نوجوانوں میں سانس کی بیماری کے بڑھتے خطرات!

0

ایم اے کنول جعفری

سانس کی بیماری صرف بزرگوں اور بچوں کے لیے ہی خطرے سے خالی نہیں ہے، یہ نوجوانوں کے لیے بھی بے حدخطرناک ہے۔بالغان میں دمہ اور سانس کے مسائل بڑھ رہے ہیں،جو تشویشناک ہے۔ ان سے سانس لینے میں دشواری تو ہوتی ہی ہے، کھانسی، گھرگھراہٹ اور سینے میں جکڑن جیسی پریشانیاں زندگی کے معیار کو متاثر کرسکتی ہیں۔ ان کی وجوہات میں فضائی آلودگی،تمباکو نوشی اور بعض طبی حالات اہم ہیں۔شہری علاقوں میں سانس کی بیماری کی بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے۔تمباکو نوشی، خاص طور پر ای- سگریٹ یا بخارات پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور سانس کے مسائل کے امکانات کو بڑھا سکتے ہیں۔ جہاں تک دمے کا سوال ہے تو دمہ ایک طویل مدتی بیماری ہے۔یہ ہوا کی نالیوں کو تنگ کرتی ہے،جس سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ ایک نئی تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ بالغ افرادجو ریسپائریٹری سنشیل وائرس(آر ایس وی) سے منسلک سانس کی بیماری ’آرایس وی-اے آر آئی میں مبتلا ہیں، اُن میں ایک برس کے درمیان موت کا خطرہ عام لوگوں کے مقابلے میں تقریباً2.7گنا زیادہ پایاگیا ہے۔ ڈنمارک میں کی گئی ایک تحقیق میں محققین نے اپنے مطالعہ کے ذریعہ بالغ افراد کو خبردار کیا ہے۔

اس مطالعے کو آسٹریا میں یوروپین سوسائٹی آف کلینکل مائیکرو بایولوجی اینڈ انفیکشیس ڈیزیز(ای ایس سی ایس آئی ڈی گلوبل2025) کی ایک کانفرنس میں پیش کیا جانا ہے۔ یہ مطالعہ ڈنمارک میں 2011 سے 2022 کے درمیان18برس سے زیادہ عمر کے5,289مریضوں پر کیے گئے ٹیسٹ اور اعدادوشمار پر مبنی ہے۔ ان سبھی کو آر ایس وی-اے آر آئی کی پریشانی تھی۔ ان مریضوں کا موازنہ15,867عام لوگوں سے کیا گیا اور ایک برس تک ان کی نگرانی کی گئی۔اس تحقیق کی سرکردہ محقق ماریا جاؤ فوسیکا نے کہا،’اس میں سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ بیماری کے شدید مرحلے کے بعد بھی مریضوں کی حالت عام لوگوں سے زیادہ خراب رہی۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آر ایس وی-اے آر آئی کا اثر فوری نہیں ہوتا،بلکہ طویل عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔

سانس لینے کی دیگر دشواریوں میں کرانک آبسٹریکٹو پلمونری ڈیزیز(سی او پی ڈی) کے علاوہ لنگس فائی بروسیس بھی نوجوانوں میں دیکھی جا رہی ہیں۔سی او پی ڈی کے سب سے زیادہ معاملے ہندوستان میں پائے جاتے ہیں۔یہاں ایسے مریضوں کی تعداد 5کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ سی او پی ڈی سے سب سے زیادہ مرنے والوں میں دنیا میں ہندوستان کا مقام دوسرا ہے۔ اس بیماری سے ہر سال 8.5لاکھ ا موات ہوتی ہیں۔ آر ایس وی انفیکشن کی علامات میں ناک کا بہنا، کھانسی، بخار،سانس لینے میں دشواری اور تکان شامل ہے۔یہ وائرس خاص طور سے بزرگوں، نوزائیدہ بچوں اور کمزور مدافعاتی نظام والے افراد کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ سانس لینے میں دشواری کا مطلب سانس لینے میں تکلیف اور مکمل سانس لینے سے قاصر ہونے کا احساس ہے۔

یہ مسائل اچانک پیدا ہو سکتے ہیں یا پھر آہستہ آہستہ فروغ پا سکتے ہیں۔ سانس لینے میں کافی دشواری ہوتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ سانس کے لیے وافر مقدار میں ہوا نہیں مل پا رہی ہے۔ سانس کے مسائل کی واضح اور عام علامت سانس لینے میں پریشانی یا سانس کی قلت محسوس کرنا ہے۔ سانس چھوڑتے اور بعض مرتبہ سانس لینے کے اوقات میں سیٹی کی آواز یا گھرگھراہٹ، چہرے کی سرمئی یا پیلی رنگت، پھڑکتے ہوئے نتھنے، ناخن یا منہ کا نیلا پڑنا، سر میں پسینہ، بخار، گلے میں جکڑن، سینے میں درد یا دباؤ بھونکنے والی کھانسی، گہری سانسیں،سانس کی قلت سے رات کو جاگتے رہنا اور مسلسل بیٹھنے پر مجبور کرنا سانس کی بیماری کی علامات میں شامل ہیں۔ سانس لینے میں دشواری کی وجوہات میں عام صحت کے خدشات، سادہ ماحولیاتی مسائل ہیں۔ ذہنی پریشانی اورتناؤ کے علاوہ دھول، دھواں اور الرجی پیدا کرنے والی دیگر چیزیں،گلے کا بلغم اور بھری ہوئی ناک اس بیماری کے اسباب میں شامل ہیں۔

پھیپھڑوں کی متعدد حالتوں میں نمونیا اور برونکائٹس بھی سانس لینے میں دشواری کا باعث بنتے ہیں۔ان میں پلمونری ایمبولزم، پلمونری، دائمی رکاوٹ پلمونری بیماری (COPD)، دمہ، ہائی بلڈ پریشر، کروپ، ایپی گلوٹائٹس،ہیاٹل ہرنیا شامل ہیں۔ اریتھمیا، کورونری دمنی کی بیماری(CAD)،دل کی بعض حالتیں،جیسے پیدائشی دل کی بیماری، دل کی ناکامی اور دل کا دورہ بھی سانس لینے میں دشواری کے لیے ذمہ دار ہیں۔سانس کے مسائل جینیاتی بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ خاندان میںایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ غیر صحت بخش خوراک اور ورزش کی کمی بھی سانس کی بیماری کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔ سانس لینے میں دشواری کی تشخیص کرتے وقت آکسیجن کی سطح کی جانچ، بنیادی طبی حالات کے لیے سینے کا ایکسرے، دل کے نقصان کی جانچ کے لیے الیکٹرونک کارڈیوگرام (ECG)،دل کی گنگناہٹ، دل کے نقصان یا انفیکشن کی پرکھ کے لیے ایکو کارڈیوگرام،پھیپھڑوں کی کارکردگی جانچنے کے لیے لنگس فنکشنل ٹیسٹ(LFT)، دل اور پھیپھڑوں کی جسمانی مشقت کا جواب دینے کے لیے ایکسرسائز ٹیسٹ(ET) کیے جاتے ہیں۔
سانس کے مسائل کے علاج کا انحصار تشخیص کے نتائج اور شناخت شدہ وجوہات پر مبنی ہے۔

اگر سانس میں دشواری کی وجہ تناؤ ہے تو اس سے نمٹنے کے طریقہ کار میں ہنسی کی تھیراپی، اعتدال پسند ورزش، مشاورت اور مراقبہ سودمند ہو سکتا ہے۔ اگر سانس میں دشواری کی وجہ پھیپھڑوں یا دل کی حالت ہے تو مناسب ادویات کے طور پر انہیلر کے استعمال کے علاوہ اینٹی ہسٹامائن دوا تجویز کی جاسکتی ہے۔ انتہائی نازک صورت حال میں سانس لینے والی مشین یا اسپتال میں نگرانی کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ اگر دل یا پھیپھڑوں کے حالات کی خاندانی یا طبی تاریخ، مسلسل تناؤ کا سامنا، موٹاپا یا الرجی ہے تو سانس لینے میں دشواری کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ان حالات میں جلد از جلد ماہر امراض سے طبی مشورہ حاصل کرنا انتہائی ضروری اور مفید ثابت ہو سکتا ہے۔سانس کے مریض کے لیے بیڑی، سگریٹ اور تمباکو کا استعمال فوراً چھوڑ دینا چاہیے۔ ممکن ہو تو فضائی آلودگی والے مقامات سے دُور رہیں اور چہرے پر ماسک لگائیں۔ صحت مند طرز زندگی کے لیے صحت بخش خوراک لینا، باقاعدگی سے ورزش کرنا اور بھرپور نیند لینا سود مند ہو سکتا ہے۔ الرجی والی اشیاء سے پرہیز کریں۔ انفیکشن کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ بھیڑبھاڑ والے مقامات پر نہ جائیں اور بیمار لوگوں سے رابطے سے ہرممکن گریز کریں۔ جوانی میں سانس کی بیماریاں ایک سنگین مسئلہ ہیں،لیکن ان پر قابو پانا ممکن ہے۔ نومبر 2024میں دہلی میں فضائی آلودگی سے سانس پھولنے کے 30فیصد مریض بڑھ گئے تھے۔محققین نے نوجوان مریضوں میں سانس پھولنے، گھرگھراہٹ ہونے، سینے میں درد ہونے اور کھانسی ہونے یا بلغم آنے جیسی شکایات پائیںاور تقریباً ایک چوتھائی سے زیادہ افراد نے سانس لینے میں دقت کی بات کہی۔

ماہرین کے مطابق نوجوانوں اور نئی نسل میں سانس پھولنے کا مسئلہ عام ہوگیا ہے۔جنہیں کوئی بیماری نہیں ہے، اُن میں سانس پھولنے کی دو وجوہات ہیں- تمباکو نوشی اور فضائی آلودگی۔ کبھی کبھی تمباکو نوشی نہیں کرنے والے لوگ بھی ’پیسو اسموکنگ‘ کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔آس پاس بیڑی سگریٹ پینے والوں کا دھواں اسموکنگ نہیں کرنے والوں کو خاصا نقصان پہنچاتا ہے۔ حقے کا بڑھتا کریز بھی نوجوانوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق فاسٹ فوڈ کا زیادہ استعمال سانس پھولنے کی وجوہات میں شامل ہے۔ برگر، سموسے،فرینچ فرائز اور آلو کے چپس وغیرہ میں ٹرانس فیٹی ایسڈ ہوتا ہے،جو خراب کولیسٹرول کو بڑھاتا ہے۔ اچھے کولیسٹرول کی کمی سے سانس کا پھولنا اور ’ہارٹ اٹیک‘ جیسی سنگین بیماریاں ہوسکتی ہیں۔بغیر کسی بیماری کے سانس پھولے تو ایکسرسائز یا یوگا سے فیض پہنچتا ہے۔طرز زندگی میں تبدیلی اور کسرت سے جسم کو وافر مقدار میں آکسیجن مل سکے گی۔

(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS