شاہد زبیری
پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پر مودی حکومت کی کابینہ نے اپنی مہر لگادی ہے جس کے بعد وقف ترمیمی بل کا پارلیمنٹ میں پاس ہونا طے مانا جا رہا ہے۔ مودی حکومت کا اگلا قدم اب یکساں سول کوڈ کا نفاذ ہوگا جو شروع سے بی جے پی کے ایجنڈہ میں سر فہرست ہے۔ 10مارچ سے شروع ہونے والے پارلیمانی اجلاس میں نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو وقف ترمیمی بل کو منظور ہونے سے نہیں روکیں گے مودی حکومت نے ان کو رام کر لیا ہے اور این ڈی اے میں شامل دیگر پارٹیاں بھی بل کو منظور کئے جا نے پر متفق ہیں۔ وقف ترمیمی بل کا جو ائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا جا نا محض ڈرامہ تھا جو سب کے سامنے آگیا۔انڈیا محاذ میں شامل غیر بی جے پی اور سیکولر جماعتوں نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں جتنی شدت سے مخالفت کی ہے ا س سے زیادہ کی ان سے توقع کی بھی نہیں جا سکتی تھی یہ پارٹیاں ایک حد سے آگے نہیں جا سکتی ہیں یہ ان کی مجبوری ہے جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔وقف ترمیمی بل پر ملت کی نگاہیں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف ہیں وہ کیا قدم اٹھا تا ہے ۔پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پیش کئے جانے کے بعد بورڈ نے دہلی کے پریس کلب میں میڈیا کے روبرو جو کچھ کہا اس سے بورڈ کی منشا کا پتہ چلتا ہے بورڈ نے سکھ اور عیسائی اقلیت کے رہنمائوں کے ساتھ دہلی اور ممبئی میں میٹنگیں کی ہیں ان میٹنگوں کی جو اطلاعات باہر آئی ہیں وہ زیادہ امید افزا نہیں ہیں۔
کسی کو نہیں معلوم اس کے بعد بورڈ کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ مانا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کی کنڈی بجانے سے زیادہ بورڈکچھ نہیں کرسکتا اس کے عمل سے ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے۔ 10مارچ سے شروع ہو نے وا لے پارلیمنٹ کے اجلاس میں وقف ترمیمی بل کے پاس ہو نے کے بعد بورڈ سپریم کورٹ کے دراوزہ پر دستک دے سکتا ہے ایسا خیال کیا جاتا ہے ۔ بورڈ کے رکن، سابق ایم پی محمد ادیب اور بعض مسلم حلقے بورڈ پر سڑک پر اترنے کیلئے دبائوبنا رہے ہیں لیکن لگتا نہیں کہ ملک کے موجودہ سیاسی تناظر میں بورڈ کی قیادت یہ جرأت دکھائے بور ڈ جن ملّی جماعتوں کی نمائندگی کرتا ہے ان جماعتوں میں کوئی جماعت آج کے سیاسی حالات میں سڑک پر اترنے کی ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی ۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ جمعیۃ علماء چاہے تو سڑک پر اتر نے کا حوصلہ دکھا سکتی ہے جیسا کی ماضی میں وہ دکھاتی رہی ہے ۔ جمعیۃ نے آخری مرتبہ اپنے قائد مولانا اسعد مدنیؒ کی قیادت ملک و ملت بچائو تحریک شروع کی تھی اور گرفتاریاں دی تھیں ۔ اس کے بعد سے آج تک اس نے ملّی مسائل پر کبھی کوئی ایسی تحریک نہیں چلائی سوائے چہار دیواری میں بڑی بڑی کانفرنسوں کا انعقاد کرنے، جوشیلی تقاریر کرنے اور قرار دادیں پاس کئے جا نے کے جمعیۃ کے دونوں دھڑے آج سڑکوں پر اترنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ جمعیۃ کی ماضی کی کار کردگی کی بناء پر کچھ مسلمان سمجھتے ہیں کہ جمعیۃ چاہے تو اپنی للکار سے ایوانوں کو ہلا سکتی ہے ۔ جماعت اسلامی ہند بھی کل ہند جماعت ہونے کی دعویدار ہے لیکن جمعیۃ علماء ہند کے مقابلہ نہ تو اس کے پاس افرادی قوت ہے اور نہ ہی ملکی سطح پر مسلمانوں میں اس کا اثر نفوذ اتنا ہے جو جمعیۃ علماء ہند کا ہے۔ اس جماعت کا دائرہ کار اسلامی لٹریچر تیار کرنے قومی ملّی مسائل پر بیانات جا ری کرنے ارکان جماعت، متفقین اور ہمدردوں کے اجتماعات کرنے اور کچھ فلاحی اور اصلاحی امورانجام دینے تک ہی محدود ہے۔ اس کے تصورِ اقامت دین کے اصول اور اس کا پالیسی پروگرام اس کو سڑکوں پر اترنے اوراحتجاج کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔آل انڈیا ملّی کونسل کی عمر اتنی نہیں جتنی مذکورہ دونوں جماعتوں کی ہے نہ اس کا تنظیمی ڈھانچہ ملک بھر میں اتنا مضبوط ہے کہ اس سے کسی تحریک کے شروع کئے جانے کی امید کی جا سکے ا ن تین جماعتوں کے علاوہ کچھ علاقائی جماعتیں ہیں جن میں سوشلسٹ ڈیمو کریٹک پارٹی نام کی جنوبی ہند کی پارٹی جنوبی ہند میں گاہے بگا ہے سڑکوں پر ا پنی موجودگی کا احساس کراتی رہتی ہے۔
مجموعی طورپر جب کل ہند جماعتیں ملّی مسائل کی لڑائی سڑک پر لڑنے کی طاقت نہیں رکھتی ہیں تو علاقائی جماعتوں سے کیا توقع کی جا سکتی ۔ماضی میں جامع مسجد دہلی کے شاہی امام مولانا سیّد عبداللہ بخاری ؒاور سابق ایم پی مرحوم سیّد شہاب الدین کی سربراہی میں بابری مسجد کے ایشو پر جا مع مسجد کے علاقہ میں ہجوم کے لحاظ سے تاریخ ساز جلسہ ہوا تھا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے شاہ بانو کیس کے معاملہ میں بھی بورڈ کی کال پربھی مسلمانوں کا سیلاب سڑکوں پر دکھا ئی دیا تھا جس کا نتیجہ اس وقت یہ نکلا تھا کہ راجیو گاندھی کی کانگریس سرکار نے پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دے کر ایک لنگڑا قانون پاس کرادیا تھا جس سے نفع کم اور نقصان زیادہ ہوا تھا جس کی تفصیل کا یہاں موقعہ نہیں ۔ بورڈ تب سے آج تک مسلمانوں کی ایسی کوئی تحریک نہیں چلا پایا سوائے عدالتی چارہ جوئی کے لیکن اس عدالتی چارہ جوئی میں بھی کسی ایک میںبھی کا میابی بورڈکے ہاتھ نہیںآئی۔ با بری مسجد کا معاملہ ہو یا تین طلاق کا، بورڈ کے وکلاء نے ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک ہزیمت کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا ۔ بورڈ کی قیادت کے بارے میں یہ تاثر پنپ رہا ہے ۔وقف ترمیمی بل کولے کر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن اور راجیہ سبھا کے سابق ممبر محمد ادیب ان دنوں بورڈ کے طرز عمل پر سوال کھڑے کررہے ہیں ان کا اصرار ہے کہ جمہوریت میں سڑکوں پر سروں کی گنتی کرائے بغیر کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ان کے مطابق مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام شرعی معاملات کے تحفظ کیلئے کیا گیا تھاوقف املاک کا تحفظ بھی خالص شرعی مسئلہ ہے اور بورڈ کو چاہئے کہ وہ انصاف پسند غیر مسلموں کو ساتھ لے کر اس کیلئے سڑکوں پر اترے ۔ انہوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ اگر مسلم پر سنل لاء بورڈ ایسا نہیں کرے گا تو وہ 10مارچ سے شروع بجٹ کے دوسرے پارلیمانی اجلاس میں وقف ترمیمی بل کے پاس کئے جا نے کے خلاف دہلی کے جنتر منتر اپنے ساتھیوں اور غیر مسلم دوستوں کے ساتھ حکومت کی اس نا انصافی اور ظلم کے خلاف آواز بلند کریں گے ۔
ہوسکتا ہے بورڈ کسی مصلحت کے تحت محتاط رویہ اختیار کئے ہوئے ہو اور اسی سبب ملّی جماعتیں اور قیادت بھی کھل کر کچھ کرنے سے گریز کررہی ہیں اوریہ ان کی مجبوری اور لاچاری ہو جس کو وہ خود سمجھتی ہیں۔ تاہم باوجود اس کے یہ توقع تو ملّی قیادت اور ملّی جماعتوں سے کی ہی جا سکتی ہے کہ کہ وہ ملک کے موجودہ تناظر میںوقف کے مسئلہ کا دیر پا حل ڈ ھونڈنے کی کوشش کرے ایسی کوشش جس کے کچھ نتائج برآمد ہو سکیں محض بیان دینے اور کہی گئی باتوں کی تکرار اور عمل سے عاری کوری بیان بازی سے تو کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں نکلے گا۔ ملک آج جن سیاسی حالات سے دو چار ہے یہ اندیشہ قوی ہے کہ این ڈی اے کی مودی حکومت وقف ترمیمی بل کو منظور کر انے کے بعد پورے ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوشش تیز کر دے جو وہ کر سکتی ہے بی جے پی کی اترا کھنڈ کی دھامی سرکار ایساکرچکی ہے ۔جس کے خلاف جمعیۃ علماء نے سپریم کورٹ کے دروازہ پر دستک دی ہے ۔ جمعیۃ کے قائد مولانا ارشد مدنی نے جس کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور ملک کی یکجہتی اور سالمیت کیلئے نقصاندہ قرار دیا ہے۔ممکن ہے کہ جمعیۃ علماء کی قیات سمجھتی ہو جس طرح دہشت گردی معاملوں میں سپریم کورٹ نے مسلمانوں کو راحت دی ہے اور جمعیۃ کامیاب رہی ہے یکساں سول کوڈ میں بھی راحت مل جا ئے لیکن جمعیۃ کو یہ نہیں بھولنا چا ہئے ایک سے زائد مرتبہ سپریم کورٹ کی طرف سے بھی ملک بھر میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی وکا لت کی جا چکی ہے ۔ ایسی صورت میں سپریم کورٹ سے یکساں سول کوڈ پر راحت ملنے کا امکان کم نظر آتا ہے ۔اسی کے ساتھ مسلم قیادت اور مسلم تنظیموں کو یہ بھی دھیان رکھنا چاہئے وقف ترمیمی بل کے خلاف انڈیا محاذ کی جماعتوں نے جس بیبا کی کا مظاہرہ کیا ہے وہ یکساں سول کوڈ پر محتاط رہیں گی۔