مغربی بنگال میں حالیہ دنوں اختتام پذیر ہونے والے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے اجلاس میں ہندو آبادی میں مبینہ کمی کو ایک مسئلے کے طور پر پیش کیا گیا اور یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ہندوؤں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مقابلے میں ایک عددی برتری حاصل کی جاسکے۔ یہ بیانیہ نہ صرف متعصبانہ اور زہر آلود ہے بلکہ ملک کے سیکولر اور جمہوری اقدار کیلئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ آر ایس ایس کی قیادت نے واضح طور پر کہا کہ ہندو جوڑوں کو کم از کم تین سے چار بچے پیدا کرنے چاہئیں تاکہ آبادی کے توازن کو برقرار رکھا جا سکے اور ہندو ووٹ بینک کو مزید مستحکم کیا جا سکے۔
یہ سوچ درحقیقت ایک خطرناک ایجنڈے کا حصہ ہے جس کے ذریعے مسلمانوںکے خلاف تعصب کو بڑھایا جا رہا ہے۔ ہندوستان ایک ہمہ جہتی تہذیب و ثقافت کا گہوارہ ہے جہاں مختلف مذاہب، زبانوں اور ثقافتی روایات کے لوگ صدیوں سے شانہ بشانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مگر اب آرایس ایس جیسے شدت پسند عناصر اس ملک کی اس فطری ہم آہنگی کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ آر ایس ایس جو خود کو ایک ثقافتی تنظیم کہلانے کا دعویٰ کرتی ہے،درحقیقت فرقہ پرستی کے زہر سے لبریز ایک ایسی سازشی قوت میں تبدیل ہو چکی ہے جو ملک کے جمہوری اور سیکولر ڈھانچے کو کھوکھلا کرنے کی مہم پر گامزن ہے۔ مغربی بنگال میں اس کی حالیہ سرگرمیاں اسی خطرناک ایجنڈے کا حصہ ہیں جس کا مقصد ریاست میں ہندوتو کا ایسا جال بچھانا ہے جس میں اختلاف، تنوع اور جمہوری اقدار کا دم گھٹ جائے۔
ریاست میں10دنوں تک خیمہ زن سنگھ سرچالک موہن بھاگوت کی سربراہی میںآر ایس ایس کا یہ اجلاس 1 اور 2 مارچ 2025 کو ہوڑہ کے تانتی بیڑیا،الوبیڑیا میں منعقد ہوا۔ جس میں مغربی بنگال کے آر ایس ایس کے اعلیٰ رہنمائوں کے علاوہ پڑوسی ریاستوں کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ مزید برآں وشو ہندو پریشد،بجرنگ دل،بھارتیہ مزدور سنگھ، اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد اور ودیا بھارتی جیسی 57 دوسری تنظیموں کے ارکان بھی اس اجلاس میں موجود تھے۔ اس دو روزہ اجلاس میں مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اور ہندو ووٹوں کو مزید مستحکم کرنے اور بی جے پی کو اقتدار میں لانے کیلئے آر ایس ایس کے کردار پر غور کیا گیا۔اس اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ مغربی بنگال میں قانون و نظم و نسق،خواتین کے خلاف جرائم اور ترنمول کانگریس حکومت میں بدعنوانی جیسے مسائل کو عوام کے سامنے اجاگر کیا جائے گا۔ اس مقصد کیلئے آر ایس ایس سے منسلک کئی سماجی تنظیموں کے ذریعے عوامی اجلاس منعقد کیے جائیں گے۔ اجلاس میں مغربی بنگال کے 2026 کے انتخابات پر توجہ مرکوز کی گئی،جہاں بی جے پی کو اقتدار دلانے کیلئے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کی حکمت عملی ترتیب دی گئی۔ نیز رام نومی، ہنومان جینتی اور دوسرے ہندو تہواروںمیں اپنی طاقت کا کھلا اظہار کرنے کی بھی ترغیب دی گئی۔
یہ اجلاس محض ایک تنظیمی میٹنگ نہیں تھی بلکہ ریاست کی سیاست میں زہر گھولنے کی منظم سازش تھی۔ حیرت کی بات نہیں کہ اس اجلاس میں بی جے پی کے سرکردہ رہنما اور منتخب نمائندے بھی موجود تھے،جنہوں نے ہندو ووٹوں کے نام پر اپنی انتخابی مہم کو مذہبی شدت پسندی میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ ریاست میں اپوزیشن لیڈرشوبھندو ادھیکاری کااس اجلاس میں یہ کہنا کہ وہ صرف ہندو ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں اور مزید 5 فیصد ہندو ووٹ درکار ہیں،ہندوستان کی جمہوری روح کے منہ پر طمانچہ ہے۔ یہ بیان ملک کے سیکولر آئین کے خلاف کھلی بغاوت کے مترادف ہے۔یہ محض اتفاق نہیں کہ آر ایس ایس نے مغربی بنگال میں رام نومی اور ہنومان جینتی جیسے مذہبی تہواروں کو بڑے پیمانے پر منانے کی ہدایات دی ہیں۔ ان مذہبی مواقع کو عوامی طاقت کے مظاہرے میں بدلنے اور اقلیتی طبقے میں خوف و ہراس پھیلانے کی حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ ’’اکثریتی بالادستی‘‘ کے اس گھناؤنے خواب کا حصہ ہے جو ہندوستان کی جمہوری اقدار سے متصادم ہے۔
سی پی آئی (ایم) کے سینئر رہنما پرکاش کرات نے بالکل درست کہا ہے کہ آر ایس ایس مغربی بنگال کو مشرق میں فرقہ وارانہ سیاست کا مرکز بنانے کی تیاری کر رہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ آر ایس ایس کا مشن مذہبی منافرت پھیلانا، مسلمانوں کو دیوار سے لگانا اور بنگال میں ہندوتو کی بنیاد پر بی جے پی کی حکومت قائم کرنا ہے۔ ان کے مطابق آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا دس روزہ دورہ اسی مقصد کیلئے تھا تاکہ تنظیمی نیٹ ورک کو مستحکم کیا جا سکے اور بی جے پی کی کامیابی کیلئے ہندو ووٹوں کی تقسیم کو ختم کیا جاسکے۔ کرات نے خبردار کیا کہ اگر مغربی بنگال کے عوام نے اس خطرے کو نہ سمجھا تو ریاست میں جمہوریت اور سماجی یکجہتی کو شدید نقصان پہنچے گا۔
آر ایس ایس کی یہ حرکتیں صرف مغربی بنگال ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کیلئے ایک سنجیدہ خطرہ ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مذہب کو سیاست کے ساتھ ملایا گیا تباہی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ ہندوستان کا اتحاد اس کی کثرت میں وحدت کے اصول پر قائم ہے اور اگر اس بنیادی اصول کو توڑنے کی کوشش کی گئی تو اس کے بھیانک نتائج نکلیں گے۔ ہندوستان کے عوام بالخصوص مغربی بنگال کے لوگ ہمیشہ فرقہ وارانہ طاقتوں کے خلاف سینہ سپر رہے ہیں اور امید ہے کہ وہ دوبارہ اسی اتحاد و مزاحمت کا مظاہرہ کریں گے۔