غزہ : کیا گھروندے پھر تعمیر ہوں گے؟

0

انجینئر خالد رشید (علیگ)

گزشتہ ماہ مصر نے غزہ کی تعمیر نو کا منصوبہ پیش کیا جس کو قاہرہ میں منعقد عرب لیگ کے ممالک نے آناً فاناً منظور کر لیا اور بعد میں 57مسلم ممالک کی تنظیم OIC نے بھی منظور دے دی۔ خبروں کے مطابق یوروپی یونین کے کئی اہم ارکان نے بھی اس تعمیر نو کے پروگرام کی حمایت کا اعلان کیا ہے جن میں جرمنی، برطانیہ فرانس اور اٹلی جیسے طاقتور ممالک شامل ہیں۔ اسرائیل کو یقینا اس منصوبہ پر اعتراض ہے جو لوگ اسرائیل کے 75سالہ غاصبانہ غیر منطقی اور ظالمانہ رویہ سے واقف ہیں ان کو اس اعتراض پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ اسرائیل ہمیشہ فلسطینیوں کی فلاح کے ہر منصوبہ کا مخالف رہا ہے ۔ادھر امریکہ کی جانب سے ملاجلا رد عمل سامنے آرہا ہے۔ ٹرمپ کے اپنے منصوبے ہیں جو نہ قابلِ نفاذ ہیں اورنہ قابل قبول، جبکہ اس میں تبدیلی کا واـضح اشارہ ویٹ کاف کے حالیہ بیان سے ملتا ہے۔ پہلی مرتبہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے نمائندے ویٹ کاف کے بیان سے امید کی ایک کرن جگی ہے اور اس بات کا اشارہ ملا ہے کہ امریکہ اپنی حکمت عملی بدل بھی سکتا ہے۔

اس خیال کو ٹرمپ کے حالیہ بیان سے مزید تقویت حاصل ہوئی جس میں موصوف نے white house میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ کوئی بھی فلسطینیوں کو غزہ سے مستقل طور پر نکالنا نہیں چاہتا یہ بیان ان کے پرانے موقف کی نفی کرتا ہے جس میں وہ تمام عرب باشندوں کو غزہ سے مصر اور اردن منتقل کر کے غزہ کو مشرق وسطیٰ کا Revera(ساحلی تفریح گاہ) بنانا چاہتے تھے جس وقت یہ ناقابل عمل تجویز ٹرمپ نے پیش کی تھی اس وقت بھی لوگوں نے اس کو سفارتی گیدڑ بھپکی ہی قرار دیا تھا، اب مصر کی اس موجودہ تجویز کے بعد اس خیال کو مزید تقویت حاصل ہوئی ہے کہ ٹرمپ کی مذکورہ تجویز محض ایک سفارتی دھمکی تھی جس کی آڑ میں وہ اپنی کچھ پوشیدہ شرائط منوانا چاہتے ہوں گے بہر حال امریکی صدر کے موقف میں میں یہ تبدیلی قابل ستائش ہے جس کا خیر مقدم حماس بھی کر چکا ہے ۔

ظاہر ہے بغیر امریکہ کی رضامندی کے اس خطہ میں کسی منصوبہ کا تصور بے معنی ہے اسی لیے جس وقت مصر نے یہ تجویز پیش کی تھی اس وقت بھی سمجھا جا رہا تھا کہ اس تجویز کو پس پردہ امریکہ کی منظوری حاصل رہی ہوگی ۔ یہاںیہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ عرب ممالک میں مصر ہی امریکہ کا سب سے اہم حلیف ہے اس لئے اس بات کا امکان نہ کے برابر ہے کہ مصر نے یہ تجویز بغیر امریکہ کی رضامندی لئے دنیاں کے سامنے پیش کر دی ہوگی اور اس کو سعودی عرب جیسے امریکی حلیفوں کی حمایت بھی حاصل ہو گئی ہوگی۔ ظاہر ہے ان حالات میں اس پلان کے نفاذ میں کسی قسم کی رکاوٹ کا امکان بہت کم ہے مسئلہ صرف اسرائیل کا ہے لیکن اگر آقا راضی ہے تو اس کے غلام کی ناراضگی کا کوئی مطلب نہیں۔اب آئیے اس مصری تجویز پر ایک سرسری سی نگاہ ڈالیں جس کو Gaza reconstruction plan کے نام سے تیار کیا گیا ہے اگر مختصر الفاظ میں اس پلان کو بیان کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ منصوبہ غزہ سے اس ملبے کو صاف کر کے جو گزشتہ 18 ماہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بم باری کے نتیجہ جمع ہوا ہے ایک نئی بستی بسانا ہے۔

اس منصوبہ پر تقریباً 53 ارب ڈالر یعنی چار سو 50ارب روپہ کا خرچ آئے گا اس میں عزہ کی تمام تباہ شدہ عمارتوں کو نئے سرے سے تعمیر کیا جائے گا۔ ایک بندرگاہ (seaport) اورایک جدید ہوائی اڈا (airport)بھی بنایا جائے گا اس پورے کام میں 10سال کا وقت لگنے کا تخمینہ لگایا جارہا ہے تقریباً 5ہزار گھر تعمیر کیے جانے کا منصوبہ ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ عمارتیں نئی ٹیکنالوجی سے بنائی جائیں گیں جن پر قدرتی آفات یعنی زلزلے اور سیلاب کا کوئی اثر نہیں ہوگا لیکن کیا یہ نئی عمارتیں اسرائیل اور امریکہ کے راکٹوں سے بھی محفوظ رہ سکیں گیں؟ کیا اسرائیل ان نئی بستیوں میں ہوا اور پانی آزادی سے آنے دے گا؟ کیا اسرائیل ان جدید اسپتالوں میں دوا کی فراہمی ہونے دے گا جو اس نئے صوبہ کے تحت تعمیر ہوںگے؟ کیا اس نئے ہوائی اڈے پر دنیا کے ہوائی جہاز بنا اسرائیلی اجازت کے لینڈ کر سکیں گے؟ اس طرح کے ان گنت سوال ہیں جن کے جوابات اس تعمیر نو سے قبل ملنے ضروری ہیں، کیونکہ جن عمارتوں کی تعمیر میں 10سال لگیں گے ان کو دوبارہ ملبے میں بدلنے کے لئے اسرائیل کو چند مہینوں کا وقت درکار ہوگا۔ اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ اسرائیل کسی بھی بے بنیاد الزم کی آڑ میں ایک بار پھر اس خواب کو ملبے میں تبدیل نہیں کر دے گا؟ اس بات کی گارنٹی کیا ان ممالک کے پاس ہے جو اس تعمیر نو کی وکالت کر رہے ہیں اگر نہیں ہے تو ان نئی تعمیرات کا مقصد اور افادیت کیاہے؟

ان سے بہتر تو ریت کے وہ گھروندے ہوتے ہیں جو بچے سمندر کے ساحل پہ بناتے ہیں مجھے یاد ہے جب ہم لیبیا میں رہا کرتے تھے تو عام طور سے تفریح کے لئے ہر ویک اینڈ پہ سمندر کے ساحل پر چلے جایا کرتے تھے اور یہ عمل جمعرات کی شام کو شروع ہوتا تھااور جمعہ کی شام کوہم لوگ وہاں سے واپس آتے تھے، ہمارے بچّے وہاں پہنچتے ہی کوئی مناسب کی جگہ دیکھ کر سمندر کی گیلی ریت سے بڑے بڑے شہر تعمیر کر لیا کرتے جن میں وہ اپنے تصور سے ضرورت کی ساری چیزیں بنا لیا کرتے تھے، ان میں اسپتال، اسکول، مکان اور سڑکیں وغیرہ سب شامل ہوتی تھیں۔جمعہ کے روز و ہم ان تمام گھروندوں کو اسی طرح چھوڑ کر آجایا کرتے تھے اس خیال سے کہ ا گلے ہفتہ جب وہ پھر آئیں گے تو ان گھروندوں کی توسیع کریں گے، لیکن جب اگلے ہفتے وہاں پہنچتے تو ان گھروندوں کا نام و نشان نہ ہوتا، سمندر کی کوئی ظالم لہر بچوں کے خوابوں کے محل پانی کے ساتھ بہا لے جاتی، اگلے ہفتے بچے پھر ریت کا کوئی دوسرا محل تعمیر کرتے بالکل Gaza of reconstructin کی طرح بچّے واپسی کے وقت دعاء کرتے کہ اس ہفتہ سمندر میں لہریں پیدا نہ ہوں جو ممالک غزہ کی تعمیر نو کی تجویز پیش کر رہے ہیں ان کے جذبہ کو سلام، لیکن اگر اسرائیل کی جانب سے اس بات کی گارنٹی حاصل نہ کی جا سکے، ان گھروندوں کو پھر سے مسمار نہیں کیا جائے گا تو اس منصوبہ کا کیا فائدہ ؟

ابھی میں یہ مضمون مکمل بھی نہیں کر پایا تھا۔ اخبار پر نظر پڑ گئی۔ خبر یہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ جانے والی تمام امداد کو روک دیا ہے ، غزہ کی بجلی کاٹ دی گئی ہے وہاں روٹی سپلائی کرنے والی بیکریوں کو بند کر دیا گیا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، عموماً اس قسم کی خبریں اخباروں کی سرخیاں بنتی رہتی ہیں سوال یہ ہے کیا یہ کھنڈر کبھی مسکن نہیں تھے جن کے ملبے پر بیٹھ کر آج مظلوم فلسطینی روزہ افطار رہے ہیں اگر ہاں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ان نئی عمارتوں کو پھر ملبے میں تبدیل نہیں کر دیا جائے گا؟

کیا یہ حقیقت نہیں کہ ملبے کے یہ ڈھیر بھی کبھی عالیشان عمارتیں ہوا کرتی تھیں جن کو نیتن یاہو کے جنون نے ملبے میں تبدیل کر دیا، اس جنون کو نہ OIC روک پائی نہ ہی UNO غزہ کی تعمیر نو کا ارادہ رکھنے والے تمام ممالک کو Reconstruction شروع کرنے سے قبل ان بین الاقوامی اداروں سے (جن کو اسرائیل مانتا ہے) یہ گارنٹی لینی چاہئے کہ ان عمارتوں کو دوبارہ منہدم نہیں ہونے دیا جائے گا وہاں آنے والی ہوا، پانی، بجلی اور دواؤں کو اسرائیل کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جائے گا اگر یہ ضمانت نہیں ملتی تو چار ہزار ارب روپیہ برباد کرنے سے بہتر ہوگا کہ اس کثیر رقم کو کسی دوسرے تعمیری مقصد کے لیے استعمال کیا جائے اگر ریت کے گھروندوں کا مستقبل مسمار ہونا ہی ہے تو ان کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے ؟ اقوام عالم کو کوئی ایسا راستہ تلاش کرنا چاہیے جو اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کا پابند بناسکے ورنہ ریت کے گھروندوں کی تعمیر اور تدمیر (reconstruction and redestruction) کا یہ خوفناک سلسلہ اس طرح جاری رہے گا جس طرح گزشتہ 75 سالوں سے جاری ہے یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ موجودہ حالات کسی سمجھوتے کے لیے سازگار نظر آتے ہیں ۔

امریکہ کے رویہ میں تبدیلی عرب اور اسلامی ممالک کا احساسِ ندامت جو گزشتہ17ماہ بخموش تماشائی بنے رہے تھے دنیا بھر میں فلسطینیوں کے حق میں سازگار فضا روسی یوکرین کا قضیہ سے فکرمند یوروپین ممالک امریکہ کا بدلا ہوا رویہ فلسطینیوں کا اسرائیل کے ظلم و ستم کے آگے سر نگوں نہ ہونا اور اسرائیل میں نیتن یاہو کی بڑھتی ہوئی مخالفت وہ امور ہیں جنہوں نے دنیا کو سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ اس مسئلے کا بھی کوئی دائمی حل نکلنا چاہیے اور ان طاقتوں کو نیا حوصلہ بھی عطا کیا ہے جو مسئلہ فلسطین کا دائمی حل چاہتے ہیں اس لیے غزہ میں تعمیر نو کے ساتھ ساتھ امن عالم کے خواہشمند سبھی ممالک کو اس قدیم مسئلہ کا دائمی حل نکالنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے جس کے لیے فضاء نہایت سازگار ہے اگر یہ قضیہ حل نہیں ہوا اور اسرائیلی راکٹوں کو برسنے سے نہ روکا گیا اور اسرائیل و صہیونی ہٹ دھرمی اسی طرح جاری رہی تو غزہ میں تعمیر ہونے والی نئی عمارتوں کی قدرو قیمت سمندر کے کنارے بنے ریت کے گھروندوں سے زیادہ نہیں ہوگی ۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS