کرکٹ کی بادشاہت کی طرف ہندوستان

0

پروفیسر اسلم جمشید پوری

مسرت اور خوشی کا مقام ہے کہ ہندوستان آئی سی سی ونڈے کرکٹ کافاتح ہوا اور ہندوستانی ٹیم کے کپتان روہت شر مانے 9 مارچ کو دبئی میں یہ خطاب جیتا۔ کے ایل راہل کے وننگ رن لیتے ہی پورا ہندوستان خوشی سے جھوم اٹھا۔ اس فتح سے ہندوستانی ٹیم میں ایک نئی توانائی سرایت کر گئی ہے۔دراصل آئی سی سی چمپینزٹرافی کرکٹ کا ون ڈے مقابلہ ہوتا ہے جو کہ پورے پچاس اوور کا میچ ہوتا ہے۔جب سے ہمیں ٹی-20 دیکھنے کی لت لگ گئی ہے، اب ہمیں 50اوور کا میچ بورنگ لگنے لگا ہے۔مگر آئی سی سی کے اس مقابلے میں ایسا نہیں ہوا اور ہر میچ کے بعد اس کا رومانچ الگ ہی ہوتا تھا اور اس میں دن رات اضافہ ہوتا رہا۔

آئی سی سی چمپینز ٹرافی کا انعقاد پاکستان میں ہوا۔اس کا میزبان پاکستان تھا۔چو نکہ ہندوستان نے اپنے میچ پاکستان میں کھیلنے سے معذرت کی تھی، اس لیے ہندوستان کے تمام میچز دبئی میں منعقد ہوئے۔ دبئی میں بھی پاکستان ہی میزبان تھا۔اگلا انعقاد2029میں ہندوستان میں ہوگا اور اس کی میزبانی ہندوستان کرے گا۔اس سال یہ انعقاد 19 فروری سے 9 مارچ تک ہوا۔اس میں دو خیمے بنائے گئے تھے۔ ایک خیمے میں ہندوستان، پاکستان، نیوزی لینڈ، بنگلہ دیش تھے جبکہ دوسری طرف انگلینڈ،آسٹریلیا،سائوتھ افریقہ اور افغانستان تھے۔پہلے رائونڈ میں دونوں خیموں کے لیگ میچز تھے۔گروپ اے جس میں ہندوستان اور پاکستان تھے،کا سب سے دلچسپ اور تنائو بھرا مقابلہ 23فروری کو دبئی میں ہندوستان اور پاکستان کے بیچ تھا۔ اس میچ میں کسی بھی ٹیم کا پلڑا بھاری ہو سکتا تھا۔دو پرانے حریف آمنے سامنے تھے۔ٹاس پاکستان نے جیتا اور پہلے بیٹنگ کا انتخاب کیا۔پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستان نے 241 رن بنائے۔ہندوستان کے بہت کم رن پر تین وکٹ گر چکے تھے۔ ایسے میں وراٹ کوہلی نے مورچہ سنبھالا۔ سریش ایر کے ساتھ مل کر ٹیم میں 91 رن کی شراکت کی۔پھر ٹیم کو جیت کے قریب پہنچا دیا۔سنچری لگائی۔یہ ان کی کل51 ویں سنچری تھی۔آخر میں کے ایل راہل نے ہندوستان کو فتح دلادی۔

لیگ میچوں میں ہندوستان نا قابل تسخیر رہا۔اس نے پاکستان،بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ کو ہرا یا اور اپنے گروپ میں ٹاپ پر رہا۔دوسری طرف آسٹریلیا اور سائوتھ افریقہ نے افغانستا ن اور انگلینڈ سے بازی ماری۔اس طرح آسٹریلیا اور انڈیا سیمی فائنل میں پہنچے۔دوسری طرف سائوتھ افریقہ اور نیوزی لینڈ کا سیمی فائنل کے لیے مقابلہ ہوا۔
آئی سی سی چمپنیز ٹرافی 19 فروری سے شروع ہو کر 9مارچ تک چلنے والے اس مقابلے کے ایک سیمی فائنل میں آسٹریلیا اور ہندوستان آمنے سامنے تھے۔ آسٹریلیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 264 رن بنائے تھے۔ جب ہندوستان کی بیٹنگ کی باری آئی تو روہت شرما کا وکٹ جلدی گر گیا تھا اور گل بھی کوئی خاص کرشمہ نہیں کرپائے۔ وراٹ کوہلی اور شریس ایر نے اننگ کو سنبھالا۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ وراٹ کوہلی کا بلاضرورت کے وقت ضرور بولتا ہے۔ ایک وقت ایسا آیا تھا جب یہ لگنے لگا تھا کہ اب آسٹریلیا ئی ٹیم میچ پر حاوی ہو جائے گی، یہ ٹرننگ پوائنٹ اس وقت آیا جب وراٹ کوہلی آئوٹ ہو گئے لیکن انہوں نے اپنے حصے کا کام کر دیا تھا۔ ہاردک پانڈیا اور کے ایل راہل نے اننگ کوسنبھالا اور کے ایل راہل نے آخر تک کھڑے ہوکر میچ کو ہندوستان کے دامن میں ڈال دیا۔ یہ دراصل ونڈے ورلڈ کپ کا بدلہ تھا۔

