ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
صہیونی ریاست اسرائیل اور مشرق و مغرب میں موجود اس کے حامیوں میں گزشتہ چند دنوں کے اندر ایک نئی امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید اب فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں میں اتنی ہمت باقی نہیں رہ گئی ہے کہ وہ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور معصوم فلسطینی بچوں اور عورتوں کے مجرمانہ قتل عام کا مقابلہ کر سکے۔ اسرائیل کی اس رجائیت میں صرف مغربی ممالک ہی نہیں بلکہ عرب حکمرانوں کی بھی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ عرب و عجم کے ان ملکوں میں یہ امید اس لئے بیدار ہوپائی ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کا بہت خسارہ ہوچکا ہے اور ان کا زور ٹوٹ رہا ہے۔ ساتھ وہ سمجھ رہے ہیں کہ بتدریج ان کے تئیں غزہ کے عوام کی حمایت گھٹ رہی ہے کیونکہ غزہ کے بعض حصوں میں ان کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں اور ان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ان علاقوں سے نکل جائیں تاکہ ان کی مزید تباہی نہ ہونے پائے۔ لیکن یہاں پر تھوڑا توقف کرکے یہ غور کرنا چاہئے کہ کیا غزہ کے مظاہرے واقعی عوام کی جانب سے تھے اور ان کے پیچھے کوئی شرارت پسند ہاتھ اور دماغ نہیں تھے؟
اس حقیقت سے انکار بالکل نہیں ہے کہ غزہ کے حالات ناقابل بیان حد تک ابتر ہیں اور اگر وہ درد سے اچانک چیخ پڑیں اور مطالبہ کر بیٹھیں کہ مزید صعوبتیں چھیلنا ان کے بس کی بات نہیں ہے اور انہیں امن چاہئے تو یقینا وہ حق بجانب ہوں گے اور ان پر کوئی الزام نہیں لگنا چاہئے کیونکہ ان کی قوت برداشت کی بھی ایک حد ہے۔ جن صعوبتوں سے یہ غیور و بہادر قوم گزر رہی ہے اس کا نصف بھی اگر کسی دوسری قوم پر پڑتا تو وہ اب تک ٹوٹ چکی ہوتی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بعض لوگوں نے مظاہرے میں عفویا حصہ لے کر اپنی رائے کا اظہار کیا اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا جو کہ ایک جائز اور معقول مطالبہ ہے۔
لیکن ساتھ ہی ہمیں اس حقیقت سے بھی چشم پوشی نہیں کرنی چاہئے کہ ایسے عناصر بھی زمین پر موجود ہیں جنہوں نے فلسطینیوں کے درد کا فائدہ اٹھاکر انہیں مظاہروں میں نکالنے کا انتظام کیا اور ان عناصر نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان مظاہروں کا رخ غاصب اسرائیلی بربریت کے بجائے مزاحمت و قربانی کی علامت تحریک حماس کے خلاف ہو۔ فلسطینی مسائل و مشکلات پر نظر رکھنے والا بھلا ایسا کون ہے جو اس حقیقت سے واقف نہیں ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کا موقف روز اول سے ہی ’آپریشن طوفان اقصیٰ‘ کے خلاف رہا ہے اور اس سے قبل بھی اس کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ غاصب اسرائیل کے ساتھ معاونت کرکے حماس کو تباہ کیا جائے۔
اسی طرح یہ پہلو بھی پیش نظر رہے کہ صہیونی ریاست غزہ میں اپنے ایجنٹوں کو بھاڑے پر خریدنے میں کامیاب رہی ہے جن کی مدد سے یہ مظاہرے کروائے گئے اور حماس کے خلاف نعرے بازی کروائی گئی، لیکن کیا اسرائیل نے ان علاقوں پر اپنی وحشت ناکی کو بند کیا جہاں حماس کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے؟ جواب نفی میں ہے۔ کتنی دلچسپ بات ہے کہ جو لوگ مزاحمت کاروں بالخصوص حماس کی سپر اندازی کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں وہ ان مظاہروں کو اس انداز میں پیش کر رہے ہیں گویا یہ فلسطینی انتفاضہ کی کوئی نئی تعبیر ہو اور یوں مانو جیسے مزاحمت کاروں کا وہ عوامی ڈھال ٹوٹ گیا ہو جس کے سہارے وہ اپنی کوششیں اب تک جاری رکھے ہوئے تھے۔
لیکن وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ابھی بھی غزہ میں حماس کی گرفت وہاں کی سیکورٹی پر مضبوط ہے اس کے باوجود انہوں نے ان مظاہروں کی اجازت دی اور ان سے کوئی تعرض نہیں کیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان مظاہروں کے باوجود بھی ان کی حمایت کی جڑیں بہت گہری اور وسیع ہیں۔ حماس کی یہ خود اعتمادی بے وجہ نہیں ہے۔ اس کا پتہ اس سروے سے بھی چلتا ہے جس کو فلسطینی مرکز برائے سیاسی تحقیقات اور امریکی آرٹس انٹرنیشنل سینٹر نے مشترکہ طور پر جنوری میں کیا تھا۔ یہ سروے غزہ میں یہ جاننے کے لئے کروایا گیا تھا کہ 7 اکتوبر 2023 سے لے کر جنوری 2025 تک میں عوام کی کیا رائے رہی ہے۔
اس سروے سے معلوم ہوا کہ حماس کے حق میں 52 فیصد سے زائد لوگ تھے جبکہ دوسرے نمبر پر وہ لوگ تھے جنہوں نے کوئی رائے ظاہر نہیں کی تھی اور ان کی شرح 24 فیصد تھی جبکہ فتح کے حق میں صرف 22 فیصد لوگ ہی تھے۔ ممکن ہے کہ اسرائیل کے ذریعہ جنگ بندی معاہدہ کی مخالفت کرنے اور غزہ پر صہیونی بربریت کے آغاز کے بعد اہالیان غزہ کے درمیان مسلح مزاحمت کے تئیں ان کی حمایت گھٹ گئی ہو کیونکہ آخر وہ بھی تو انسان ہیں۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کر لینا کہ مزاحمت کی بنیادیں کمزور پڑ رہی ہیں اور ان کی سپر اندازی کا وقت قریب آگیا محض فریب ہے۔ جو لوگ ایسا سوچ رہے ہیں وہ موجودہ فلسطینی مزاحمت کو بالکل نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ وہ جماعت ہے جس نے اپنا ہدف واضح رکھا ہوا ہے کہ یا تو ارض مقدس کو آزاد کروائیں گے یا جام شہادت نوش کرکے سرخرو ہوں گے۔
یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی و امریکی دھمکیوں اور ان کی وحشیانہ بمباری نے اب تک ان کے قوت مزاحمت میں کوئی اضمحلال پیدا نہیں کیا ہے۔ اس تحریک مقاومت کے اعلیٰ لیڈران نے خود صہیونیت کے خلاف صف اول میں موجود رہ کر شہادت کی جو مثال قائم کی ہے وہ تاریخ انسانی کے اوراق میں ہمیشہ ثبت رہیں گے۔ ان قائدین نے اپنے اہل و عیال کو بھی اپنے عوام کے ساتھ گھروں اور خیموں میں رکھ چھوڑا ہے اور ان کے بچے اور عورتیں بھی اسی طرح شہید ہوتے رہے ہیں جس طرح عام لوگوں کو اس مشکل ترین تجربہ سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے اور ان کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کو سرنگوں میں رکھتے ہیں جبکہ فلسطینی عوام کو مرنے کے لئے چھوڑے رکھتے ہیں۔ اب ذرا سابق امریکی نمائندہ ڈینیس رَوس کی باتیں یاد کیجئے۔
کیا اس نے طوفان الاقصیٰ کے فوراً بعد یہ نہیں کہا تھا کہ عرب حکمرانوں نے ان سے ملاقات کرکے یہ کہا تھا کہ وہ امریکی حکومت سے کہے کہ جلد از جلد حماس سے چھٹکارا دلوائے؟ بعد میں سابق امریکی وزیر خارجہ بلینکن نے بھی اسی بات کو دہرایا تھا۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سچائی سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے کہ مذمت کے روایتی الفاظ کے علاوہ عرب ملکوں نے اسرائیلی بربریت کو روکنے کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی دباؤ کے طریقوں کو اسرائیل کے خلاف استعمال کیا۔ اپنے عوام کو اسرائیل کے خلاف غضب کے اظہار کی اجازت تک نہیں دی۔ بلکہ بعض ذرائعوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مزاحمت کے خلاف اسرائیل کو تعاون بھی بعض عرب ملکوں نے فراہم کئے۔
ایسے سیاہ کارناموں کی روشنی میں ان ملکوں کی یہ توقع کہ مزاحمت سپر انداز ہوجائے بے وجہ نہیں ہے۔ لیکن مزاحمت کاروں نے اسرائیل کے خلاف اپنی طویل مزاحمت کی تاریخ سے یہ سبق سیکھا ہے کہ اسرائیل کے سامنے جھکنے کا نتیجہ ہمیشہ ذلت آمیز اور تباہ کن رہا ہے۔ اس کی بہترین مثال لبنان کی تحریک حزب اللہ ہے جس نے آپریشن روکنے پر آمادگی ظاہر کی اور اقوام متحدہ کی قرار داد کو قبول کیا لیکن اس کے باوجود اسرائیل نے لبنان کے گاؤں اور شہر یہاں تک کہ راجدھانی بیروت پر بمباری کا سلسلہ نہیں روکا۔ اسی طرح عرفات کی قیادت میں ’فتح‘ نے امریکی دباؤ کو 1982 میں قبول کیا تھا لیکن اسرائیل نے ’فتح‘ کا پیچھا کرنا نہیں چھوڑا اور ان کے نئے ہیڈ کوارٹر تونس تک ان کا تعاقب کیا اور آخر کار ان پر مزید دباؤ ڈال کر مڈریڈ اور اوسلو کے معاہدے کروائے گئے لیکن اسرائیل نے ان معاہدوں پر کبھی عمل تک نہیں کیا اور بالآخر یاسر عرفات کی مشتبہ موت ہوگئی لیکن فلسطین کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔
اگر موجودہ مزاحمت سپر ڈال دیتی ہے تو ان کا انجام بھی کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا پورا امکان ہے کہ موجودہ مزاحمت کاروں کی جماعتیں اسرائیل کے آگے سرینڈر نہیں کریں گی اور اپنے اس نعرہ کے مطابق کام کریں گی جس میں انہوں نے کہا ہے کہ یا تو فتح یاب ہوں گے یا پھر شہادت کو گلے لگائیں گے۔ جہاں تک عوام کی صعوبتوں کا تعلق ہے تو ان کو کم کرنے کے لئے عرب ملکوں کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہئے کیونکہ ان میں اتنی استطاعت موجود ہے کہ اگر وہ سنجیدگی سے اپنے نفوذ کا استعمال کریں گے تو اسرائیل اور مغربی ملکوں پر اس کا لازمی طور پر اثر پڑے گا۔ حماس کو مورد الزام ٹھہرانا در اصل اپنی خامیوں بلکہ دانستہ کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے مرادف ہے۔
(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)