کوآپریٹو وفاقیت کے نعرہ پر سوالیہ نشان

0

ڈاکٹر جاوید عالم خان

ملک میں کوآپریٹو وفاقیت کی مضبوطی جمہوریت کی بقا کے لیے نہایت اہم ہے۔ لیکن گزشتہ کئی سالوں سے مرکزی حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کے ذریعے صوبائی حکومتوں کے درمیان مستقل جھگڑا، مرکزی اداروں کا ان کے خلاف استعمال اور گورنروں کے ذریعہ صوبائی حکومتوں کے کام کاج میں بے جا دخل اندازی نے ایک طرح سے کوآپریٹو وفاقیت کے نعرہ کو سوالیہ نشان میں بدل دیا ہے۔ سپریم کورٹ کا تمل ناڈو کے معاملات میں گورنر کے ذریعہ مداخلت پر فیصلہ اور وقف ترمیمی بل کی منظوری مرکزی حکومت کی بے جا دخل اندازی کو ظاہر کرتی ہے، ملک میں وفاقی ڈھانچے کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے ایک کمیٹی کا قیام کیا ہے۔
مرکزی حکومت کے ذریعے2020 میں تین زرعی قوانین کو صوبوں کے مشورہ کے بغیر پاس کیا گیا تھا جو کہ ایک طرح سے صوبوں کے اختیارات میں ایک مداخلت تھی کیونکہ زراعت آئین کے مطابق صوبائی فہرست کا حصہ ہے۔ زرعی پیداوار، سپلائی، تجارت اور دیگر معاملات صوبوں کے اختیار میں آتے ہیں۔ مرکزی حکومت نے کسانوں کے احتجاج کے بعد ہی زرعی قانون کو واپس لیا ہے ورنہ یہ سیکٹر بھی پرائیویٹ کمپنی اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں جانے والا تھا۔2019 میں آرٹیکل370کو بھی صوبائی حکومت کے مشورہ کے بغیر ختم کر دیا گیا تھا اور جموں وکشمیر کی دو مرکزی علاقوں میں تقسیم بھی ایک طرح سے مرکزی حکومت کی طرف سے مداخلت تھی۔
جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد صوبائی حکومتوں کے ٹیکس جمع کرنے کے اختیارات میں بھی کمی آئی ہے۔ مرکزی حکومت کے ذریعہ ٹیکس کے نظام میں تبدیلی سے متعلق ایک اور اہم معاملہ حالیہ دنوں میں سامنے آیا ہے۔ مرکزی حکومت اس وقت کافی آمدنی عام ٹیکس کے علاوہ اضافی ٹیکس جیسے سیس(Cess) اور سر چارج(Surcharge) سے اکٹھا کر رہی ہے، جن کو مرکزی حکومت کے مطابق صوبوں کے ساتھ تقسیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔2014میں کل خام آمدنی کا حصہ14فیصد تھا جو کہ2022میں بڑھ کر20فیصد ہوگیا، وہیں مالیاتی کمیشن کے کل ٹیکس آمدنی کا41فیصد صوبوں کے لیے مختص کیا تھا لیکن صوبوں کو صرف30فیصد ہی ٹرانسفر کیا گیا، وہیں سیس اور سرچارج کا حصہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے جس کا استعمال مرکزی حکومت خود کر رہی ہے اور صوبائی حکومتوں کو نہیں دیا جاتاہے۔2018 میں35سیس کے ذریعہ1274592کروڑ روپے اکٹھا کیے گئے تھے جس میں صوبوں کو کوئی حصہ نہیں دیا گیا تھا۔مرکزی حکومت نے مرکزی اسکیموں کے سدھار کے لیے وزیراعلیٰ کی سطح پر ایک کمیٹی بنائی تھی تا کہ ان اسکیموں کے اندر اصلاح کی جاسکے۔ اس کمیٹی نے مرکزی اسکیموں کی کل تعداد کو گھٹا کر28کر دیا اور چھوٹی اسکیموں کو بڑی اسکیموں میں ضم کر دیا، لیکن صوبوں کے لیے ان اسکیموں میں فنڈ شیئر میں اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے صوبوں پر ایک طرح کا مالی بوجھ ہے۔
آزادی کے بعد ملک میں آئین سازی کے دوران اس وقت کی آئین ساز اسمبلی نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ہندوستان ایک وفاقی(Federal) ملک ہوگا، جہاں مرکز اور صوبے دونوں حکومتوں کو چلانے کے لیے پوری طرح سے آئین میں دیے گئے اختیارات کو استعمال کریں گے اور دونوں ہی آئین کے ذریعہ دیے گئے دائرۂ اختیار میں بغیر کسی آپسی رضامندی کے مداخلت نہیں کریں گے۔ آئین نے حکومت چلانے سے متعلق دائرۂ اختیار کے لیے تین طرح کی فہرست کو ترتیب دیا ہے، ان کو مرکزی فہرست، صوبائی فہرست اور متفقہ یا مشترکہ(Concurrent) فہرست کے نام جانا جاتا ہے۔وقتاًفوقتاً ترمیم کے ذریعہ صوبائی اور متفقہ فہرست میں بدلاؤ بھی لایا گیا ہے۔
مرکزی فہرست میں کرنسی، دفاع، خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی، قومی سلامتی، ریلوے، ہوابازی اور ٹیکس پالیسی جیسے کئی دیگر اہم معاملات اور اختیارات شامل ہیں جو صوبائی حکومتوں کے اختیار سے باہر ہیں۔ صوبائی فہرست میں ترقی سے متعلق تمام تراختیارات کو شامل کیا گیا ہے۔ متفقہ فہرست میں مرکز اور صوبہ کے باہمی اشتراک سے متعلق اختیارات کا عمل درآمد کیا جائے گا جیسے کہ تعلیم۔ اس فہرست میں تمام پالیسی کو ایک دوسرے کے تعاون سے نافذ کیا جائے گا لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئین نے ترقی کے کام سے متعلق اختیارات زیادہ تر صوبوں کو سونپے ہیں۔ آئین نے آمدنی اور ٹیکس جمع کرنے کے اختیارات کو کافی حد تک مرکز کے حوالے کر دیا ہے اور اس کی وجہ سے صوبائی حکومتوں کا انحصار مرکزی حکومت پر زیادہ ہے۔
مذکورہ اختیارات کے نفاذ اور نگرانی کے لیے دو اہم ادارے بنائے گئے تھے، ان کا نام مرکزی مالیاتی کمیشن (Union Finance Commission) اور پلاننگ کمیشن (Planning Commission) ہے۔ مرکزی مالیاتی کمیشن کی ذمہ داری ٹیکس کے ذریعہ جمع کی گئی آمدنی کو مرکز اور صوبوں کے بیج تقسیم کرنا ہے اور ساتھ ہی ٹیکس کی تقسیم صوبوں کے مابین بھی کرنا ہے۔ اس کے علاوہ علاقائی حکومتوں جیسے کہ پنچایتی راج اداروں(گرام پنچایت، بلاک پنچایت اور ضلع پنچایت)اور شہری علاقوں میں لوکل باڈی(میونسپل کارپوریشن،میونسپل کاؤنسل اور نگر پنچایت) کو بھی مرکزی گرانٹ عطا کرنا بھی مرکزی مالیاتی کمیشن کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے۔1992-93میں73اور74ویں آئین کی ترمیم کے ذریعہ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ان اداروں کو مرکز سے علاقائی ترقی کے لیے گرانٹ عطا کی جائے گی۔ لیکن ان اداروں کو ضرورت کے مطابق اور صحیح وقت سے مالی امداد مہیا نہیں کرائی جارہی ہے۔
1950میں پلاننگ کمیشن کو ایک پالیسی ساز اور منصوبہ بندی کے ادارہ کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا جس کو بعد میں صوبائی سطح پر پلاننگ بورڈ اور ضلع کی سطح پر ضلع منصوبہ بندی کمیٹی کو پلاننگ کمیشن سے جوڑنے کی کوشش کی گئی اور یہ کوشش بھی کی گئی کہ ملک کے تمام انسانی، قدرتی اور مالی وسائل کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کی جائے اور تمام پسماندہ علاقوں اور پسماندہ طبقات کی ترقی میں بہتری لائی جائے اور ترقی کے پورے عمل میں عوام اور مختلف سطح کی حکومتوں کی شمولیت کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔2013میں کئی غیرکانگریسی صوبائی حکومتوں نے مرکز پر الزام لگایا کہ وہ آئین کے ذریعہ دیے گئے اختیارات میں دخل اندازی کر رہی ہے اور ترقیاتی وعدوں کی پاسداری بالکل ہی نہیں کر رہی ہے۔ صوبہ گجرات اس معاملے میں آواز اٹھانے میں سب سے آگے تھا۔ اور یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ پلاننگ کمیشن غیر کانگریسی سرکاروں کے ساتھ سوتیلا سلوک کر رہی ہے۔ 2014میں نئی حکومت نے ان سارے الزامات کے مدنظر پلاننگ کمیشن کو تحلیل کر دیا اور نئے ادارہ کی تشکیل کی گئی جس کا نام نیتی آیوگ(National Institute of Transform) ہے۔
یکم جنوری 2015 کو نیتی آیوگ نے کیبنٹ کے ذریعہ اپنے منظور شدہ قرار داد میں وفاقی ڈھانچہ کو مضبوط بنا نے کے لیے کئی سارے مقاصد پر زور دیا تھا۔جس میں یہ ہے کہ ہندوستان ایک متنوع(Diverse) ملک ہے جہاں مختلف زبان، ثقافت اور عقیدہ کے ماننے والے رہتے ہیں۔ صوبائی حکومتیں مرکزی حکومت کے اختیار میں نہیں ہیں بلکہ ترقی کے لیے پالیسی سازی اور معاشی نمو کے معاملہ میں فیصلہ لینے کے لیے وہ با اختیار ہیں۔ ایک سائز سب کے لیے مناسب ہے(One size fits all) جیسے طریقہ کار سے مرکز کی سطح پر بنائی جانے والی پالیسی اور منصوبہ بندی کی وجہ صوبوں کے ساتھ ایک ٹکراؤ پیدا کر رہی ہے جو ملک کی سطح پر کی جانے والی ترقی کی کوششوں میں رکاوٹ ہے۔
نیتی آیوگ کا ایک اور مقصد یہ بھی تھا کہ کوآپریٹو وفاقیت (Cooperative federalism)کے ذریعہ صوبوں کی مالی ضرورتوں کو مسلسل پورا کیا جائے گا اور یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ ایک مضبوط ملک کے لیے صوبوں کی مضبوطی انتہائی ضروری ہے۔لیکن یہ بات قابل افسوس ہے کہ نیتی آیوگ نے اس سمت میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی بلکہ اس کے برعکس باہمی امداد(Cooperation) کے نعرے کے ذریعہ وفاقی ڈھانچہ کو ایک حد تک کمزور کیا جا رہا ہے۔ مرکزی حکومت کے ذریعہ بنائے گئے غیرمناسب قوانین،پالیسی اور مرکزی اداروں کے بغیر کسی وجہ کے استعمال کے ذریعہ صوبوں کی خود مختاری کو بھی کم کیا جا رہا ہے۔
اسی طرح سے مرکزی مالیاتی کمیشن نے اپنی پندرہویں رپورٹ میں تین صوبوں کو خصوصی پیکیج کے ذریعہ علیحدہ گرانٹ(6764کروڑروپے) دینے کی سفارش کی تھی جس کو مرکزی حکومت نے نامنظور کر دیا تھا، اس کے علاوہ کمیشن نے غذائیت کو بہتر کرنے کے لیے7735کروڑ روپے صوبوں کے لیے مختص کیے تھے، اس کو خارج کر دیا گیا تھا۔ مخصوص سیکٹر اور چنندہ صوبوں کے لیے مختص کی گئی گرانٹ جو کہ بالترتیب129987کروڑ روپے ہیں کو بھی مرکزی حکومت نے نامنظور کر دیا ہے۔ صوبوں کے قرض لینے کے اختیارات میں بھی مرکزی حکومت مداخلت کر رہی ہے۔2020-21 میں بجٹ کے باہر لیے گئے قرضوں کو مرکز نے صوبوں کے بجٹ کے اندر ہی رکھنے کو کہا اور اس کے لیے کچھ حد یں بھی طے کر دی ہیں جبکہ بجٹ کے مرکزی قانون(Fiscal Responsibility (and Budget Management Act میں اس طرح کی کوئی تجویز موجود نہیں ہے، نہ ہی مالیاتی کمیشن نے بھی ایسی کوئی سفارش کی ہے۔ بڑھتے ہوئے سرکاری قرضوں کا بوجھ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے مالی حالات کو متاثر کر رہا ہے جس کے لیے ایک کمیشن کی تشکیل کا وعدہ کیا گیا تھا جو ابھی تک پورا نہیں کیا جا سکا ہے۔ بجٹ کے مرکزی قانون کے مطابق عام طور پر صوبائی حکومتوں کے ذریعہ لیے گئے قرض کو اثاثہ بنانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے نہ کہ روز مرہ کے اخراجات پر لیکن یہ شرط مرکزی حکومت نے صوبوں کے لیے لازم کی ہے لیکن اس کے برعکس مرکزی حکومت کے ذریعہ لیا گیا قرض گزشتہ10سالوں میں تین گنا بڑھ گیا ہے۔
(مضمون نگار اقتصادی امور کے تجزیہ نگار ہیں۔)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS