جمہوریت کا زوال: فسطائیت کے دو چہرے

0

محمد فاروق اعظمی

ختم ہوئے مہینہ فروری کی 27 تاریخ کو کولکاتا کے نیتا جی انڈور اسٹیڈیم میں منعقدہ ترنمول کانگریس کی آل لیول ورکرز میٹنگ کے مناظر نے مغربی بنگال کی سیاست کا ایک ایسا رخ آشکار کیا جو جمہوریت کیلئے کسی زہر سے کم نہیں۔ بظاہر ممتابنرجی اور ابھیشیک بنرجی کی قیادت میں بی جے پی کے خلاف صف آرا ہونے والی ترنمول کانگریس خود اسی راہ پر گامزن ہے جس کا وہ بی جے پی پر الزام عائد کرتی ہے۔ مرکزی حکومت اور اس کے ہتھیار سمجھی جانے والی تحقیقاتی ایجنسیوں پر تند و تیز حملے کرنے والی ترنمول قیادت اپنی صفوں میں پیدا ہونے والے اختلافات کو دبانے کی کوشش میں کسی بھی فسطائی قوت سے کم نظر نہیں آتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ترنمول اور بی جے پی میں جو جنگ نظر آ رہی ہے، وہ محض اقتدار کے حصول کی کشمکش ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے فسطائی مزاج اور جمہوری اقدار سے عاری طرز سیاست میں کوئی جوہری فرق نہیں۔

مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کی حکومت جس طرح اپوزیشن جماعتوں کو سیاسی میدان سے باہر کرنے کیلئے جارحانہ حکمت عملی اپنا رہی ہے، وہ ریاست میں کثیر الجماعتی جمہوریت کے وجود پر سوالیہ نشان ہے۔ ممتا بنرجی نے اس جلسے میں واضح طور پر کہا کہ اگلے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کو 215 سے زائد سیٹیں حاصل کرنی ہوں گی۔ اس بیان کے پس پردہ ترنمول کا وہ رویہ کارفرما ہے جس میں وہ اپنے مخالفین کیلئے کوئی جگہ نہیں چھوڑنا چاہتی۔ بی جے پی پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اپوزیشن کو کمزور کرنے کیلئے سی بی آئی اور ای ڈی جیسی مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کا سہارا لیتی ہے لیکن مغربی بنگال میں ترنمول کا طرز سیاست بھی کسی آمرانہ روش سے کم نہیں۔

اس جلسے کا ایک اہم پہلو ممتا اور ابھیشیک کے تعلقات کی قیاس آرائیوں میں گھری صورتحال تھی۔ تقریباً چھ ماہ بعد دونوں ایک ہی اسٹیج پر موجود تھے لیکن ان کے درمیان اختلافات کی خلیج اب بھی مکمل طور پر ختم ہوتی نظر نہیں آئی۔ ابھیشیک نے اپنی تقریر میں کہا کہ سازش کرنے والوں کا کوئی فائدہ نہیں وہ خود متاثر ہوں گے جبکہ ممتا نے اس کے جواب میں گویا خود کو فیصلہ کن حیثیت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کا نشان ہی آخری لفظ ہے۔ ان جملوں کے پیچھے پوشیدہ سیاسی پیغام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ممتا نے اشارہ دے دیا کہ پارٹی کی اصل کمان آج بھی ان کے ہاتھ میں ہے اور ریاستی سیاست کا دھاگہ وہ جب چاہیں جکڑ بھی سکتی ہیں اور چھوڑ بھی سکتی ہیں۔

یہ بھی اہم ہے کہ ابھیشیک بنرجی نے اپنے حلقے میں ’سیواشری‘ پروگرام کے ذریعے ایک متوازی فلاحی نظام قائم کرنے کی کوشش کی جسے کئی حلقے ممتا بنرجی کی حکومت کے محکمہ صحت کے متبادل کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ اگرچہ ابھیشیک نے وضاحت کی کہ ان کا مقصد متوازی ماڈل قائم کرنا نہیں لیکن اس کی نوبت ہی کیوں آئی؟ کیا ریاستی حکومت خود عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہوچکی ہے کہ حکمراں جماعت کے ہی ایک بڑے رہنما کو متوازی نظام قائم کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ یہی وہ تضاد ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس ایک ایسی طاقت بن چکی ہے جو ریاستی اداروں کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے کر ہر چیز پر اپنا کنٹرول چاہتی ہے۔

ترنمول کے اندرونی معاملات میں بھی فسطائی عناصر غالب نظر آتے ہیں۔ جلسے میں یوسف پٹھان، ساگاریکا گھوش، کیرتی آزاد اور شتابدی رائے نے اپنی تقاریر ابھیشیک کے بعد اور ممتا بنرجی سے پہلے کیں۔ یہ ترتیب معمول سے ہٹ کر تھی کیونکہ عموماً ممتا کے علاوہ اگر کسی کو جلسے میں سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے تو وہ ابھیشیک ہوتے ہیں۔ اس ترتیب میں تبدیلی ایک سیاسی اشارہ تھا جس سے پارٹی کے اندرونی حلقوں میں یہ سوال پیدا ہوا کہ آیا ممتا بنرجی نے ابھیشیک کو اپنی قیادت کے آگے ’’ایک ممبر‘‘ کے طور پر محدود کر دیا ہے؟ ترنمول قیادت پارٹی پر اپنی مضبوط گرفت قائم رکھنے کیلئے ہر ممکن حکمت عملی اختیار کر رہی ہے جو ایک جمہوری طرز سیاست سے میل نہیں کھاتی۔

دوسری طرف،اس پورے سیاسی منظرنامے میں ایک اور اہم حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ خود کو سیکولر کہنے والی ممتابنرجی کے بیانات اور جلسوں سے ’مسلمان‘ کا لفظ مکمل طور پر غائب ہوچکا ہے۔ یہ وہی ممتا ہیں جنہوں نے 2011 میں اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کو اپنی سیاست کا محور بنایا تھا۔ ان کے جلسوں میں داڑھی اور ٹوپی والے افراد پہلی صف میں نظر آتے تھے۔ مگر آج ان کے اسٹیج پر کوئی ایسا چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ ان کی پارٹی کی پہلی اور دوسری صف میں مسلمان لیڈر ناپید ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کو محض ووٹ بینک کی حیثیت سے استعمال کرنے والی ممتا نے انہیں بے دام غلام بنا لیا ہے۔ وہ بی جے پی کے خوف کا سہارا لے کر مسلمانوں کے ووٹ سمیٹتی ہیں،مگر عملی طور پر انہیں سیاست کے مرکزی دھارے سے دور رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مغربی بنگال کا مسلمان ترنمول کے در پر دریوزہ گر بنا کھڑا ہے۔ اسمبلی اور پارلیمنٹ میں عددی برتری حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں کو ٹکٹ دینا ایک سیاسی چال سے زیادہ کچھ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ممتا بنرجی نے مسلمانوں کو صرف اقتدار کے زینے کے طور پر استعمال کیا ہے۔

یہی وہ پالیسی ہے جو بی جے پی نے بھی اپنائی ہے۔ بی جے پی ہندو قوم پرستی کے نام پر فسطائیت کو فروغ دیتی ہے،جبکہ ممتابنرجی اپنی ’سیکولر‘ سیاست کے پردے میں اقلیتوں کا استحصال کرتی ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے خلاف بظاہر صف آرا ہیں،مگر درحقیقت دونوں ایک ہی صفحے پر ہیں۔ بی جے پی مسلمانوں کو کھلے عام دیوار سے لگاتی ہے تو ممتابنرجی انہیں نرم ہاتھوں سے سیاسی غلام بناتی ہیں۔

ترنمول کانگریس نے جو طریقہ سیاست اختیار کیا ہے،اس میں نہ جمہوریت کیلئے کوئی جگہ ہے اور نہ کسی مخالف آواز کیلئے۔ پارٹی کے فیصلے چند ہاتھوں میں مرتکز ہیںاور ممتا بنرجی اس بات کو یقینی بنا رہی ہیں کہ اصل اختیارات ان کے پاس ہی رہیں۔ نیتا جی انڈور اسٹیڈیم کا جلسہ اس حقیقت کی تصدیق کر چکا ہے کہ مغربی بنگال میں جمہوریت کا مطلب صرف اور صرف ممتابنرجی ہے۔ جیسے مرکز میں جمہوریت کا مطلب نریندر مودی سے جوڑ دیا گیا ہے،ویسے ہی بنگال میں ترنمول کانگریس کا مطلب ممتا بنرجی سے ہے۔

یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ ترنمول کی جمہوریت کش پالیسیوں نے مغربی بنگال میں حقیقی اپوزیشن کو تقریباً بے اثر کر دیا ہے۔ سی پی ایم اور کانگریس کے وجود پر ممتا بنرجی کا طنزیہ انداز یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ صرف ایک جماعتی اقتدار کی خواہشمند ہیں۔ یہی بی جے پی کا نظریہ بھی ہے جو مختلف ریاستوں میں اپوزیشن کو کمزور کرنے کیلئے ہر ممکن طریقہ اختیار کرتی ہے۔ دونوں جماعتوں کے طرز سیاست میں یہی یکسانیت اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی دشمنی حقیقت میں اقتدار کیلئے ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

ترنمول اور بی جے پی کی دشمنی حقیقت میں محض ظاہری ہے۔ دونوں جماعتیں فسطائیت کے دو چہرے ہیں جو جمہوریت کے خلاف یکساں طور پر سرگرم ہیں۔ ایک مرکز میں اقتدار کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن کو کچلنے میں مصروف ہے تو دوسری ریاست میں اپنی مطلق العنان حکمرانی کو دوام بخشنے کیلئے ہر ممکن حربہ استعمال کر رہی ہے۔ دونوں کے طرز سیاست میں مماثلت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ ایک دوسرے کی ضد نہیں،بلکہ ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم بن چکے ہیں۔ ممتا بنرجی بی جے پی پر تحقیقاتی ایجنسیوں کے ناجائز استعمال کا الزام لگاتی ہیں لیکن جب یہی ایجنسیاں ترنمول کے مخالفین کے خلاف سرگرم ہوتی ہیںتو ممتا خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ اسی طرح بی جے پی ترنمول کی مطلق العنانیت کا رونا روتی ہے لیکن جب وہ خود کسی ریاست میں اقتدار حاصل کرتی ہے تو وہی پالیسی اپناتی ہے۔
یہ جلسہ نہ صرف بی جے پی کے ساتھ ترنمول کی بظاہر دشمنی،بلکہ درحقیقت باطن میں ان کی یکسانیت کو بھی آشکار کرتا ہے۔ بنگال میں اگر حقیقی جمہوریت کا خواب دیکھنا ہے تو اس دو عملی کو سمجھنا ہوگا۔ جب تک بی جے پی اور ترنمول جیسی جماعتوں کا تسلط رہے گا،جمہوریت محض ایک دکھاوا بنی رہے گی۔اس کے ساتھ ہی مغربی بنگال کی سیاست میں یہ سوال اہم ہو چکا ہے کہ کیا ریاست میں جمہوریت کا تحفظ ممکن ہے؟ کیا ترنمول کانگریس اور بی جے پی کے فسطائی نظریات کے خلاف کوئی حقیقی اپوزیشن پیدا ہوسکے گی؟ یا پھر جمہوریت کے نام پر فسطائیت کا کھیل اسی طرح جاری رہے گا؟ یہ سوالات ریاست کے ہر باشعور شہری کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں اور ان کے جوابات تلاش کرنا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS