اترپردیش کی یوگی حکومت اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیر سایہ جو طرزحکمرانی رائج ہے،وہ تعصب،تنگ نظری اور اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز بیانیے کا کھلا اعلان بن چکی ہے۔اس کی تازہ ترین مثالیں رگھوراج سنگھ اور کیتکی سنگھ کے بیانات ہیں، جنہوں نے مسلمانوںکو نہ صرف نشانہ بنایا بلکہ ان کے بنیادی حقوق پر بھی حملہ کیا۔رگھوراج سنگھ کا بیان کہ مسلمان مرد ہولی کے دوران ترپال کے حجاب پہنیں،محض ایک اتفاقیہ تبصرہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے،جس کا مقصد مسلمانوں کو ہراساں کرنا اور ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا ہے۔
اترپردیش میں لیبر اینڈ ایمپلائمنٹ وزارت کی اعلیٰ اختیاراتی مشاورتی کمیٹی کے چیئرمین رگھوراج سنگھ ریاست میں کابینہ درجہ کے وزیر کے مساوی عہدہ رکھتے ہیں جنہوں نے ہولی اور جمعہ کی نماز کے تصادم کو بہانہ بنا کریہ قابل مذمت بیان دیا ہے، وہ درحقیقت مذہبی ہم آہنگی کو ختم کرنے اور تقسیم کی خلیج کو گہرا کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ یاد رہے کہ امسال ہولی 14مارچ جمعہ کے روز ہونے والی ہے جسے بنیادبناکر اسلامی شعائر کے خلاف بزن بولنے کی تیاری ہوچکی ہے۔
اتر پردیش میں بی جے پی حکومت کی سربراہی میں جو رویہ اپنایا جا رہا ہے،وہ ریاست کے آئینی اصولوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں پولیس اور انتظامیہ کا طرزعمل بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سنبھل کے پولیس افسر کا یہ کہنا کہ جو لوگ ہولی کے رنگوں سے پریشان ہیں وہ گھروں میں رہیں،ایک سرکاری عہدے دار کیلئے انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز بیان ہے۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو یہ باور کروانا ہے کہ انہیں اپنی مذہبی آزادی کے اظہار کیلئے کوئی جگہ نہیں دی جا سکتی۔
یہ صرف یہی نہیں،بلکہ اترپردیش کے ہی بلیا میں کیتکی سنگھ کا بیان کہ مسلمانوں کیلئے میڈیکل کالج میں علیحدہ عمارت ہونی چاہیے،ایک نئی قسم کی تفریق اور نسلی عصبیت کو جنم دیتا ہے۔ بلیا کے بانس ڈیہہ سے خاتون رکن قانون ساز اسمبلی کا یہ بیان واضح کرتا ہے کہ بی جے پی حکومت کے نمائندے علیحدگی پسندانہ نظریات کو فروغ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ یہ محض زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے،جس کے نتائج نہایت بھیانک ہوسکتے ہیں۔
اترپردیش میں جس طرح مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے،وہ ایک ایسی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے جو اقلیتوں کو دبانے اور انہیںبے یارو مددگار بنانے کے ایجنڈے پر کاربند ہے۔ یوگی حکومت نے متعدد مواقع پر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اکثریتی طبقے کے انتہاپسند عناصر کو خوش کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔
بی جے پی کا ایجنڈا صرف سیاسی فائدے کیلئے مذہبی منافرت کو ہوا دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی پولیس افسر یا کوئی وزیر اقلیتوں کے خلاف متعصبانہ بیان دیتا ہے تو حکومت اسے خاموش کروانے کے بجائے اس کے دفاع میں کھڑی ہوجاتی ہے۔ سنبھل پولیس افسر کا بیان اور یوگی آدتیہ ناتھ کا اس کی حمایت کرنا اسی پالیسی کا تسلسل ہے۔ مسلمانوں کو گھروں میں قید کرنے اور انہیں ان کی مذہبی آزادی سے محروم کرنے کی کوشش درحقیقت ایک ایسے ماحول کی تیاری ہے جہاں مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر کمزور کیا جا سکے۔
یہ معاملہ محض زبانی بیانات تک محدود نہیں،بلکہ ان کے عملی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ مختلف علاقوں میں مساجد کے اماموں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے نماز جمعہ کے اوقات میں تبدیلی کریں،تاکہ ہولی کی رنگ رلیاں بے روک ٹوک جاری رہ سکیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملک کا آئین تمام شہریوں کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے تو پھر ایک مخصوص طبقے سے یہ مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے مذہبی فرائض کو ثانوی حیثیت دے؟ اگر یہی رویہ برقرار رہا تو مستقبل میں کیا کوئی بھی اقلیتی کمیونٹی اپنی مذہبی آزادی کو محفوظ سمجھ سکے گی؟
مسئلہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں،بلکہ اس طرزحکمرانی سے پورے ہندوستانی سماج کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ اگر آج مسلمانوں کو الگ کالج،الگ اسپتال، الگ لباس اور الگ عبادات کے اصول تھوپے جا رہے ہیں تو کل کسی اور اقلیت کو نشانہ بنایا جائے گا۔ہندوستانی معاشرے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ایسے بیانات پر سخت قانونی کارروائی کی جائے،مگر جب ریاستی حکومت خود ان نظریات کو ہوا دے رہی ہو تو عدل و انصاف کی امید رکھنا محض خام خیالی ہے۔
ایسے میںہندوستان کی عدلیہ اور سول سوسائٹی پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بڑھتی ہوئی فسطائیت کے خلاف مضبوط آواز اٹھائیں اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کریں۔ اگر اس روش کو نہ بدلا گیا تو یہ ملک کے جمہوری ڈھانچے کو کھوکھلا کر دے گی اور وہ ہندوستان جو کبھی اپنے سیکولر ازم اور کثرت میں وحدت پر فخر کرتا تھا،ایک تنگ نظر اور انتہاپسند ریاست میں تبدیل ہو جائے گا۔