نئی دہلی :جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباکی جانب سے شہریت کے قانون کے حوالے سے مظاہروں میں مختلف شکلیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ جامعہ کیمپس میں آرٹسٹ وفنکاراپنے فن اورہنرکے نظریہ شہریت قانون کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں۔ آرٹسٹ نے اپنے فن کا نمونہ پیش کرتے ہوئے انوکھا احتجاج درج کرایا۔کئی فنکاروں نے شیطان کی تصویر بنائی ہے، جس میں وہ دستور کودانتوںسے کتررہا ہے،توکچھ فنکاروں نے پتھرکی لکیرکو دکھانے کےلئے ایک پتھربنایاہے ، جبکہ ساتھ میں معماردستور بھیم رائوامبیڈکرکے ہاتھ میں ایک ہتھوڑہ بنایا گیاہے، جس کے ذریعے وہ وہ اس پتھر کی لکیر یعنی پتھرکوتوڑ رہے ہیں۔ اسی طرح سے لوگوں کے احتجاج کو دکھانے کےلئے یہ پینٹنگز بنائی گئی ہیں، ساتھ ہی ساتھ این آر سی کولے کر چل رہے تنازعے میں کچھ اس طرح کی پینٹنگز بھی بنائی گئی ہیں، جن میں وقت دستاویزات اور کاغذات کو کھارہا ہے۔پینٹنگ بنانے والے آرٹسٹوں کا کہنا ہے ہے کہ وہ شہریت قانون کے خلاف اپنی آواز اٹھا رہے ہیں۔ایک آرٹسٹ نے بتایاکہ دراصل اس اس شہریت قانون سے ہمارے دستور میں دیے گئے برابری کے حقوق اورپرامن احتجاج کا وائی لیشن اور خلاف ورزی ہوئی ہے۔ ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم اس قانون کے خلاف ہیں اورجامعہ کے طلبہ کی بھوک ہڑتال جاری ہے اور جاری رہے گی۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباکی شہریت قانون کے خلاف تحریک 21ویں دن میں داخل ہوگئی ہے۔ کل سے طلبانے بھوک ہڑتال کی شروعات کی تھی۔ آج دوسرے دن بھی کچھ طلبا ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔ ان طلباکا کہنا ہے کہ گاندھی جی اور اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قریبی تعلق رہا ہے۔ گاندھی جی نے بھی اپنا مقصد حاصل کرنے کےلئے ستیہ گرہ اور بھوک کا راستہ اپنایا تھا۔ طلباکا کہناہے کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ سرکارہم سے آکر بات کرے اور شہریت قانون کو واپس لے، ہم تب تک احتجاج کرتے رہیں گے۔ جب تک سرکار ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کر لیتی۔
دوسری جانب قومی شہریت قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف شاہین باغ میں خواتین مظاہرین کے حوصلے کو سلام کرنے پہنچنے والے جن ادھیکار پارٹی کے صدر اور سابق رکن پارلیمنٹ رنجیت رنجن عرف پپو یادونے کہا کہ 1857سے اب تک ہر محاذ پر مسلمانوں نے قربانیاں دی ہیں اور مسلمانوں کو اب اور کتنی قربانیاں دینی ہوں گی۔ انہوں نے کہاکہ ملک کوجب جب قربانی کی ضرورت پڑی ہے مسلمانوں نے صدق دل سے دی ہے ،انہوں نے سوالیہ لہجے میں کہا کہ آخر کب تک مسلمانوں سے قربانی لی جائے گی؟ انہوں نے کہاکہ قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی، این آر پی صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ بڑی تعداد میں ہندو بھی اس کی زدمیں آئیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ ایس سی ایس ٹی،بنجارہ سمیت ملک کے غریب طبقہ کے پاس کوئی دستاویزات نہیں ہیں آخر وہ کہاں سے دستاویزات لائیں گے۔انہوں نے کہا کہ یہ قانون صرف مذہبی تقریق پر مبنی ہی نہیں، بلکہ آئین مخالف بھی ہے۔ اس لئے اس کی ہر سطح پر مخالفت کی جانی چاہئے اور ملک کا ہر طبقہ آج اس کی مخالفت کر رہا ہے ۔ انہوں نے خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ شاہین باغ کی خواتین نے مظاہرین کی تاریخ میں اپنا نام درج کروالیا ہے اور پورے ملک کی خواتین کو اس سے حوصلہ ملے گا۔ انہوں نے آزادی کے حق میں بھی نعرے لگائے۔سابق سائنسد اں اور سماجی کارکن گوہر رضا نے شہریت ترمیمی قانون کو ہندو بنام مسلمان بنانے کی حکومت کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس سے آپ کو بچنا ہوگا۔حکومت نے پوری کوشش کی ہے کہ اس مسئلہ دونوں فرقہ کے لوگ بٹ جائیں۔ انہوں نے کہاکہ اس مسئلہ کو دونوں طرف سے اس احتجاج کو ہندو بنام مسلمان اور مسلمان بنام ہندوبنانے کی کوشش کی جائے گی اور آپ کو اس سے ہوشیار رہنا ہے اور کسی طرح اس لڑائی کو ہندو اور مسلمان کے رنگ میں رنگنے نہیں دینا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس قانون کی مخالفت اور واپس لئے جانے کےلئے ضروری ہے کہ ہم جاگتے رہیں، جس طرح آپ (شاہین باغ کی خواتین مظاہرین)جاگ رہی ہیں۔ آپ کے مسئلے کو پوری شدت کے ساتھ ہر محاذ پر اٹھایا جارہاہے اور اس میں کامیابی ضرور ملے گی۔ آپ نے پورے ملک کےلئے ایک مثال پیش کی ہے ۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر پرشوتم اگروال نے خواتین مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت ملک میں غیر معلّنہ ایمرجنسی کے حالات ہیں اور میڈیا خبریں دینے کے بجائے میڈیا خبریں پیدا کررہا ہے اور اس کے ذریعہ سماج میں پھوٹ پیدا کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ زندگی میں گالی گلوج سے بچنا ہے تو نیوز چینلوں سے دور رہیں۔انہوں نے شہریت ترمیمی قانون کو مسترد کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کو ایسا محسوس ہوا کہ قوم سو رہی ہے اور جو بھی قانون بنائیں گے، اس کا کوئی ردعمل نہیں ہوگا، لیکن اس بار اس کا دائم الٹا پڑگیا ہے۔ انہوں نے شاہین باغ کی خواتین مظاہرین کے حوصلے کو سراہتے ہوئے کہاکہ شاہین باغ خواتین مظاہرین نے اپنا نا م دنیا کی تاریخ میں درج کروالیا ہے۔یہ چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں اور خواتین نے جس طرح جرا¿ت کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے کامیابی یقینی ملے گی۔ کیونکہ انہوں نے اپنے لئے نہیں، بلکہ آئین کی حفاظت کےلئے لڑائی چھیڑی ہے۔ وہاں کا نظام دیکھنے والی صائمہ خاں نے بتایا کہ اب تک دن رات کے مظاہرے میں حال ہی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف آئی جی کے عہدے سے استعفیٰ دینے والے عبد الرحمن،فلمی ہستی ذیشان ایوب، مشہور سماجی کارکن،مصنف اور سابق آئی اے ایس افسر ہرش مندر، فلمی اداکارہ سورا بھاسکر، کانگریس لیڈر سندیپ دکشت، بارکونسل کے ارکان، وکلا،جے این یو کے پروفیسر، سیاست داں سریشٹھا سنگھ، الکالامبا، سابق ایم ایل اے آصف محمد خاں، بھیم آرمی کے سربراہ چندر شیکھر آزاد، سماجی کارکن شبنم ہاشمی، پلاننگ کمیشن کی سابق رکن سیدہ سیدین حمید، وغیرہ جیسے اہم افرادنے شرکت کرکے ہمارے کاز کی حمایت کی ہے ۔انہوں نے بتایا کہ آگے بھی ملک کی اہم شخصیات کی شرکت کی توقع ہے ۔