ایم اے کنول جعفری
علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی(بی ایل اے)کے ذریعہ جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کرنے کی واردات کے محض چارروز بعد16مارچ کو اس نے فوجی قافلے پر دہشت گردانہ حملہ کرکے 90 فوجیوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کا دعویٰ کیا ہے۔بی ایل اے کے مطابق تنظیم کی اکائی’مجید بریگیڈ‘ نے نوشکی میں آر سی ڈی ہائی وے پر رخشان مل کے پاس وی بی آئی ای ڈی فدائی حملے میںنیم فوجی دستے (ایف سی) کو نشانہ بنایا۔ بس دھماکہ خیز مواد سے لدی گاڑی سے ٹکراکر تباہ ہوگئی۔اس کے فوراً بعد بی ایل اے کے ’فتح‘ دستے نے دوسری بس کو گھیر لیا اور بس میں سوار فوجی اہل کاروں کو مارڈالا،جس سے مرنے والوں کی تعداد 90 ہوگئی۔ یہ حملے اس بات کا ثبوت تو ہیں کہ بی ایل اے پاکستان کے لیے سردردبن گئی ہے،لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ اس قسم کی وارداتوں سے وہ بلوچستان کو پاکستان سے آزاد کراپانے میں کامیاب ہوپائی گی۔
11مارچ 2025 کی صبح9بجے جعفر ایکسپریس425 مسافروں کو لے کر کوئٹہ سے پشاور جا رہی تھی۔ ریل گاڑی میں پاکستانی فوج کے ساتھ حفاظتی دستوں کے جوان بھی تھے۔ٹرین کے بولان کی پہاڑیوں کے درمیان مشفاق سرنگ سے گزرتے ہوئے زوردار دھماکہ ہوا۔بی ایل اے نے بم سے ریل کی پٹری کو اُڑا کر ٹرین کو رُکنے پر مجبور کردیا۔ٹرین رُکتے ہی مسلح افراد گاڑی میں چڑھ جاتے ہیں۔ ہائی جیکروں نے ڈرائیور کو موت کے گھاٹ اُتارتے ہوئے ٹرین پر قبضہ کر لیا۔یہ واقعہ پاکستانی سرکار کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔پاکستانی سیکورٹی فورسز نے 354مسافروں کو بازیاب کرایا،لیکن بازیاب اور ہلاک شدگان کی کل تعداد380بنتی ہے۔ باقی 45 مسافروں کی کوئی جانکاری نہیں ہے۔ دوسری جانب بی ایل اے نے 214یرغمالیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیاہے۔ سیکورٹی فورسز نے 33 بلوچ جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کی بات کہی ہے۔جب کہ18سیکورٹی اہلکار سمیت 26افراد مارے گئے۔200 سے زیادہ تابوت کوئٹہ بھیجنے سے حملے میں مرنے والوںکی تعداد زیادہ ہونے کے امکان ہیں۔ یرغمالی خواتین و اطفال کے درمیان’خودکش ‘ اسکوائڈ کے جنگجو بٹھائے گئے،جس سے سیکورٹی فورسز کی دقتیں بڑھیں۔بی ایل اے کا کہنا تھا کہ بلوچ سیاسی قیدیوں اور کارکنان کو رہا نہیں کیاگیاتو وہ یرغمالیوں کو مارنا شروع کردیں گے۔انہوں نے ٹیلی گرام پر پیغام دیا کہ وہ مادر وطن کے لیے اپنا خون بہا رہے ہیں۔
بلوچستان لبریشن آرمی تقریباً 25برسوں سے آزادی کی مہم چھیڑے ہوئے ہے۔پاکستانی فوج کی سختی کو دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ بلوچستان میں حالات معمول پر آجائیں گے۔ماضی میں بی ایل اے چھوٹے موٹے حملے کرکے حکومت کا دھیان اپنی جانب مبذول کراتی تھی۔2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پُرتشدد واقعات میں تیزی آئی۔نومبر2024میںاس تنظیم نے کوئٹہ کے مرکزی ریلوے اسٹیشن میں بم دھماکے کرکے 26افرادکو ہلاک کیا تھا۔ ایسی دہشت گردانہ وارداتوں میں سیکڑوں افراد کی موت ہوئی۔بلوچستان اور اسلام آباد کے درمیان تنازعات کی دو وجوہات ہیں۔بلوچوں کے حکومت پر اپنے صوبے کو سیکورٹی اسٹیٹ میں تبدیل کرنے کے الزام کے علاوہ صوبے کے وسیع قدرتی اور معدنی وسائل کا استحصال کرنا ہے۔بلوچستان معدنی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود پسماندہ ترین ریاست ہے۔اس طرح کے حالات انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کے لیے زمین کو زرخیز بنانے میں مددگار ہوتے ہیں۔ چین نے صوبے میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ پاکستانی حکومت گوادر بندرگاہ کی ترقی کے ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو(بی آر آئی) جیسے منصوبوں کے ذریعہ اپنے مفادات کو معمول پر لانا چاہتی ہے،لیکن بلوچستان کے عوام نے اسے مسترد کردیا۔یہ آنے والاوقت بتائے گا کہ حکومت کس طرح بی ایل اے کے علیحدگی پسند موقف کو ملک کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے میں کامیاب ہوپائے گی؟
بلوچ مزاحمت کاروں نے گزشتہ کچھ برسوں میں نہ صرف اپنی صلاحیتوںمیں اضافہ کیا،بلکہ اپنی حکمت عملی میں بھی نمایاں تبدیلیاں کی ہیں۔وہ جس طرح سے چونکانے والے حملے کرنے لگے ہیں،وہ بلوچ مزاحمت کاروں کے حکومت سے ٹکرانے کا اشارہ ہیں۔ یہ حملے اتفاقیہ نہیں ہیں۔ بلوچستان کا زیادہ تر حصہ قلات کہلاتاتھا۔1876میں برٹش حکومت اور قلات کے درمیان آزادی کے تعلق سے ایک معاہدہ ہوا تھا۔دوسری عالمی جنگ کے بعد جب انگریزوں نے 1945میں ہندوستان چھوڑنے کا ارادہ کیا،تب قلات کی جانب سے برطانیہ کی عدالت میںآزادی کا مقدمہ لڑا گیا۔ محمد علی جناح نے اس کی پیروی کی اور مقدمہ جیت لیا۔ 1947میں تقسیم کے بعد پاکستان وجود میں آیا۔ اتفاق دیکھئے کہ جس جناح نے قلات کی آزاد ریاست کی عدالت میں لڑائی لڑی،اُسی جناح نے1948میں پاکستانی فوج بھیج کر قلات پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد 1950، 1960 اور1970کی دہائی میں کئی بغاوتیں ہوئیں،جو کچھ کچھ عرصے بعد کچلی جاتی رہیں۔ اس سے بلوچوں میں پاکستان کے خلاف نفرت کے جذبات اُبھرے۔یہ بات بھی کہ پنجابی غلبہ والا پاکستان بلوچوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتاہے، واجب حقوق نہیں دیتا اور بلوچستان کے قدرتی وسائل کو اپنے مفاد میں استعمال کرتا ہے۔ پاکستانی حکومت کا رویہ شروع سے اچھا نہیںرہا۔1950کی دہائی میں جب نوروز خان کی قیادت میں بغاوت ہوئی تو پاکستانی فوج نے قبائلی رہنما کو معاہدے کے لیے بلایا۔ نوروزخان کے اپنے 7بیٹوں اور کچھ حامیوں کے ساتھ وہاں پہنچنے پر انہیں گرفتار کر لیاگیا۔سبھی بیٹوںکو پھانسی دے دی گئی اور انہیں جیل میں ڈال دیا گیا، جہاں نوروز خان کی موت ہوگئی۔ اس سے بلوچوں کے قلوب میں نفرت کے زخم گہرے ہوگئے۔ 2001 میں امریکی فوج کے افغانستان میں طالبان کا تختہ پلٹنے کے بعد بغاوت کی نئی لہر شروع ہوگئی۔ شروع میں زیادہ اثر نہیں ہوا، لیکن 2006میںآزاد بلوچستان کا مطالبہ کرنے والے قوم پرست رہنما نواب اکبر بگتی کے قتل کے بعد آگ تیزی سے بھڑک اُٹھی۔
دراصل یہ وہ لوگ ہیں،جو اسلحہ اور حملے کے زور پر بلوچستان حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے متوازی ایک تحریک بھی چل رہی ہے۔اس کی کمان بھی نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس سیاسی تحریک کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ جو احتجاج چند اضلاع میں ہوتے تھے، وہ اب پورے بلوچستان میں ہونے لگے۔ بلوچستان پاکستانی رقبے کا 45فیصد ہے۔ نوجوان بلوچوں کے انسانی حقوق کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ پاکستان یا فوج کی جوابی کارروائی پہلے جیسی ہی ہے۔ پاکستانی حکمران مزاحمت کاروں کو خرید لیتے ہیں، عہدوں کا لالچ دیتے ہیں، پیسے بانٹتے ہیں یا پھر ڈرا دھمکاکر تحریک کو کچل دیتے ہیں۔کہنے کے لیے یہاں بھی انتخابات ہوتے ہیں،لیکن وزیراعلیٰ کا عہدہ فوج طے کرتی ہے۔چوں کہ پاکستانی سیاست کی حکمت عملی جبراً کنٹرول حاصل کرنے کی رہی ہے،اس لیے نوجوانوں میں اسلام آباد کے خلاف زبردست ناراضگی ہے۔ پاکستانی فوج کی مقبولیت میںبھی کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان میں بلوچوں کو کچلنے کی آوازیں اُٹھتی رہی ہیں،لیکن فوج ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے۔بلوچوں کو ان کے علاقے میںشکست دینا مشکل ہے۔وہ پہاڑی وادیوں میں گوریلا جنگ لڑنے میں اتنے ماہر ہیں کہ فوج ان سے پار نہیں پا سکی۔ پاکستانی فوج یہاں کی سیاست کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے،لیکن وہ جتنا کنٹرول کریں گے، بلوچوں کا ردعمل اتنا ہی شدید گا۔ ابھی حالات اور خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔بلوچوں کی تعداد بمشکل 5-7فیصد ہے،لیکن وہ پاکستان پر بھاری پڑتے نظرآتے ہیں۔بلوچستان کی سرحدبھرپور مدد کرنے والے ایران اور افغانستان سے ملتی ہے۔پاکستان کی ناکامی کی وجہ یہ بھی ہے کہ کارروائی کے وقت بلوچ باغی بھاگ کر پڑوسی ممالک میں چلے جاتے ہیں۔ ہندوستان کے کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر پاکستان گھریلو مسائل میں اُلجھا ر ہے گاتوان کے لیے زیادہ مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔بلوچ پاکستان کے دشمن کو اپنا دوست سمجھتے ہیں۔ وہ ہندوستان کو بھی اسی نظر سے دیکھتے ہیں،لیکن ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ہندوستان نے بلوچوں کی حمایت کی ہو۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]