ایران کو بات چیت کی امریکی تجویز

0

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ پر بات چیت پھر شروع کرناچاہتے ہیں ۔ اس کا ثبوت ان کا وہ مکتوب ہے ، جو انہوں نے متحدہ عرب امارات کے توسط سے ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی کو بھیجا ہے۔اس خط میں انہوںنے ایران کے ساتھ اس بات چیت کو پھر شروع کرنے کی تجویز خود پیش کی ، جبکہ 2018میں انہوں نے اپنی پہلی صدارتی اننگز میں عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے جوہری معاہدے سے امریکہ کو الگ کرلیا تھا، حالانکہ اس وقت بھی عالمی طاقتوں نے امریکہ سے اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کی بہت اپیل کی تھی ، لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے کسی کی نہیں سنی ہے۔اب جبکہ غزہ میں جنگ بندی کرانے کے بعد ٹرمپ نے ایران کی طرف توجہ مبذول کی ہے ، جس کے ساتھ امریکہ کے کسی طرح کے تعلقات نہیں ہیں ۔ ہوسکتاہے کہ ٹرمپ کوبیک ڈور سے بات چیت کا خیال آیا ہوگا ، تبھی اس طرح کی بات چیت کی تجویز پیش کی اورکہا کہ ایران کے ساتھ ایک جوہری معاہدہ کیلئے دروازہ کھلارکھا ہے۔اس کے ساتھ امریکی صدر نے جو بات کہی ، جسے دھمکی بھی کہا جاسکتاہے ۔ شاید وہی بات ایران کو پسند نہیں آئی ۔

ٹرمپ نے بات چیت کی تجویز کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ایران کو یا تو فوجی طاقت سے یا پھر سمجھوتے کے توسط سے سنبھالا جا سکتا ہے۔ یہ دھمکی یا انتباہ کچھ ایسا ہے کہ بنتی ہوئی بات بگڑسکتی ہے ۔ چنانچہ وہی ہوا۔ ایران کا جواب اورردعمل بھی ویسا ہی آیا۔ ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ علی خامنہ ای نے نہ صرف تجویز مسترد کردی ، بلکہ صاف صاف کہہ دیاکہ جب ہمیں پتہ ہے کہ امریکہ اس کا احترام نہیں کرے گا، تو بات چیت کرنے کا کیا مطلب ؟ اور ٹرمپ انتظامیہ سے بات کرنے کا مطلب ہوگا ایران پرعائد کی گئیں پابندیوں کو مزید سخت کرنا اور ملک پر دبائو بڑھانا۔اس لئے ایران کسی بھی طرح کی نہ تو دھمکی میں آئے گا اورنہ دبائو میں بات چیت میں شامل ہوگا ۔

سبھی جانتے ہیں کہ ایران کا جوہری معاہدہ طویل مذاکرت اورکافی کسرت کے بعد جنوری 2016میں طے پایا تھا۔یہ معاہدہ اقوام متحدہ کے 5مستقل ارکان امریکہ ، روس ، چین ، برطانیہ اورفرانس کے ساتھ ایران نے کیا تھا۔اس معاہدہ کے تحت ایک طرح سے ایران کے ساتھ سودے بازی کی کوشش کی گئی تھی کہ ایران اپنی یورینیم افزودگی اور ذخیرہ اندوزی پر پابندیاں قبول کرے گا، متعدد جوہری مقامات پر تنصیبات کو بند کرنے یا ان میں ترمیم کرنے اور بین الاقوامی جوہری معائنہ کاروں کو تنصیبات کے معائنہ کی اجازت دینے پر اتفاق کرے گا اور بدلے میں ایران پر سے کئی بین الاقوامی مالیاتی پابندیاں ہٹا دی جائیں گی ایساہی ہوا ۔ ایران معاہدہ میں شامل ہوا اوراس پر سے کئی پابندیاں ہٹادی گئیں ، لیکن جب ٹرمپ نے 2018میں امریکہ کو معاہدہ سے الگ کیا ،تو پھر سے ایران پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کردی گئیں۔اس طرح امریکہ کی ضدا ور ہٹ دھرمی کی وجہ سے معاہدہ بے اثر ہوگیا۔

جوہری معاہدہ سے جہاں عالمی طاقتوں کوامید تھی کہ یہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روک دے گا ، وہیں ایران بھی سوچنے لگا تھا کہ اس پر جو پابندیاں عائد کی گئی تھیں، ان کے خاتمہ سے اس کی معیشت پھر سے پٹری پر آجائے گی اوراسے جو معاشی نقصان ہورہا تھا ، وہ بند ہوجائے گا ، لیکن نہ تو ایران کی توقعات پوری ہوئیں اورنہ عالمی طاقتوں کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا ۔اب 7سال بعد ٹرمپ کو پھرسے ایران کے ساتھ بات چیت کا خیال آیا یا ضرورت پیش آئی، تو انہوں نے کھڑکی کھولنے کی کوشش کی ، لیکن بہت دیر ہوچکی ہے ۔صرف امریکہ کے کہنے پر برف نہیں پگھلے گی ، اس مشن میں دیگر عالمی طاقتوں کی حمایت اور معاونت کی ضرورت پڑے گی ۔

دراصل امریکہ اس وقت مشرق وسطیٰ میں ایک نیا مشن شروع کرناچاہتاہے ، جو ٹرمپ کے بیانات سے پتہ چلتاہے ۔ اس مشن میں امریکہ کی راہ میں عربوں سے زیادہ رکاوٹ ایران بن سکتاہے ۔اپنے مقاصد کیلئے عربوں کو لالچ یادھمکی دے کر منانا امریکہ کیلئے آسان ہے ، لیکن ایران کسی بھی طرح کے دبائو میں نہیں آسکتااوراس کا پورا احساس امریکہ کو ہے ۔شاید اسی لئے امریکہ چاہتاہے کہ ایران کسی طرح بات چیت کی میز پردوبارہ آجائے اوراس کو اپنے مقاصد کیلئے راضی کرلے ۔یہ بات چیت وہیں سے شروع ہوسکتی ہے ، جہاں سے ٹوٹی تھی ، اسی لئے جوہری معاہدہ پر بات چیت کی تجویز ٹرمپ نے پیش کی ، لیکن لگتاہے کہ ایران امریکہ کے فریب میں آسانی سے نہیں آئے گا۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS