ڈاکٹر سیّد احمد قادری
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اردو زبان کو کٹھ ملّاؤں کی زبان کیا کہا کہ ہر طرف ایک طوفان سا اٹھ کھڑا ہو گیا ہے اور خوشی کی بات یہ دیکھنے کو مل رہی ہے کہ اردو زبان کی حمایت میں وہ لوگ بہت زیادہ بول رہے ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے اور چونکہ یہ لوگ اردو زبان کی اہمیت اور اس کی تہذیبی و ثقافتی روایت سے بخوبی واقف ہیں،اس لئے ایسے پڑھے لوگ اس زبان کی حمایت میں بولنے پر مجبور ہوئے۔یہ لوگ اس امر سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ کوئی بھی زبان کسی خاص ذات یا مذہب کی نہیں ہوتی ۔ اگر ایسا ہوتا تو بہت ساری زبانیں اپنی جائے پیدائش سے جغرافیائی حدود کو توڑ کر دنیا کے مختلف ممالک میں نہیں پہنچ جاتیں ۔
اردو زبان کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ اردو زبان غیر منقسم بھارت میں پیدا ہوئی، پلی بڑھی اور اپنی شیرینی اور اپنی تہذیبی و ثقافتی خوبیوںکے باعث آج دنیا کے کئی بڑے ممالک کے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا چکی ہے۔ اس اردو زبان کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کی پرورش و فروغ دینے والوں میں کسی ایک مذہب ،ذات یا فرقہ کا تعلق نہیں ہے بلکہ اس زبان کو ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سبھوں نے اپنایا اور اپنے گھروں اور خاندان میں اسے خاص مقام دی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی کے بعد یہ واحد زبان ہے جسے مختلف مذاہب کے ادباو شعرا اپنی ادبی خدمات سے شہرت اور مقبولیت حاصل کی ہے۔ ان ہی وصف کے باعث اشوک ساحل یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ۔۔۔۔۔
اردو کے چند لفظ ہیں جب سے زبان پر
تہذیب مہرباں ہے مرے خاندان پر
اسی کے ساتھ ساتھ کسی نے کبھی یہ بھی کہا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔
اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے
وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی
اردو زبان کی اہمیت کے پیش نظر اردو زبان کی حمایت میں سامنے آنے والے یہ دانشوران اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ یوگی جس طرح اردو زبان کے تعلق سے مولوی، ملّاؤں کو ہدف ملامت بنا رہے ہیں ، انھیں مولوی ملّاؤں نے آزادیٔ ہند میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ آج جو ہر چہار جانب ’’انقلاب ندہ باد‘‘ کے نعرے گونجتے ہیں یہ بھی مولوی نما حسرت موہانی کی دین ہے ،’’سرفروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے ‘‘ جیسی حب الوطنی سے سرشار اشعار سنا کرا پنی افواج کو ہمّت و حوصلہ دینے والی غزل کے خالق مولوی بسمل عظیم آبادی ہی تھے ۔ مختلف ممالک میں اس ہندوستان کے لاکھوں بے روزگار وں کو روزگار دینے والے ممالک بھی مولوی ہی ملّاؤں کے ہیں۔یہ وہی ملّاؤں کے ممالک ہیں جہاں سے پٹرول اس ملک کو سستے داموں پر حاصل ہوتے ہیں جس سے ملک کا ہر فرد فائدہ اٹھاتا ہے ۔یہ وہی لوگ ہیں جو اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ جن مولویوں ، ملّاؤں کے مدارس کو آئے دن یوگی آدتیہ ناتھ اور ان جیسے لوگ نشانہ بناتے ہیں ۔ انھیں کیا معلوم کہ ان ہی مدارس سے ملک کے ہزاروں ہندو مسلمانوں نے تعلیم پا کر دنیا میں نام روشن کیا اور اپنے ملک کی شان بڑھائی ہے ۔ مجھے تو اس بات پر ہی شک ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے ممکن ہے کہ بنارس ہندو یونیورسٹی کو قائم کرنے والے پنڈت مدن موہن مالویہ ، مشہور اردو شاعر برج نرائن چکبست، کئی زبانوں کے مشہور اسکالر پنڈت رگھوناتھ مرمو، مشہور ہندی شاعرہ مہادیوی ورما ، اردو فارسی زبان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ فکشن نگار منشی پریم چند ، مشہور مجاہد آزادی لا لہ لاجپت رائے، ملک کے پہلے صدر مملکت ڈاکٹر راجندر پرساد ، مجاہد آزادی بابو کنور سنگھ ، اردو کے مایہ ناز نقاد گوپی چند نارنگ ، اردو کے معروف طنز و مزاح نگار کنہیا لال کپور وغیرہ کے نام سے بھی ہوںگے کہ نہیں ، جنھوں نے اردو ، فارسی اور عربی مدرسوں ہی سے تعلیم پائی اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچے ۔نہ جانے کیوں مجھے اس وقت کنویں کے مینڈک یاد آ رہی ہے جو اپنے کنواں کو ہی پوری دنیا سمجھتا ہے۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ جہالت ایک عذاب ہے جس میں ایسے متعصب لوگ مبتلا ہیں۔ عہدہ مل جانے سے علمی لیاقت نہیں حاصل ہوتی بلکہ علم کے لئے دل و دماغ کشادہ، ذ، ہن عصبیت سے پاک ہو تبھی علم کی گراں قدر دولت حاصل ہوتی ہے ۔
یوگی اردو کے خلاف بولنے سے قبل کاش کہ کوئی انھیں بتا تا کہ اسی اتر پردیش جس ریاست کے وہ وزیر اعلیٰ ہیں وہاں 20 مارچ 1967 کلکٹریٹ کے سامنے کبھی اردو زبان کو ریاست میں دوسری سرکاری زبان بنانے کے لئے دیو نرائن پانڈے نے بھوک ہڑتال کی تھی اور 13؍ مارچ1976 کو بھوک کی شدت سے اپنی جان اسی اردو زبان کے لئے گنوائی تھی ۔ اسی طرح اتر پردیش اکاڈمی کے سامنے تامرگ بھوک ہڑتال کی تھی اور وہ بھی 31؍ مارچ1976 کو جاں بحق ہوئے تھے ۔ یہ وہی اتر پردیش ہے جہاں اردو کے مایۂ ناز فکشن نگاررام لعل نے اترپردیش میںاردو کودوسری سرکاری زبان کادرجہ دلانے کی جس ہمت جرأت اورذاتی مفاد سے اوپراٹھ کر لڑائی لڑی تھی اور انھیںبھی ہمیشہ کی طرح اکیڈمیوںاورکمیٹیوں کے بڑے بڑے عہدے آفرکئے تھے تاکہ وہ بھی دوسروںکی طرح خاموش ہوجائیں، لیکن رام لعل کایہ موقف تھاکہ ’’جب تک اترپردیش میں اردو دوسری سرکاری زبان نہیںبنتی،میںکوئی عہدہ قبول نہیں کروں گا۔‘‘ اور آخر کار رام لعل اور ان کے رفقا کی کوششوں سے اترپردیش ریاست میں اردو زبان کو دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ۔
اردو زبان کی مخالفت کرنے والے یوگی آدیتیہ ناتھ پہلے شخص نہیں ہیں ۔ اردو زبان کو ختم کرنے کی ایک منظم اور منصوبہ بند کوششیں موجودہ حکومت میں مسلسل چل رہی ہے۔ نظر اٹھا کر دیکھئے، دھیرے دھیرے اردو زبان سے تعلق رکھنے والے ادارے اور شعبے دم توڑ رہے ہیں۔دراصل عربی رسم الخط کی وجہ کر اردو کو صرف مسلمانو ں کی زبان ثابت کر کے اس زبان کو بھی وہی درجہ اور حیثیت دینے کی کوششیں کی جاری ہے ، جو یہاں کے مسلمانوں کو دیا گیا ہے ۔ ایسے لوگوں کی ایسی کوششوں کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ اردو زبان آج پرانی لائبریریوں اور مدرسوںمیں پناہ گزیں ہے ۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے جب کوئی کھلم کھلّا اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دیتا ہے ۔ حالانکہ یہ زبان ہندو، مسلم ، سکھ عیسائی کے اتحاد و اتفاق کی علامت ہے اور ہر صاحب علم اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ یہ اردو ہی زبان ہے جس نے اپنی گود میں لے کر، دیا نرائن نگم، پنڈت رتن ناتھ سرشار، پریم چند، چکبست، فراق، سدرشن ، جوش ملسیانی، ترلوک چند محروم، آنند نرائن ملّا ، کرشن چندر، بیدی، رام لعل، جگن ناتھ آزاد، شانتی رنجن بھٹا چاریہ، وشو ناتھ طاؤس، دیوندر اسر، دیوندرستیارتھی، کالی داس گپتا رضا، تارا چرن رستوگی، گوپی چند نارنگ، کشمیری لال ذاکر، بلراج ورما ، رام لال نابھوی،گوپال متّل ،رتن سنگھ، گیان چند جین ، جوگندر پال ، مالک رام ، بلونت سنگھ ، کرشن موہن ، موہن چراغی، مانک ٹالہ ، اوپندر ناتھ اشک، راج نرائن راز، شباب للت، نریش کمار شاد، فکر تونسوی، کنھیا لال کپور، بلراج کومل، کمار پاشی، گربچن چندن، جمنا داس اختر، گلزار زتشی دہلوی، شرون کمار ورما چندر بھان خیال، ش ک نظام وغیرہ کے فکر و خیال کو آفاقیت بخشی اور شہرت و مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا کر ان کے نام نامی کو چاند تاروں کی مانند درخشندہ کیا۔ اب کوئی بتائے کہ اردو اگر مسلمانو ں کی زبان ہے تو پھر ان لوگوں کو ذات اور مذہب کے کس خانے میں رکھا جائے گا ۔
اردو والوں کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ آزادی ملے کتنی دہائیاں گزر گئیں ، لیکن اب تک قومی سطح پر ’یوم اردو ‘ منانے کی کوئی ایک تاریخ طیٔ نہیںہو سکی ہے ۔ پاکستان میں شاعر مشرق علّامہ اقبال کے یوم پیدائش 9 ؍ نومبر کو یوم اردو کا انعقاد کیا جاتا ہے ، لیکن عالمی سطح پر ایسی کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی ہے ۔ جب کہ دنیا کی مختلف زبانوں مثلاََ فرینچ ( 20 ؍مارچ) چینی (20 ؍ اپریل ) انگریزی ( 23 ؍اپریل ) اسپینش (23؍ اپریل ) روسی (6 ؍جون ) عربی ( 18 ؍دسمبر) کے لئے عالمی یوم کے انعقاد کی تاریخیں ملتی ہیں۔ پھر اردو زبان کے لئے کیوں نہیں ؟نہ ہی یونیسکو کے ذریعہ ہر سال 21 ؍ فروری کو عالمی سطح پر مادری زبان کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اردو بان کے تحفظ اور اس کے فروغ کے لئے دی جانے والی دستک کا ہی کوئی ردّ عمل ہورہا ہے ۔
( کالم نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں )
[email protected]