس دیدہ دلیری سے جاری ہے، اس کو چند لوگوں کے علاوہ ایک بڑے طبقہ کی جانب سے ناپسند نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ اس کو ہوا دینے اور پوری قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔گزشتہ کچھ ماہ سے ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو ہراساں اور تنگ کرنے کا جو سلسلہ چل پڑا ہے وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ارباب حل و عقد، دانشور،انٹلکچوئلس،مذہبی رہنما اور سیکولر ذہن کے لوگ ایک خوف کے عالم میں اس کا حل نکالنے کے راستے تلاش کررہے ہیں ۔ان کا سیدھا سوال ہے کہ یہ سب کس لیے اور کیوں ہو رہاہے اور آخر اس پر لگام کب لگے گی؟ایک بڑے طبقہ کا سوال یہی ہے کہ ’’ ملک کی سب سے بڑی اقلیت آج جن مذہبی محاذ پر ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کررہی ہے اوراسے نشانہ بنایا جارہا ہے، اس کا قصور کیا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ آج ہمارے مذہبی مقامات اور عبادت خانے ایک شر پسند طبقہ کی زد پہ ہیں اور شر پسندوں کے دل میں قانون کا کوئی خوف باقی نہیں رہ گیا ہے؟،دانشوروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب ہر طبقہ کی ترقی اور اس کا ساتھ دینے کی بات کی جاتی ہے تو ایک طبقہ ہی اس ستم کا شکار کیوں ہے؟‘‘، ’’نہ ہمارے عبادت خانے محفوظ ہیں، نہ ہمارے مذہبی جذبات کا کوئی قدر و احترام باقی رہ گیا ہے، نہ ہماری معاشرے میں سماجی سطح پر کوئی حیثیت باقی رہ گئی ہے۔ایک عجب کشمکش کا ماحول ہے جس کی قبیح چادر میں ہم خود کو لپٹا ہوا پاتے ہیں ۔رہی سہی کسر نئے وقف قانون نے پوری کر دی ہے کہ جس سے ہمارے بزرگوں کی جائیدادیں بھی اب ہمارے پاس باقی نہیں بچیں گی اور وہ سب پسماندہ طبقہ کی خیر خواہی اور بھلائی کے نام پرہم سے چھین لی جائیں گی؟ ان کا کہنا ہے کہ ’’ ماب لنچنگ کے واقعات پر لگام لگی تو اب ہمارے عبادت خانے، مدارس، مساجد اور مقبرے زبان حال سے اپنا درد بیاں کررہے ہیں۔ گزشتہ دس بارہ سالوں میںہم پر جو ستم ٹوٹا اور ترقی کے نام پر یکطرفہ طور پر کارروائی کرتے ہوئے ہمارے حکمرانوں کے بلڈوزروں کی ہم پر جو یلغار ہوئی، اس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور سبھی ڈرے سہمے ہوئے اس پورے منظر کو دل پر پتھر رکھ کر دیکھنے کو مجبور ہیں ۔ہم فریاد کریں تو کس سے کریں ،سوائے عدالتوں کے ہمارا اب کسی پر بھروسہ باقی نہیں رہا ۔‘‘

بلاشبہ مذکورہ احساس اس طبقہ کے ہیں جسے اس فکرنے ہلا کر رکھ دیاہے ۔ گزشتہ کچھ ماہ کا کچا چٹھا اٹھا کر ہی دیکھ لیا جائے توحقیقت کا ادراک ہو گا کہ اس متنوع ملک میں ایک بڑی اقلیت جس کا اس ملک کی آزادی کی جدو جہد میں برابر کا حصہ رہا ہے اور بیشمار اپنی قربانیاں پیش کی ہیں ،آئین سے انہیں یکساں حقوق حاصل ہیں ،وہ آج امتیازی سلوک کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ ایسے حالات ہمیں شرمندہ کرنے والے ہیں،جن کو دیکھ کر یہ سوچنا پڑ جاتا ہے کہ یہ ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تصویر تو ہرگز نہیں لگتی!، جہاں مذہب کے نام پر ہم ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں ہیں !

بلا شبہ ہم آج خود کو کتنا ہی ترقی یافتہ کہہ لیں لیکن اندرونی طور پر ہمارے معاشرے کی تصویر بے حد بھدی ہے اور ہم خود کو بیمار محسوس کرتے ہیں ۔جبکہ ہم یہ بھول رہے ہیں کہ ہندوستان ایک تنوع والا ملک ہے ۔یہاںمختلف مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں، یہ پھولوں کے ایک گلدستہ کی مانند ہے جس میں ہر رنگ کے پھول ہیں اور اسے تروتازہ رکھنا اس کے مفاد میں ضروری ہے ۔لیکن فرقہ وارانہ حالات ہندوستان کی اس تنوع کی طاقت کو چیلنج کرتے ہیں اور ہمارے اجلے دامن پر ایک دھبہ ہیں،جن کو دھونا ضروری ہوگیا ہے ۔ یہ کام چند مٹھی بھر لوگوں کے بس کا نہیں ہے ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے سیاسی و معاشی سطح پر مشترکہ کوششوں اور مضبوط آہنی ہاتھوں کی ضرورت ہے جس میں حکومت کا بھی رول اہم ہو جاتا ہے، تبھی ہم ایک خوشحال مستقبل کی طرف آگے بڑھ سکتے ہیں۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS