کیا امریکہ دنیا کے لبرل جمہوری نظام کو ختم کر رہا ہے؟: عبدالماجد نظامی

0
Is America Ending the World's Liberal Democratic System

عبدالماجد نظامی

کتنی عجیب بات ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے جب سے امریکہ کے صدر کے طور پر اپنی دوسری اننگ کا آغاز کیا ہے تب سے پوری دنیا کا سکون غارت اور دوسری جنگ عظیم کے بعد کا عالمی نظام بحران کا شکار نظر آ رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ ایک نئی دنیا بنانا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی دنیا جس کے ہر چپہ پر ان کی شخصیت اور جنونی طرز فکر کی نمایاں چھاپ پائی جاتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک ساتھ کئی محاذوں پر جنگ چھیڑ دی ہے۔ بس جنگ کی نوعیت مختلف ہے۔ اس جنگ میں بم و بارود اور امریکی ہولناک جنگی مشینوں کا استعمال کم اور اقتصادی و تجارتی فوائد حاصل کرنے کے لیے دھمکیوں کا استعمال زیادہ ہو رہا ہے۔ ٹرمپ اپنی صدارت کے روز اول سے ہی اپنی ’’عظمت‘‘ کے جنون میں مبتلا ہو چکے ہیں اور ان کے اس جنون سے کینیڈا اور میکسیکو جیسے پڑوسی سے لے کر مشرق وسطیٰ کے ممالک اور یوکرین یہاں تک کہ یوروپی یونین کے اراکین سبھی پریشان ہیں۔ خود ہمارا ملک ہندوستان اس کی مار جھیل رہا ہے اور آئندہ بھی اس کے برے نتائج سامنے آئیں گے۔ جس ذلت کے ساتھ پا بہ سلاسل ہندوستانیوں کو ملٹری جہاز میں ڈال کر واپس بھیجا گیا ہے وہ ہمیشہ ہی ایک نشان اہانت کے طور پر مودی سرکار کی خارجہ پالیسی کو داغ دار بنائے رکھے گا۔ لیکن معاملہ صرف ہندوستان یا ایران و غزہ کا نہیں ہے بلکہ خود ان ممالک کا بھی ہے جنہیں امریکہ کا فطری حلیف سمجھا جاتا رہا ہے۔ یوروپی یونین کا پورا خیمہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکہ کے ساتھ اپنا پلو باندھ کر چلتا رہا ہے اور جب بھی کبھی ’’آزاد‘‘ و’’ مہذب‘‘دنیا مغرب کو کوئی خطرہ پیش آیا ہے، اس کے دفاع کے لیے امریکہ صف اول میں کھڑا رہا ہے اور ہر قسم کی معاونت پیش کرتا رہا ہے۔ خود ناٹو جیسی ملٹری تنظیم کی تشکیل ہی اسی مقصد کے پیش نظر کی گئی تھی کہ مغربی ملکوں کے غلبہ و سطوت کو سوویت یونین سے جو خطرہ پیش آسکتا ہے، اس کا مقابلہ متحد ہوکر کیا جائے گا۔ گویا کہ کمیونسٹ سوویت یونین اور اس کے زوال کے بعد کا روس پورے مغرب کا واضح حریف بلکہ دشمن مانا جاتا رہا ہے۔ اسی تناظر میں یوکرین پر روس کی جارحیت کو دیکھا جانا چاہیے جس کا آغاز فروری2022میں کیا گیا تھا۔ روس نے یوکرین کے خلاف جنگ کا دہانہ کھولا ہی اس بہانہ سے تھا کہ ناٹو اس کی آخری سرحد تک توسیع کر رہا ہے اور اس کا سیدھا اثر روس کی سلامتی پر پڑے گا۔ ولادیمیر پوتن کی قیادت والا روس یہ چاہتا تھا کہ یوکرین ناٹو کے خیمہ میں جانے کے بجائے روس کے دائرۂ اثر میں رہے۔ یہ ایک ایسا مطالبہ تھا جس کو قبول کرنے کے لیے یوکرین اس لیے تیار نہیں تھا کیونکہ اس سے اس کی سیادت اور آزاد پالیسی سازی پر زد پڑتی تھی۔ جب یوکرین نے روسی دھمکیوں کو قبول نہیں کیا تو اس کے نتیجہ میں روس نے اس پر جنگ تھوپ دی۔ چونکہ ایک یوروپی ملک کی آزادی پر یہ کھلا حملہ تھا اور ناٹو کے اراکین کے مفادات اس حملہ سے متاثر ہو رہے تھے، اس لیے پورا مغربی خیمہ امریکہ کی قیادت میں یوکرین کے پیچھے مضبوط دیوار بن کر کھڑا ہوگیا۔ ناٹو روس کے خلاف جنگ کا اعلان اس لیے نہیں کر سکتا تھا کیونکہ یوکرین اس کا رکن نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہر قسم کی عسکری و غیر عسکری امداد یوکرین کو فراہم کی جاتی رہی اور امریکہ کا تعاون سب سے زیادہ تھا۔ اس تعاون کی نوعیت بالکل ویسی ہی تھی جیسی کہ دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ و فرانس کو نازی ہٹلر کے خلاف دی گئی تھی۔ یہ یوکرین کا حق تھا کہ اس کو روس کی غیر ضروری بلکہ مجرمانہ جارحیت سے بچایا جائے۔ امریکہ کا یہ اقدام اس آزاد دنیا کے دفاع سے متعلق فلسفہ کے بالکل مطابق تھا جس کی تاسیس میں خود امریکہ نے کلیدی کردار نبھایا ہے۔ امریکہ بائیڈن کے عہد تک اسی نہج پر قائم بھی رہا۔ لیکن ٹرمپ کی آمد سے وہ لبرل جمہوری عالمی نظام اچانک سے خطرہ میں پڑتا نظر آ رہا ہے جس کی ایسی دھوم مچائی گئی تھی کہ معروف امریکی دانشور فرانسیس فوکویاما نے نوے کی دہائی میں لکھی جانے والی اپنی کتاب ’’دی اینڈ آف ہسٹری اینڈ دی لاسٹ مین ‘‘میں یہ دعویٰ تک کر دیا تھا کہ دنیا اپنے ارتقائی مراحل کو اب مکمل کر چکی ہے اور لبرل جمہوریت انسانی معاشرہ کی معراج اور انتہا ہے۔ اب انسانی دنیا اس سے اوپر ترقی کے مدارج طے نہیں کرے گی کیونکہ مغرب اور بطور خاص امریکہ کی رہنمائی میں وہ اس منزل تک پہنچ چکی ہے جو انسان کی آخری منزل کہی جا سکتی ہے۔ باوجودیکہ فوکویاما کا یہ دعویٰ ایک دانشورانہ غرور سے زیادہ کچھ ثابت نہیں ہوا تھا اور آسیان کی کامیابی جو مغرب کے نظام سے بالکل مختلف تھی، فوکویاما کے نظریہ کو بیکار ثابت کر چکی تھی لیکن دنیا کی بڑی تصویر کے ایک ہالہ کے طور پر مغرب کے لبرل جمہوری نظام کو مقبولیت ضرور ملی ہوئی تھی۔ البتہ اب یہ ہالہ ٹوٹتا نظر آرہا ہے۔ جس ڈھنگ سے ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے نائب جے ڈی وانس نے یوکرین کے منتخب صدر ولودومیر زیلنسکی کو وہائٹ ہاؤس بلا کر ذلیل کیا ہے اور اپنے حلیف کو روس جیسے حریف بلکہ روایتی دشمن کی بس کے نیچے ڈال دیا ہے، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دوستی اور دشمنی کے تمام اصول ہی من مانے ڈھنگ سے اچانک بدل دیے گئے ہیں۔ بجائے اس کے کہ یوکرین کے ساتھ تعاون کو مزید بڑھایا جاتا اور اس پر تھوپی گئی روسی جنگ کے خاتمہ کے لیے ٹرمپ کی جانب سے سنجیدہ کوشش کی جاتی، ٹرمپ اور وانس نے اپنے حلیف کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیا اور توہین کرکے یوکرین کے صدر کو وہائٹ ہاؤس سے باہر نکال دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ لمحہ تاریخ میں ایک فیصلہ کن ساعت کے طور پر ریکارڈ کیا جائے گا اور یوروپ و امریکہ کے تعلقات پہلے جیسے نہیں رہیں گے۔ یوروپی یونین اور کینیڈا کی جانب سے امریکہ کے اس اہانت آمیز برتاؤ کے خلاف ردعمل فوری طور پر آیا اور یوروپی یونین کی سیکورٹی کانفرنس میں جس کا انعقاد لندن میں کیا گیا، یوکرین کو تعاون فراہم کرنے اور صدر زیلنسکی کو مکمل حمایت دینے کے عہد و پیمان کا اعادہ کیا گیا۔ امریکہ کو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ کس سمت میں اپنا سفر جاری رکھنا چاہتا ہے۔ اگر لبرل جمہوری نظام کو وہ اکیلے ہی بدلنے کی کوشش کرے گا تو ایک انارکی پھیل جائے گی اور کچھ بھی اپنی جگہ باقی نہیں رہے گا کیونکہ باہمی تعامل کے سارے اصول ہی بے معنی ثابت ہوجائیں گے۔ اگر ٹرمپ یہ چاہتے ہیں کہ یوکرین اپنی ان زمینوں سے دستبردار ہوجائے جس پر روس نے غاصبانہ قبضہ کیا ہے تو کیا کل وہ اپنے حلیف تائیوان کو چین کی جارحیت سے بچا پائے گا بلکہ یہ کہا جائے کہ یوکرین کے ساتھ امریکہ جو برتاؤ کر رہا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے کیا تائیوان امریکہ کی حمایت پر بھروسہ کر سکتا ہے؟ کیا چین اگر ہندوستان کے ساتھ زبردستی کرے اور اس کی زمینوں پر قابض ہوجائے جیسا کہ اروناچل میں کر رکھا ہے تو کیا ہندوستان کو بھی مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنی سیادت سے دستبردار ہوجائے؟ ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کا کوئی جواب اس وقت موجود نہیں ہے۔ سفارت و سیاست کے وہ سارے اصول جو کئی دہائیوں سے قابل عمل سمجھے جا رہے تھے، آج بے سود معلوم ہوتے ہیں اور اس کا سب سے بڑا مجرم امریکہ نظر آ رہا ہے۔ عالمی قوانین کی دھجیاں تو غزہ میں پہلے ہی امریکی حمایت سے اسرائیل نے اڑا دی تھیں، اب یوکرین کے ساتھ کیا جانے والا برتاؤ امریکہ کی عظمت کی بحالی بلکہ اس کی قوت کے زوال کا نقطۂ آغاز ثابت ہوگا اور اسی کے ساتھ مغربی لبرل جمہوری نظام ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ایک طویل مدت تک پوری دنیا انارکی کے ہولناک دور سے گزرے گی جس کی صرف جھلکیاں ہی جرمنی، فرانس، ہندوستان اور اٹلی و امریکہ میں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔

(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS