یوم امبیڈکر 14 اپریل کو ملک بھر میں عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا۔ یہ دن صرف ایک عظیم مفکر،مصلح اور آئین ساز کو یاد کرنے کا موقع نہیں، بلکہ یہ آئین کی روح،سماجی انصاف، مساوات اور جمہوری قدروں کی تجدید کا دن بھی تھا۔ اسی دن دو اہم تقاریر سامنے آئیں جنہوں نے ملک کی فکری سمت کا تعین کرنے والے دو زاویوں کو نمایاں کر دیا۔
وزیراعظم نریندر مودی نے 14 اپریل کی صبح پارلیمنٹ ہاؤس میں بابا صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کی رسمی تقریب میں شرکت کی۔اس تقریب میں صدر جمہوریہ،نائب صدر اور دیگر اہم شخصیات بھی موجود تھیں۔ اس کے فوراً بعد وہ ہریانہ کے شہر حصار روانہ ہوگئے جہاں ایک شاندار تقریب منعقد کی گئی۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں عوام سے خطاب کیا،حصار سے اپنے پرانے رشتے کو یاد کیااور اپنی حکومت کی پالیسیوں کو امبیڈکر کے نظریات سے ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے خود کو ان کے مشن کا سچا وارث بتایا۔انہوں نے ہوائی سروس کے آغاز کا ذکر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ چپل پہننے والا بھی ہوائی جہاز میں اڑ سکتا ہے اور ساتھ ہی کانگریس پر شدید حملے کرتے ہوئے اسے امبیڈکر کی توہین کا ذمہ دار قرار دیا۔ وقف ایکٹ،ریزرویشن اور مذہب کی بنیاد پر سیاست جیسے حساس موضوعات کو نشانہ بنا کر انہوں نے بی جے پی کو ’سچے سماجی انصاف‘ کا علمبردار ثابت کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے الزام لگایا کہ کانگریس نے نہ صرف امبیڈکر کو انتخاب میں ہرایا بلکہ ان کی یاد کو مٹانے کی بھی کوشش کی۔ یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت کا ہر فیصلہ امبیڈکر کے اصولوںپرمبنی ہوتا ہے اور بی جے پی کا مقصد محروم طبقات کی ترقی اور بااختیاری ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ایسا ہوتا تو بی جے پی کی مرکزی اور بیشتر ریاستی حکومتوں میں ایک بھی مسلم وزیر کیوں نہ ہوتا؟ وقف کے نئے قانون کے خلاف جاری ملک گیر احتجاج، ہوائی سفر کی ناقابل رسائی قیمتیں اور اقلیتوں کی عملی بے دخلی ان دعوؤں کو مشکوک بنا دیتی ہے۔
دوسری طرف،اسی دن دہلی میں حکومت ہند کے زیر اہتمام ڈاکٹر امبیڈکر کے پہلے میموریل لیکچر کا انعقاد ہوا،جس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس بی آر گوئی نے کلیدی خطاب کیا۔ اس لیکچر کا موضوع تھا ’’آئین اور قوم کی تعمیر میں ڈاکٹر امبیڈکر کا تعاون‘‘۔ جسٹس گوئی نے اپنی تقریر میں نہایت شائستگی،فکری استواری اور آئینی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے امبیڈکر کے افکار کو ذات،نظریے اور شخصی وابستگی سے بلند تر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج ملک کا وزیراعظم ایک پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور فخر سے کہتا ہے کہ وہ آئین کی بدولت اس عہدے پر پہنچا ہے تو یہ امبیڈکر کے خواب کی تعبیر ہے۔ انہوں نے اپنے والد کے امبیڈکر کے ساتھ کام کرنے کا ذکر کرتے ہوئے اسے اپنے لیے ایک فکری وراثت قرار دیااور اعتراف کیا کہ وہ خود بھی صرف آئین کی بدولت سپریم کورٹ کے جج کے منصب تک پہنچے ہیں۔
انہوں نے امبیڈکر کو ایک ایسی شخصیت قرار دیا جو ذاتی مفاد یا ذات پات سے بلند ہو کر قومی مفاد میں آئین سازی میں مصروف رہے۔ ان کے مطابق امبیڈکر نے ایک ایسا آئین وضع کیا جو 75 سالوں کے سیاسی و سماجی طوفانوں کے باوجود اپنی روح پر قائم ہے۔ جسٹس گوئی کی تقریر میں وہی وقار،گہرائی اور آئینی وابستگی جھلکتی ہے جس کی توقع ملک کے اعلیٰ ترین عدالتی منصب سے کی جاتی ہے۔
یوںیوم امبیڈکر کے موقع پر دو تقاریر ہوئیں ایک،جو آئین کو اپنی سیاست کا سہارا بناتے ہوئے مخالفین پر وار کر رہی تھی اور دوسری،جو آئین کو ایک مقدس دستاویز کے طور پر خراج عقیدت پیش کر رہی تھی۔ ایک نے بابا صاحب کے نام پر ذاتی اور جماعتی مفاد کی بات کی تو دوسری نے ان کے نام پر قومی وحدت، مساوات اور آئینی بالادستی کی بات کی۔ یہ دونوں تقاریر نہ صرف اندازفکر کا فرق ظاہر کرتی ہیں بلکہ یہ سوال بھی اٹھاتی ہیں کہ امبیڈکر کی وراثت کو ہم کس طرح یاد کر رہے ہیں۔کیا اس وراثت کو ہم بطور ایک سیاسی ہتھیاریاد رکھے ہوئے ہیں یاایک آئینی عہدکے طور پر یہ ہمارے سینوں میں سلگ رہی ہے؟ اور شاید یہی سوال آنے والے وقتوں میں ہماری جمہوری تقدیر کا تعین کرے گا۔