نتن گڈکری کے نیک مشورے

0

حالات کیسے بھی ہوں، کئی لیڈران اپنی شناخت کے حساب سے ہی بولتے اور عمل کرتے ہیں۔ اٹل بہاری واجپئی اسی طرح کے لیڈر تھے۔ سشما سوراج اسی طرح کی لیڈر تھیں۔ انہیں ادب و احترام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ چند ہی سہی، اس طرح کے لیڈر آج بھی ہیں جو سیاسی حصولیابیوں کے لیے مذموم بیانات نہیں دیتے۔ بیانات دیتے وقت اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کی مکمل ترقی تمام ہندوستانیوں کی ترقی کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی لیے بلا تفریق مذہب و ملت اس بات کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ تمام لوگ ترقی کریں۔ اسی طرح کے لیڈر نتن گڈکری ہیں جو وقتاً فوقتاً مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے رہتے ہیں، ان کا حوصلہ بڑھاتے رہتے ہیں، ان کے لیے امید افزا باتیں کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے مسلمانوں کے سلسلے میں جو باتیں کہی ہیں، ان پر غور کیا جانا چاہیے۔ جو نیک مشورے دیے ہیں، ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے، کیونکہ نتن گڈکری نے اپنی باتوں سے اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ اس ملک کی ترقی کے لیے مسلم طلبا کا تعلیم کے میدان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔ ان میں سے سابق صدر اے پی جے عبدالکلام جیسی شخصیات کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ اس طرف مسلمانوں کو خصوصی توجہ دینی چاہیے اور ضرورت پڑنے پر مرکزی وزیر نتن گڈکری سے مشورے لینے چاہیے، ان سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔

نتن گڈکری کھل کر باتیں کرتے ہیں۔ کسی کا مذاق اڑانے کے بجائے وہ اسے حقائق سے واقف کرانے میں یقین رکھتے ہیں۔ کئی بار بولتے وقت اس بات کی بھی وہ پروا نہیں کرتے کہ اس کے کیا اثرات ان کے سیاسی کریئر پر پڑیں گے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں اور بلا تفریق مذہب و ملت عام لوگوں میں بھی مقبول ہیں۔ ان کی باتیں لوگ بڑی توجہ سے سنتے ہیں تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ مسلمانوں کے لیے وہ کچھ کہیں اور مسلمان اس پر توجہ نہ دیں۔ گڈکری کا کہنا ہے، مسلم سماج میں چائے کی ٹپری، پان کا ٹھیلا، کباڑی کی دکان، ٹرک ڈرائیور اور کلینر کے پیشے زیادہ مقبول ہیں لیکن مسلم سماج میں تعلیم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔۔۔۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنانے سے ہی اس سماج کی صحیح معنوں میں ترقی ہوگی۔ وزیر موصوف نے بتایا کہ مہاراشٹر میں وہ ایم ایل اے تھے تو انہیں ایک انجینئرنگ کالج ملا تھا۔ اسے انہوں نے ناگپور کے انجمن اسلام کو دے دیا تھا۔ مسلمانوں اور اس ملک کے لوگوں کی یہ خوش نصیبی ہے کہ نتن گڈکری جیسے لیڈران ہیں۔ اب بحث کا یہ الگ موضوع ہے کہ ان کے جیسے کتنے لیڈران ہیں؟ بحث کا یہ بھی ایک الگ موضوع ہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کی وجہ کیا خود مسلمان ہی ہیں یا اس کی دیگر وجوہات بھی ہیں؟ یہ بات ناقابل فہم نہیں ہے کہ اگر نتن گڈکری جیسے کئی لیڈران ہوتے تو مسلمانوں کے محلوں میں تھانوں سے زیادہ اسکول کھولنے پر توجہ دی گئی ہوتی مگر خود کو سیکولر کہنے والے لیڈروں کی حکومتوں میں بھی مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے پر اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی دی جانی چاہیے تھی۔ مہاراشٹر، بالخصوص ناگپور کے مسلمان واقعی خوش نصیب ہیں کہ انہیں نتن گڈکری جیسا لیڈر ملا جو ان کی تعلیمی ضرورتوں کو سمجھتا ہے اور اسی لیے اس نے انجینئرنگ کالج انجمن اسلام کے حوالے کر دیا تھا۔

دراصل نتن گڈکری جانتے ہیں کہ صحیح معنوں میں اس ملک کا بہی خواہ ہونے کا مطلب اس ملک کے تمام لوگوں کا بہی خواہ ہونا ہے۔ جو لوگ پچھڑ گئے ہیں، انہیں آگے لانے کی کوشش کرنا ہے۔ مسلمانوں کو لعن طعن کرنے، ان کے خلاف بیانات دینے سے حالات نہیں بدلیں گے۔ اس ملک کے حالات بدلنے کے لیے مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ گڈکری کا یہ کہنا بالکل بجا ہے، ’کوئی بھی شخص اپنی ذات، زبان یا مذہب سے بڑا نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی خوبیوں سے بڑا ہوتا ہے۔‘ اس سلسلے میں وزیر موصوف نے اے پی جے عبدالکلام کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایٹمی سائنس داں کی حیثیت سے ان کا نام ملک اور بیرون ملک پوری دنیا میں پہنچا۔ اس طرح سے نتن گڈکری نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ مسلم طلبا اے پی جے عبدالکلام کی زندگی سے سیکھیں، تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کی جدوجہد کریں تاکہ وہ اپنے ساتھ اپنے ملک کو بھی زیادہ سے زیادہ مستحکم بنائیں۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS