مذاہب عالم میں روزے اور ورت کا تصور

0

خواجہ عبدالمنتقم

روزہ جسے مختلف مذاہب میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے ، ایک اہم عبادت ہے جو جسمانی اور روحانی تزکیے کا ذریعہ بنتی ہے۔ ہر مذہب میں روزے کا طریقہ اور مقصد مختلف ہو سکتا ہے، لیکن سب کا مشترکہ مقصد نفس کو قابو میں رکھنا، روحانی سکون حاصل کرنا اور اللہ یا اپنے معبود کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگرچہ تقریباً تمام مذاہب میں روزے یا ورت کا تصور موجود ہے لیکن اسلام میں اس کی نوعیت مختلف ہے۔ روزہ صرف بھوکا رہنے کا نام نہیں۔ماہ رمضان رحمتوں، برکتوں اور مغفرت کا مہینہ ہے۔ ماہ صیام مسلمانوں کے لیے ضبط نفس،اپنی جنسی خواہشات پر قابو رکھنے، غربا، اپنے پڑوسیوں اور تمام ضرورتمندوں کی مدد کرنے اور یہ یقینی بنانے کا مہینہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھوکا نہ رہے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک گھر میں تو لوگ افطار کے وقت اور/یا مابعد اعلیٰ قسم کے مشروبات اور مرغن غذاؤں کا لطف اٹھارہے ہوں تو پڑوس میں ایک غریب خاندان دو کھجوروں کے لیے بھی ترس رہا ہو اور ایسے علاقے میں مقیم ہو جہاں صرف پانی سے روزہ افطار کے لیے صاف پانی بھی پیسے دے کر ملتا ہو۔

اسلام میں روزہ (صیام):یوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو روزہ بہت محبوب تھا، مگر رمضان کے علاوہ سب سے زیادہ روزے آپؐ شعبان کے مہینے میں رکھا کرتے تھے اور رمضان المبارک میں روزوں کے ساتھ آخری عشرے (21کی مغرب سے چاند نظر آنے تک) اعتکاف بھی کرتے۔ آخری ماہ رمضان میں ایک عشرے کے بجائے دو عشرے اعتکاف فرمایا۔ لگاتار اور مسلسل روزے رکھتے جن کو ’صیام متوالیہ‘ کہا جاتا ہے۔ سحر وافطار میں صرف کھجور اور پانی پر اکتفا کرتے۔ اصحاب کرام جو جذبۂ اتباع واطاعت رسولؐ سے سرشار تھے جن میں سے کچھ حضرات نے ایسے ہی لگاتار روزے رکھنے شروع کیے، جس سے ان کی صحت متاثر ہوئی۔ ان کو ایسا کرنے سے منع فرمایااور یوں خطاب کیا: یُطِعُمْنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِیْ۔ میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ تم پر تمہارے جسم جان اور بیوی کے بھی حقوق ہیں۔ ان سب کی ادائیگی ضروری ہے۔

اسلام درمیانی راہ، اعتدال اور میانہ روی کی تعلیم پر سختی سے زور دیتا ہے۔ ایسی عبادت کو، جو انسان کو اس کی صحت، خانگی فرائض، معاشی خود کفالتی سے محروم کردے، اسلام نامناسب قرار دیتا ہے۔ وہ تجّرد (شادی نہ کرنا) پر شادی کرنے، بال بچوں کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کو گوشہ نشینی سے اور معاشرے میں رہ کر اللہ کے احکام پر عمل کرنے کو افضل قرار دیتا ہے۔ اسلام زکوٰۃ ادا کرنے والا بننے پر زور دیتا ہے نہ کہ قوم کو زکوٰۃ، خیرات صدقات پر زندہ رہنے پر۔ پھر روزے بھی کیسے جن پر شرائط آدابِ صیام اور ان کی روح ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ہر لمحہ عبادت الٰہی، تبلیغ دین، اشاعت اسلام، خیر کی دعوت اور شرسے دور رہنے کی کوششوں میں گزرتا تھا، مگر رمضان المبارک میں زندگی خصوصیت سے عبادات ہی کے لیے وقف ہوجاتی اور معمولات میں اہم تبدیلی آجاتی۔
حضوراکرمؐ نے اپنے وصال سے قبل جو آخری خطبہ دیا تھا، ا س میں بھی یہ کہا تھا:لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور نہ تمہارے بعد کوئی امت وجود میں آئے گی، سنو! بلاشبہ میری دعوت کے سوا ہر نبی کی دعوت ختم ہوچکی ہے کہ میں نے اس کو اپنے پروردگار کے پاس قیامت تک کے لیے جمع فرمادیا ہے (یعنی اب کسی اور کو عطا نہ ہوگی) یہ حقیقت ہے کہ انبیاء علیہم السلام (قیامت کے دن) کثرتِ تعداد پر فخر کریںگے، پس تم مجھ کو (اپنی بداعمالی سے) رسوا مت کرنا، میں حوض کوثر کے دروازے پر تمہارے انتظار میں رہوں گا۔ سنو! اپنے رب کی عبادت کرو، نماز پنج گانہ ادا کرو، ماہِ رمضان کے روزے رکھو، اپنے اموال کی زکوٰۃ خوش دلی کے ساتھ ادا کرو، (اور ایک روایت میں ہے) اور اپنے پروردگار کے گھر کا حج کرو، اور سربراہوں کی اطاعت کرو، اور اپنے پروردگار کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔

عیسائیت میں روزہ:عیسائیت میں روزے کو ایک اہم عبادت سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر ’’لینٹ‘‘(Lent) کے دوران۔ یہ 40 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں مسیحی افراد کھانے میں پرہیز، دعا اور توبہ پر توجہ دیتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود 40 دن تک روزہ رکھا تھا، اسی کی پیروی میں عیسائی برادری بھی روزہ رکھتی ہے۔کیتھولک اور آرتھوڈوکس عیسائی مخصوص دنوں میں روزہ رکھتے ہیں اور ان میں گوشت کھانے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ روزے کا مقصد گناہوں سے توبہ، روحانی نشوونما اور قربِ الٰہی کا حصول ہے۔

یہودیت میں روزہ: یہودیت میں روزہ ایک عبادتی عمل ہے جو کفارہ اور دعا کے لیے رکھا جاتا ہے۔ ’’یوم کفارہ‘‘(Yom Kipper) سب سے اہم روزہ ہے، جو یہودی تقویم کا مقدس دن سمجھا جاتا ہے۔ اس دن یہودی افراد 25 گھنٹے کے لیے کھانے پینے سے مکمل پرہیز کرتے ہیں اور دعا و عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔

ہندومت میںورت : ہندومت میں روزہ )وَرَت( ایک اہم مذہبی رسم ہے جو مختلف دیوتاؤں کی رضا کے لیے رکھا جاتا ہے۔ ہندو افراد مختلف تہواروں اور مخصوص دنوں جیسے ’’اکادشی‘‘، ’’نوراتری‘‘ اور ’’شنوارات‘‘ پر ورت رکھتے ہیں۔اہل ہنود روحانی پاکیز گی کے لیے ایک منڈل یعنی 48 دن کا رضاکارانہ طور پر ورت بھی رکھتے ہیں۔ یہ ورت وقفہ وار نوعیت کا ہوتا ہے۔ لوگ دنوں کا یعنی ورت کی مدت کاانتخاب اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ کوئی شروع میں رکھتا ہے، کوئی درمیان میں، کوئی آخر میں تو کوئی توڑ توڑ کر۔ بعض ورت سخت ہوتے ہیں جن میں مکمل طور پر کھانے پینے سے پرہیز کیا جاتا ہے، جبکہ کچھ میں صرف پھل اور دودھ لیا جاتا ہے۔ورت کا مقصد جسمانی و روحانی پاکیزگی، دیوتاؤں کی خوشنودی اور کرموں کی پاکیزگی ہے۔

بدھ مت میں روزہ(ورت): بدھ مت میں روزے(ورت) کو ایک روحانی مشق کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بدھ مت کے پیروکار عام طور پر ’’اوپوساتھا‘‘ (Uposatha) کے دن روزہ رکھتے ہیں، جس میں وہ شام کے بعد کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ بدھ مت میں روزے کا بنیادی مقصد خواہشات کو قابو میں رکھنا، ذہنی سکون حاصل کرنا اور نروان (moksha) کی راہ ہموار کرنا ہے۔

سکھ مذہب میں روزہ: سکھ مت میں روزے کا وہ تصور نہیں جو دیگر مذاہب میں پایا جاتا ہے۔ گرونانک نے روزے کو محض جسمانی مشقت قرار دیتے ہوئے اس کے بجائے نیکی، خدمتِ خلق اور سچائی پر زور دیا۔ تاہم، بعض سکھ افراد روحانی ترقی کے لیے مخصوص دنوں میں روزہ رکھتے ہیں مگر لاز میت نہیں۔

تراویح کے بعد لوگ، خاص کر نوجوان، خاموشی کے ساتھ واپس آئیں اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریںاور کسی کو ہمیں بدنام کرنے کا موقع نہ دیں۔ یاد رہے کہ ہمارے سماج میںکچھ ایسے عناصر موجود ہیں جو ہمیشہ شعلوں کو ہوا دینے کی تلاش میں رہتے ہیں۔سماج میں بیشتر لوگ امن و امان چاہتے ہیں مگر معدودے چند لوگوں کی فطرت اور خمیر میں شرارت اور اوباشی شامل ہوتی ہے اور ان کی اصلاح کا امکان بھی بہت کم ہی ہوتا ہے۔

(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS