ڈاکٹر برہمدیپ الونے
بنگلہ دیش میں لاکھوں مزدور سڑکوں پر ہیں۔ یہ مزدور گارمنٹس فیکٹریوں کے بند ہونے سے پریشان ہیں۔ جو فیکٹریاں چل رہی ہیں، ان میں کام کرنے والے مزدوروں کو تنخواہ نہیں مل رہی ہے۔ مزدوروں کے مسلسل احتجاج کی وجہ سے کئی فیکٹریاں بند ہوگئی ہیں۔ سرمایہ کار بنگلہ دیش چھوڑ کر جارہے ہیں جبکہ مزدور کارخانوں کو دوبارہ کھولنے، چھٹیوں کی ادائیگیوں اور بونس کا مطالبہ کرتے ہوئے ملک بھر میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ دیہی علاقوں میں روزگار کی کمی، صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی اور تعلیم کی کم سطح ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد زراعت، کاٹیج انڈسٹری یا غیر منظم شعبے میں کام کرتی ہے جہاں وہ مناسب اجرت یا سہولیات سے شدید محروم ہیں۔ عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کو اقتدار میں لانے والی طلبا تنظیمیں بھی اب ان کی مخالفت کر رہی ہیں۔ بنگلہ دیش کی نئی سیاسی پارٹیاں اور بنیادی طور پر طلبا سیاست سے ابھری نیشنل سٹیزن پارٹی نے یونس اور فوج کو نشانہ بناتے ہوئے ہندوستان کے اثر و رسوخ کے الزام لگائے ہیں۔ اس طرح بنگلہ دیش کی داخلی صورت حال انتہائی چیلنجنگ ہوگئی ہے اور بنیاد پرستی مسائل کو بڑھا رہی ہے۔
چند سال قبل نئے ایشیائی ٹائیگر کے نام سے مشہور بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے اور سیاسی عدم استحکام کے باعث غیر ملکی سرمایہ کاری رک گئی ہے۔ محمد یونس کی قیادت میں بنگلہ دیش حکومت کے فیصلے تنازعات کو بڑھا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے مسائل پیچیدہ اور متنوع ہیں، یہ مسائل سیاسی، مذہبی، اقتصادی، سماجی، ماحولیاتی اور سلامتی سے متعلق ہیں۔ ان کے حل کے لیے قومی اور بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ یونس کی توجہ پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات پر مرکوز ہے۔ بنگلہ دیش میں سیاسی جماعتوں کے درمیان پاکستان کے تئیں نظریہ میں اختلاف ہے۔
جہاں ایک طرف عوامی لیگ جیسی جماعتیں پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی تردید کرتی ہیں، وہیں کچھ دوسری جماعتیں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو پھر سے مضبوط کرنے کی بات کرتی ہیں۔ بنگلہ دیش کی اہم اسلامی پارٹی، جماعت اسلامی کے پاکستان کے ساتھ تاریخی طور پر اچھے تعلقات رہے ہیں، یہ جماعت پاکستان کے ساتھ سیاسی اور مذہبی تعلقات کو اہمیت دیتی ہے۔ بنگلہ دیش میں اسلامی بنیاد پرستی اور مذہبی جماعتوں کی پاکستان کی حمایت ہمیشہ سے ایک پیچیدہ ایشو رہا ہے۔ بنیاد پرست اور کالعدم تنظیم حزب التحریر کے کھلے عام مظاہروں کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال مزید بگڑ رہی ہے۔ یہ تنظیم بنگلہ دیش میں شرعی قانون کے نفاذ کے لیے تحریک چلا رہی ہے۔
1990کی دہائی میں فوجی آمریت کے خاتمے اور جمہوری حکمرانی کی واپسی کے بعد ملک میں فوجی مداخلت کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ اس کے باوجود فوجی حکمرانی کے دور کے واقعات بنگلہ دیش کی سیاست اور معاشرے کے لیے ایک انتباہ بنے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیشی سیاست میں فوجی تختہ پلٹ اور جمہوری حکومتوں کے درمیان تنازعات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ بنگلہ دیش میں اس وقت فوجی حکمرانی نہیں ہے، لیکن فوج کا اثر سیاسی اور سماجی طور پر اب بھی برقرار ہے۔ شیخ حسینہ کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد طلبا تنظیموں کے زیر اثر ملک کی امن و امان کی صورتحال کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ محمد یونس ملک میں سیاسی استحکام لانے میں ناکام رہے ہیں، وہ انتقام کی اسی سیاست کی نمائندگی کرتے نظر آرہے ہیں جس سے یہ ملک بحران سے دوچار رہا ہے۔ بنگلہ دیش بنیاد پرستی اور لبرل معاشرے کے درمیان تضاد کا سامنا کرتا رہا ہے، اس بار صورتحال مزید پیچیدہ نظر آرہی ہے اور ملک میں قانون و انتظام کی صورتحال کے حوالے سے غیر یقینی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ فوج نے اس صورتحال کو ملکی خودمختاری کے لیے ایک بڑے چیلنج سے جوڑ کر سیاسی اقتدار پر اپنے کنٹرول کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔
فوجی حکمرانی اس سیاسی نظام کو کہا جاتا ہے جس میں ملک کی حکومت کا کنٹرول فوج کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ عام طور پر فوجی حکمرانی اس وقت نافذ ہوتی ہے جب فوج حکومت کے کنٹرول پر قبضہ کرلیتی ہے، ایسا بغاوت، تختہ پلٹ یا ایمرجنسی کی صورتحال کے دوران ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش میں فوجی حکمرانی کی تاریخ ملی جلی اور متضاد رہی ہے۔ 1971میں آزادی کی جنگ کے بعد بنگلہ دیش کی سیاست میں فوجی تختہ پلٹ اور جمہوری حکومتوں کے درمیان تنازع دیکھا گیا ہے۔ تاہم گزشتہ سال شیخ حسینہ کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد بھی فوج نے کافی تحمل کا مظاہرہ کیا تھا جو اب ٹوٹتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
بنگلہ دیش کی سرحد کا 94فیصد حصہ ہندوستان کے ساتھ لگتا ہے اور ہندوستان کے ساتھ تعلقات بنگلہ دیش کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ گزشتہ سال اگست میں شیخ حسینہ کے ملک چھوڑنے کے بعد سے محمد یونس کی ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی سے ایک بار بھی ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش میں وقتاً فوقتاً دہشت گردانہ حملے اور تشدد کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، جو ہندوستان کی قومی سلامتی کو چیلنج کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش کو منشیات کی اسمگلنگ کا اہم راستہ سمجھا جاتا ہے جو کہ قومی سلامتی اور نظم و نسق کے لیے سنگین تشویش کا موضوع ہے۔ بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان ایک طویل اور حساس سرحد ہے جو چار ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ لمبی ہے۔ بنگلہ دیش میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے سرحدی کنٹرول کمزور ہوسکتا ہے، جس سے غیر قانونی نقل مکانی، دہشت گردوں کی دراندازی اور منظم جرائم میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ عوامی لیگ شیخ حسینہ کی پارٹی ہے اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش سمیت کئی سیاسی دھڑے عوامی لیگ کے الیکشن لڑنے پر پابندی عائد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یہ صورتحال خوفناک ہے اور اس سے بڑے پیمانے پر سیاسی تشدد پھیل سکتا ہے۔
بنگلہ دیش میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی واقعات فوجی حکمرانی کا عندیہ دے رہے ہیں۔ فوج میں کئی بنیاد پرست افسران پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کے قریب ہیں۔ بنگلہ دیش کے موجودہ آرمی چیف جنرل وقار ایک جامع مفکر ہیں اور وہ بنیاد پرستی کے مخالف رہے ہیں۔ ظاہر ہے آنے والے وقت میں بنگلہ دیشی فوج کے اندر اور باہر ہونے والے واقعات اس ملک کے مستقبل اور ہندوستان کے ساتھ اس کے تعلقات کا فیصلہ کریں گے۔