یوکرین جنگ کے تین سال مکمل

0

24فروری 2025 کو یوکرین جنگ کے تین سال مکمل ہوگئے۔ روس نے یوکرین کے خلاف حملوں کی ابتدا 24فروری، 2022کو کی تھی۔ جنگ کی وجہ سے ان تین برسوں میں روس کا بھی جانی اور مالی نقصان ہوا ہے مگر وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔ یوکرین جنگ جلدازجلد ختم کرنے سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی دلچسپی، ریاض میں امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو اور روسی وزیرخارجہ سرگئی لاوروف کے مابین گفتگو نے عالمی برادری کو یہ اشارہ دے دیا ہے کہ ٹرمپ کا امریکہ، روس سے لڑنا نہیں، تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔ اب یہ بات اگر ایک سے زیادہ یوروپی ممالک کے لیے بے چینی کی وجہ بن جاتی ہے تو یہ ان کا مسئلہ ہے، امریکہ کا نہیں۔ کیا کبھی یوروپ کے پاس یوکرین جنگ کا کوئی پلان بھی تھا؟

یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ بات برسوں سے کہی جاتی رہی ہے کہ جنگ شروع کرنا آسان ہوتا ہے، ختم کرنا نہیں۔ ایک بار اگر جنگ شروع ہوجاتی ہے تو نقصان میں وہ ملک زیادہ رہتا ہے جس کے خلاف جنگ شروع کی گئی ہے۔ اسی لیے کمزور ملک طاقتور ملکوں سے ٹکرانے سے بچتے ہیں، اپنی طاقت میں اضافہ کرتے رہتے ہیں لیکن زیلنسکی اپنے ملک کو بچانے میں کامیاب نہیں رہے۔ جبکہ وہ اگر چاہتے تو یوکرین کو بچاسکتے تھے، جنگ شروع نہیں ہوتی، لوگوں کو جانیں نہیں گنوانی پڑتیں، امن یوکرینیوں کے لیے خواب سا نہیں بن جاتا لیکن روسی سربراہ ولادیمیرپوتن جب یہ بات بار بار کہہ رہے تھے کہ وہ روس کی سرحد تک ناٹو کی توسیع برداشت نہیں کریں گے تو اس پر زیلنسکی نے سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ وہ یہ دیکھ چکے تھے کہ کریمیا کو روس نے اپنے ساتھ ملایا تھا تو دنیا کے کسی ملک نے یوکرین کی مدد کے لیے روس سے ٹکرانے کی جرأت نہیں کی تھی، اس لیے ان کی خوش فہمی کی کوئی وجہ نہیں تھی مگر وہ اس حد تک خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ کسی کی سننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوئے۔ وہ بس روس کے خلاف یوکرین کی مدد کا مطالبہ کرتے رہے۔

بائیڈن کے امریکہ نے یوکرین کی اقتصادی مدد بھی کی، دفاعی مدد بھی۔ کئی یوروپی ملکوں نے روس سے اپنے تعلقات کی پروا کیے بغیر یوکرین کی مدد کی۔ دراصل ولادیمیرپوتن اور دیگر روسی لیڈروں نے جس طرح ایک سے زیادہ بار ایٹم بم کے استعمال کی بات کہی، اس سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں اس جنگ کا دائرہ نہ بڑھ جائے، اس کی زد میں یوروپی ممالک بھی نہ آجائیں جو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے جنگ کے خوف سے مبرا رہے ہیں، جبکہ کئی ملکوں کے خلاف انہوں نے جنگ کی ہے، انہیں تباہ کیا ہے۔ مثلاً امریکہ کے ساتھ ان کا افغانستان اور عراق کے خلاف جنگ کرنا، انہیں تباہ کرنا۔

کئی بار یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ یوکرین جنگ کبھی بھی تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے، پہلی اور دوسری عالمی جنگ کی طرح ایک بار پھر یوروپی ممالک کو جان و مال کا نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔ غالباً اسی لیے کئی یوروپی ممالک فرض اولین کی طرح یوکرین کی مدد کرتے رہے۔ امریکہ کے ساتھ انہوں نے روس پر پابندیاں عائد کیں۔ اس کے اثرات روس کی اقتصادیات پر پڑے۔ اس کا مالی نقصان کے ساتھ کافی جانی نقصان بھی ہوا۔ ایسا لگنے لگا کہ کہیں یوکرین سے لڑنے میں روس تباہ نہ ہوجائے لیکن 7؍اکتوبر2023کو حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل نے غزہ جنگ شروع کی۔ اہل غزہ کو سبق سکھانے میں بیشتر یوروپی ملکوں نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس سے اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ اس وقت ایسا لگا کہ ان کے لیے اسرائیل کی جیت کی زیادہ اہمیت ہے۔ حالات سے روس نے فائدہ اٹھایا۔ جنگ میں اس کا پلڑا بھاری ہوگیا اور اب وہ اس پوزیشن میں ہے کہ یوکرین جنگ ختم کرنے کے لیے ریاض میں امریکی وزیرخارجہ مارکوروبیو نے اس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف سے گفتگو کی ہے۔ اس سے ریاض کی بھی اہمیت بڑھی ہے۔ کیا اب سعودی عرب سے اسرائیل کا رشتہ استوار کرانا واشنگٹن کے لیے زیادہ آسان ہوجائے گا؟ یہ ایک جواب طلب سوال ہے۔ بات اگر یوکرین جنگ کی کی جائے کہ یوکرین نے اس جنگ سے کیا پایا ہے تو اس پر کچھ کہنا بہت مشکل ہے، البتہ اس پر کہنے کے لیے بہت ہے کہ اس نے کھویا کیا ہے!

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS