ایم اے کنولؔ جعفری
حماس نے جنگ بندی معاہدے پر پوری ایمانداری کے ساتھ عمل کرتے ہوئے 17 مارچ، 2025 کو 8 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرکے ’ریڈکرس‘ کے حوالے کر دیا تھا۔ ان کی رہائی کے لیے جو مقام چناگیا تھا، وہ تباہ حال گھر اسرائیل سے دلیرانہ لڑتے ہوئے جان قربان کرنے والے یحیٰ السنوار کا تھا۔ بڑی تعداد میں فلسطینی شہری اپنے رہنما کو یادکرکے روتے دیکھے گئے۔ اسرائیل کی جانب سے 110 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا تھا لیکن اسرائیل نے امریکہ کی شہ پر جنگ بندی معاہدہ توڑ دیا۔ یہ معاہدہ پرفریب ثابت ہوا۔ اگر حماس تمام قیدیوں کو ایک ساتھ رہا بھی کر دیتا تو بھی اسرائیل یہی کرتا۔ دھوکہ اور فریب کاری اس کی فطرت میں شامل ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو شروع سے ہی کہتے آ رہے ہیں کہ وہ مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل دیں گے۔
صہیونی فوج کے جنگی طیاروں نے ماہ صیام کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے 18 مارچ کو سحری کے وقت غزہ پر امریکی ساخت کے بموں سے درجنوں وحشیانہ حملے کرکے پورے عالم کو حیرت میں ڈال دیا۔ حالیہ جنگ کے پہلے ہی روز بڑی تعداد میںفلسطینی شہید اور زخمی ہوئے۔ ایک اسپتال کو بھی نشانہ بنایاگیا۔ اب حالت یہ ہے کہ اسپتال زخمیوں سے بھر ے پڑے ہیں اور امدادی کام شدید طور پر متاثر ہے۔ کئی علاقوں کی عمارتیں کھنڈر ہو چکی ہیں۔ گنجان آباد علاقوں میں رہنے والے ہزاروں بے گھر افراد،جو پہلے ہی جنگ کے خوف میں زندگی گزار رہے تھے، مزید ظلم وستم کا شکار ہوئے۔ ان حملوں کی شروعات رمضان المقدس میں ایسے وقت میں کی گئی جب غزہ کے رہائشی گھروں،پناہ گزیں کیمپوں، اسکولوں اور اسپتالوں میں سو رہے تھے۔
غزہ کی پٹی میں پہلے ہی روز اسرائیلی فضائی حملوں میںکم از کم 413افراد شہید ہوئے۔ حماس کے مطابق اسرائیل نے جنگ بندی کی منسوخی کے لیے محصور اور بے سہارا شہریوں پر ’غدارانہ‘ حملہ کیا۔ فلسطینی اسلامی جہاد نے اسرائیل پر 19 جنوری سے جاری جنگ بندی کو جان بوجھ کر سبوتاژ کرنے کا الزام لگایا۔ جنگ بندی توڑکر جبالیہ، غزہ سٹی، نصیرات، دیرالبلاح اور خان یونس وغیرہ کو نشانہ بنانے سے جہاں ثالثوں کی کوششیں ناکام ہو گئیں وہیں یرغمالیوں کی رہائی کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا۔ اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے حملے سے قبل امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے فون پر بات کی اور انہیں اپنے پرفریب ارادے سے باخبر کیا۔ وہائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے اسرائیل اور امریکہ کے درمیان مشاورت کی بابت جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ امریکی انتظامیہ کو غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے وسیع حملے کا پیشگی علم تھا۔
امریکی چینل ’فوکس نیوز‘ کو دیے گئے انٹرویو میں کیرولین لیوٹ نے امریکی صدر کے سابقہ بیان کا حوالہ دیا جس میںٹرمپ نے کہا تھا کہ حماس، حوثی،ایران اور جو کوئی بھی نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی کوشش کرے گا، اسے بھاری قیمت چکانی ہوگی اور اس پر جہنم کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ ٹرمپ اس سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ پہلے ہی اعلانیہ انتباہ جاری کر چکے ہیں کہ حماس پر تمام قیدیوں کو رہا کرنالازم ہے، بصورت دیگر اس پر جہنم کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔
حملے سے قبل اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے تل ابیب میں وزارت دفاع کا اجلاس منعقد کیا جس میں دوبارہ جنگ شروع کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔ اس سے پہلے اسرائیل نے شدید کوششوں کے باوجودثالثوں کی جنگ بندی کی پیشکش مسترد کر دی۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان اورین مارموسٹین نے پریس بریفنگ میں کہا کہ حماس غزہ کی پٹی کے مستقبل کا حصہ نہیں بن سکتا۔ جنگ کے اہداف حاصل کرنے کے لیے دوبارہ جنگ شروع کی گئی ہے۔ دوسری جانب حماس کے سیاسی بیورو کے رکن عزت الرشیق کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کا جنگ میں واپسی کا فیصلہ حماس کے قبضے میں موجود صہیونی قیدیوں کو قربان کرنے کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ ہے۔ دشمن جنگ اور تباہی سے وہ سب حاصل نہیں کر پائے گا جو وہ مذاکرات کے ذریعہ حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ فلسطینی گروپ نے عرب، اسلامی ممالک کے عوام اور دنیا بھر کے آزاد لوگوں سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ پر اسرائیل کے تباہ کن حملوں کے خلاف سڑکوں پر اتر کر مظاہرے کریں۔
غزہ پٹی میںاسرائیل کے وسیع تر حملوں کے نتائج میںہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اس دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اسرائیل نے 6 مارچ کو نئے چیف آف اسٹاف ایال زامیر کے منصب سنبھالنے کے ساتھ ہی غزہ کی پٹی پر دوبارہ جنگ شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اس کا انکشاف اور تصدیق اسرائیل کے وزیر مالیات بتسلیل اسموٹرچ نے کی۔ تازہ حملے کا مقصد حماس کو برباد کرنا اور تمام قیدیوں کو واپس لانا ہے۔ اسی پر بس نہیں، اسرائیلی فوج نے غزہ کے مشرقی اور شمال مشرقی حصوں میں متعدد علاقوں، خاص طور پر بیت حانون، خربہ خزاعہ، عبسان الکبیر اور الجدیدہ کے علاقے خالی کرنے کے احکامات جاری کیے اور انہیں خطرناک علاقہ قراردیتے ہوئے آبادی پر غزہ اور خان یونس شہروں کے مغرب میں ’ پناہ گاہی علاقوں‘ میں جانے پر زور دیا۔
رافح کی سرحدی گزرگاہ بند کر دی گئی۔ یہاں سے روزانہ 50 مریضوں اور زخمیوںکو مصر لے جایا جا رہا تھا۔ دیگر مرکزی گزرگاہیں جن میں ’ایرز‘ اور’کرم ابوسالم‘ شامل ہیں، 2 ہفتے قبل بند کر دی گئی تھیں۔یونیسیف کے مطابق، حالیہ حملوں سے بے گھر افراد کی پناہ کے لیے استعمال ہونے والے خیمے اور تنصیبات متاثر ہوئی ہیں۔ ’العربیہ نیوز‘ کے مطابق، خان یونس میں ’المواضی‘ کیمپ کو نشانہ بنایا گیا جس میں غزہ کے مشرق میں رہنے والی آبادی کو جانے کی ہدایت دی گئی تھی۔ حملوں میں رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جن میں پورے پورے خاندان شہید ہو رہے ہیں۔
اسرائیل ایک واضح تذویراتی نقطۂ نظر استعمال کر رہاہے جس میںعمارتوں پر حملہ کرنے سے قبل شہریوں کو وارننگ نہیں دی جاتی۔ اقوام متحدہ میں فلسطینی مشن نے عالمی برادری سے غزہ پر اسرائیلی حملے روکنے کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔ کہا گیا کہ اسرائیل کے جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کی کارروائیوں کے خلاف کارروائی کی ناکامی سلامتی کونسل کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچائے گی۔ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی،انروا،کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی کے مطابق، گزشتہ چند دنوں میںانروا کے مزید 5 ملازمین ہلاک ہو گئے۔ اس طرح ہلاک کارکنان کی تعداد 284 ہو گئی۔ ادھر فرانس نے ’مسئلۂ فلسطین‘ کے دو ریاستی حل پر سعودی عرب کے ساتھ کانفرنس کی صدارت کرنے کا اعلان کیا۔ فرانسیسی صدر ایمینوئل میکروں نے غزہ میں دوبارہ اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی۔ سعودی ولی عہد شاہ سلمان سے فون پر بات کی۔ امید جتائی کہ کانفرنس سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے سیاسی نقطۂ نظر بحال کرنے میں مدد ملے گی۔
یروشلم میںہزاروں اسرائیلیوں نے یاہو حکومت کے انتہا پسندانہ فیصلوں کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔ انٹر نیشنل ہیومن رائٹس گروپس نے اسرائیل کے ان اقدامات کو اجتماعی سزا اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ فلسطینی سینٹر برائے انسانی حقوق کے ترجمان نے عالمی برادری سے فوری طور پرایکشن لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا، ’دنیا کہاں ہے؟ مشترکہ انسانی اقدار کہاں ہیں؟ غزہ خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ عالمی برادری کی محض زبانی مذمت اور بے عمل تشویش فلسطینی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔‘ 18 مارچ سے 24 مارچ کے درمیان اسرائیلی حملوں میںشہید ہونے والوں کی تعداد700کو متجاوز کر گئی۔ ان میں 400 سے زیادہ خواتین و اطفال شامل ہیں ۔ دوسری جانب اسرائیلی صدر نے کہا، ’میرے لیے قیدیوں کو گھر واپس لانے کے مقدس مشن کو مکمل کیے بغیر دوبارہ جنگ شروع کرنا ناقابل تصور ہے۔‘ان کا یہ رد عمل ملک کی داخلہ سیکورٹی ایجنسی ’ شین بیت‘ کے سربراہ رونن بار کو برطرف کیے جانے کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا۔
رونن بار کو برخاست کرنے کا فیصلہ ان کے 7 اکتوبر،2023کے حماس حملے کو روکنے میں ناکامی تسلیم کرنے اور اس سانحے کے لیے اسرائیلی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بعد لیا گیا۔ صدر کے مطابق، ’ جو کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے، وہ ایک تلخ حقیقت ہے اور ان حقائق سے مسائل کو بہت گہرا کرتا جا رہا ہے، اس لیے ان میں پریشان نہ ہونا غیرممکن ہے۔‘ اس دوران اسرائیلی وزیراعظم کے سینئر مشیر اوفیر فلک کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ پر بمباری جاری رکھے گا۔ اس کے نتیجے میں حماس پر دباؤ بڑھایا جا سکے گا اور وہ اسرائیلی قیدیوںکی رہائی کے لیے مجبور ہو جائے گا۔ اسرائیل سے یوروپی ممالک کی جانب سے بھی فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن امریکہ کا ہاتھ کندھے پر ہونے کی بنا پراسرائیل پر کسی مطالبے، کانفرنس اور مظاہرے کا کوئی اثر نظر نہیں آرہا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)