ورلڈ کپ میچ کے فائنل میں ہندوستان آسٹریلیا سے ہار گیا تھا۔ سیمی فائنل میں آسٹریلیا کو ہرا کر ہندوستان نے اپنا انتقام پورا کیا۔ دوسرا سیمی فائنل 6مارچ کو لاہور میں کھیلا گیا جس میں نیوزی لینڈنے وقت مقررہ کے اندر 362 رن بنائے تھے۔ جس کے جواب میں جنوبی افریقہ بری طرح ناکام رہی اور میچ کو گنوا بیٹھی۔ نیوزی لینڈ بڑی شان سے آئی سی سی چمپینز ٹرافی کے فائنل میں پہنچا۔ 9مارچ کو فائنل مقابلہ تھا۔ ایک طرف ہندوستان اور دوسری طرف نیوزی لینڈ کی ٹیم تھی۔ یہ مقابلہ پاکستان کے بجائے دبئی میں منعقد ہوا۔ اس مقابلے میں نیوزی لینڈ نے پہلے کھیلتے ہوئے 250 رن بنائے۔ جواب میں ہندوستان کا آغاز اچھا رہا لیکن بعد میں گل اور وراٹ کوہلی سستے میں آئوٹ ہوگئے لیکن روہت شرما نے اپنا جارحانہ انداز جاری رکھا۔ یہ الگ بات ہے کہ روہت شرما بھی 72؍ رن بنا کر آئوٹ ہو گئے لیکن وہ اپنا کام کر گئے تھے اور کے ایل راہل نے ہندوستان کو بارہ سال بعد آئی سی سی چیمپینز ٹرافی دلوا دی۔

یہ فتح تاریخی فتح تھی چونکہ ابھی ورلڈ کپ کے فائنل میں ہندوستان کی ہار ہوئی تھی۔ اب یہ کپ جیت کر ہندوستان نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ کسی سے کم نہیں ہے۔ وہ کسی بھی ٹیم کو ہرا سکتا ہے۔ اصل میں پوری ہندوستانی ٹیم پورے جذبے سے ملک کے لیے کھیلی۔ ہر کھلاڑی کی دین یادگار ہے۔ شامی نے اپنی تیز رفتار بالنگ سے سب کو چونکایا اور پورے ٹورنامنٹ میں کئی وکٹ نکالے۔ ورون چکرورتی نے بھی اپنی بالنگ سے بہت کچھ کیا۔ اسی طرح رویندر جڈیجہ اور ہاردک پانڈیا نے اپنے ہر فن مولا کردار سے سب کو حیرت میں ڈالا۔ کل ملاکر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس یادگار فتح میں پوری ٹیم کا کردار اہم ہے۔

اس فتح سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ہندوستان کی ٹیم ایک کھلاڑی پر منحصر نہیں ہے۔ روہت شرما ہو یا وراٹ کوہلی، شبھمن گل ہو یا شریس ایر، کے ایل راہل ہو یا ہاردک پانڈیا، شامی کی بات ہو یا ورون چکرورتی کی یہ ہندوستانی ٹیم کسی ایک کھلاڑی پر منحصر نہیں ہے۔ اس کی بیٹنگ سائڈ بھی اور بالنگ بھی متوازن ہے۔

اس ٹرافی کا قیام یوں تو 1998میں ہوا لیکن اس کا پہلا میچ2000 میں منعقد ہوا۔ اس دوران ہندوستان نے2بار یہ ٹرافی جیتی اور ایک بار سری لنکا کے ساتھ فاتح قرار پایا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب ہندوستانی ٹیم پہلے جیسی نہیں ہے۔ روہت شرما کی کپتانی میں یہ ٹیم ونڈے فارمیٹ میں کافی مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ اس فتح سے ہم ہندوستانیوں کا سر فخر سے بلند ہوا ہے اور اس فتح میں پوری ٹیم کا ہاتھ ہے۔ آگے بھی یہ ٹیم ہندوستان کا نام روشن کرتی رہے، یہی توقع ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS