ہندوستان آج ایک ایسے نازک دوراہے پر کھڑا ہے جہاں مذہبی شدت پسندی کے شعلے ملک کی جمہوریت،اس کے تنوع اور اس کی تہذیبی وحدت کو بھسم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وشو ہندو پریشد،بجرنگ دل اور دیگر بھگوا تنظیمیں،جو درحقیقت فسطائی نظریات کے حامل نیم فوجی دستے بن چکی ہیں،کھلم کھلا مسلمانوں کے قتل عام کی سازشیں رچ رہی ہیں،ان کے مذہبی تشخص کو مٹانے کے درپے ہیں اور حکومت ان کے اس گھناؤنے کھیل کی تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
مہاراشٹر کے ناگپور میں ہونے والا حالیہ تشدد کوئی اچانک پیش آنے والا واقعہ نہیں بلکہ ایک طویل عرصے سے جاری مسلم دشمنی کا حصہ ہے جس کا مقصد نہ صرف تاریخی حقائق کو مسخ کرنا ہے بلکہ مسلم شناخت کو مٹانے کی کوشش ہے۔ یہ واقعہ کل 17 مارچ پیر کے روز اس وقت رونما ہوا جب وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے کارکنوں نے ناگپور کے محل علاقے میں مظاہرہ کیا اور چھترپتی سمبھاجی نگرکے خلد آباد میں واقع اورنگ زیب کے مقبرے کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ یہ احتجاج دراصل ایک سیاسی چال تھی جس کے ذریعے مسلمانوں کو اشتعال دلایا گیا تاکہ انہیں بدنام کرنے کیلئے ایک نیا بیانیہ گھڑا جا سکے۔ اس دوران کلمہ طیبہ لکھاہوا ایک چادر بھی جلائی گئی اور مبینہ طور پر صحیفہ آسمانی قرآن کریم کی بھی بے حرمتی کی گئی۔اس کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو بے دردی سے پیٹا گیا اور ا نہیں گرفتار کیے جانے کے بعد اب پولیس اپنے عقوبت کدوں میں انہیں ظلم و بربریت کا نشانہ بنارہی ہے۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ مہاراشٹر میں شیواجی مہاراج کو ایک عظیم ہندو بادشاہ کے طور پر پیش کرکے اور ان کے مقابلے میں اورنگ زیب کو محض ایک جابر اور ہندو دشمن حکمران کے طور پر دکھا کر شدت پسند عناصر ایک مخصوص نظریے کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اورنگ زیب کا عہدحکومت سیاسی اور عسکری فیصلوں پر مبنی تھا،لیکن ہندوتو نظریہ اسے محض مذہبی دشمنی کے تناظر میں پیش کرکے فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ناگپور میں ہونے والے اس ہنگامے کا اصل مقصد شیواجی کی تاریخی شخصیت کو مسلمانوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہے تاکہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کیا جا سکے اور ایک مخصوص سیاسی جماعت کو اس سے فائدہ پہنچے۔
یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ حکومت کی خاموشی درحقیقت اس کی سرپرستی کا پردہ ہے۔ جب ہندوتو تنظیمیں کھلے عام مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتی ہیں،ان کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کرتی ہیں اور ریاستی سرپرستی میں اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہناتی ہیں تو کیا یہ سب کسی خفیہ ایجنڈے کا حصہ نہیں؟ اگر حکومت واقعی غیرجانبدار ہوتی تو کیا وہ اورنگ زیب کے مزار پر حملے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی نہ کرتی؟ کیا وہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے منظم حملوں کو روکنے کیلئے فوراً حرکت میں نہ آتی؟ مگر نہیں،یہاں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو ہی موردِالزام ٹھہرایا جا رہا ہے،مظلوموں کو ہی مورد عتاب بنایا جا رہا ہے اور فسطائیت کی گود میں پلنے والے عناصر کو کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے۔
ملک میں جو حالات پیدا کیے جا رہے ہیں،وہ اسی ہندوتو ایجنڈے کا تسلسل ہیں جس کے تحت گاندھی کے قاتلوں کو ہیرو بنایا جا رہا ہے،بابری مسجد کی شہادت اور سرکاری سرپرستی میں دوسری مسجدوں کے انہدام کوفخریہ کارنامہ گردانا جا رہا ہے اور نفرت کی سیاست کو اقتدار کی سیڑھی بنا دیا گیا ہے۔ یہ وہی ہندوستان ہے جہاں مسلمانوں کو محض ان کی مذہبی شناخت کی بنا پر بے دخل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اور ان کے مذہبی جذبات کا لحاظ کیے بغیر ان کے مقدس مقامات کو مٹانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔
یہ صورتحال کسی بھی مہذب اور جمہوری ملک کیلئے لمحۂ فکریہ ہونی چاہیے،مگر بدقسمتی سے یہاں جمہوریت کی جگہ فسطائیت نے لے لی ہے۔ مسلمانوں کو سیاسی،سماجی اور معاشی طور پر بے دخل کرنے کی سازش عروج پر ہے۔ حکومت اگر چاہتی تو ان شرپسندوں پر آہنی ہاتھ ڈال سکتی تھی، مگر جب خود وہی ان کی پشت پناہ ہوتو پھر انصاف کی توقع رکھنا محض ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔
یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں بلکہ عملی اقدام اٹھانے کا ہے۔ اگر آج بھی ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کی گئی تو پھر تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ہندوستان کا ہر انصاف پسند شہری،ہر ذی شعور فرد،ہر وہ شخص جو اس ملک کو مذہبی جنونیت کی آگ میں جلتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا،اسے چاہیے کہ وہ اس سازش کو سمجھے اور اس کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائے۔ کیونکہ اگر آج اورنگ زیب کی قبر مٹی میں ملائی جا رہی ہے تو کل کوئی اور ہدف بنایا جائے گا۔ آج اگر مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں تو کل کوئی اور اقلیت اس کی بھینٹ چڑھے گی۔ یہ ملک جمہوریت اور سیکولرازم کے اصولوں پر قائم ہوا تھا،اسے ایک مخصوص نظریے کی بھینٹ چڑھانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر فسطائی طاقتوں کے خلاف سخت کارروائی کرے،ان کے ناپاک عزائم کو ناکام بنائے اور ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت کو روکے،ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہندوستان میں بھائی چارے اور ہم آہنگی کا تصور محض ایک قصہ پارینہ بن کر رہ جائے گا۔