جِین تھیراپی کے ذریعہ بچپن کے اَندھے پن کا علاج!

0

ایم اے کنول جعفری

جین تھیراپی سے وابستہ برطانیہ کے ماہرین نے حالیہ پیش رفت کے دوران اُس وقت بڑی کامیابی حاصل کی،جب اُنہوں نے جنم سے نابینا 4 بچوں کا پہلی مرتبہ ’جین تھیراپی‘(جینیاتی طریقہ علاج) کے ذریعہ اُن کے اندھے پن کا علاج کر تے ہوئے اُنہیں اندھیرے کی دُنیا سے باہر نکال کر روشنی کی کائنات میں لا کھڑا کیا۔یہ روشنی ایسے بچوں کو ملی جنہیں پیدائشی نایاب جینیاتی عارضہ’اے آئی پی ایل1‘ تھا۔اس میں ’لیبر کنجین ٹل ایموروسس‘(Leber Congental Amaurosis)کا علاج کیا جاتا ہے۔ یہ ’ ریٹینل ڈسٹروفی‘ (Retinal Dystrophy) کی شدید شکل ہے،جو اندھے پن کا سبب بنتی ہے۔ اس کی کئی قسمیں ہیں۔جن میں ریٹینائٹس،کون ڈسٹروفی، میکولر ڈسٹروفی،لیبر کنجین ٹل ایموروسس،اسٹار گارڈٹز ڈیزیز اور ایکس لنکڈریٹی نائٹس پگمین ٹوسا وغیرہ شامل ہیں۔انہیں موروثی ریٹینا امراض (IRDs) بھی کہا جاتا ہے۔لیبر کنجین ٹل ایموروسس (LCA)ایسی ہی ایک حالت ہے، جو بچپن سے ہی بصارت کی شدید خرابی کا باعث بنتی ہے۔ یہ مرض ’اے آئی پی ایل1‘ (Ary-hydrocarbon Interacting Protein Like1) ایک قسم کا پروٹین ہے،جو فوٹوریسیپٹرز کو کام کرنے اور زندہ رہنے میں مددکرتاہے۔ اے آئی پی ایل1میں تغیرات کے سبب وراثت میں ملنے والے اندھے پن کی شکل ہے،جو بچپن کے شروعات میں ہوتی ہے۔ اس مرض میں مبتلا بچوں کی پیدائش کے وقت ان کی آنکھوں میں اتنی روشنی ہوتی ہے کہ وہ گہرے اور ہلکے رنگوں میں امتیاز کر سکیں۔پھر رفتہ رفتہ فرق کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور انسان نابینا ہوجاتا ہے۔

2020میں جین تھیراپی سے علاج کرنے کے لیے ایک سے دو برس کے درمیان عمر والے 4 بچوں کو مورفیلڈز اور یونیورسٹی کالج آف لندن کے ماہرین نے منتخب کیا تھا۔ ان کا تعلق امریکہ،تیونس اور ترکیہ سے ہے۔ لندن کے ’گریٹ آرموڈ‘ اسپتال میںبچوں کا علاج کیا گیا۔5برس تک یہ بچے ڈاکٹروں کی نگرانی میں رہے۔ڈاکٹروں کے مطابق وہ پہلی مرتبہ بچوں کے علاج کے مؤثر طریقے پر کام کر رہے ہیں۔کسی بھی ممکنہ حفاظتی خدشات کو کم کرنے کے لیے ہر بچے کی ایک ایک آنکھ میں تھیراپی کی گئی۔برطانیہ کے ماہرین ڈاکٹروں کی ٹیم نے امریکہ، تیونس اور ترکیہ کے4بچوں میں ’ہول سرجری‘ طریقہ کار کے ذریعہ ’اے آئی پی ایل ون ‘ (AIPL1) جین کی صحت مند کاپیاں (ورژنز) کوانجیکٹ کیا اور پیدائشی اندھے پن کو دُور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

اس عمل میں تقریباً ایک گھنٹے کا وقت لگا۔ اَب یہ بچے رنگ برنگے کھلونے،مختلف شکلیں اور اپنے ماں باپ کے چہرے آسانی سے دیکھ اور پہچان سکتے ہیں۔ اس پیش رفت میں شکلوں کو سمجھنے، کھلونے تلاش کرنے، والدین کے چہرے پہچاننے اور بعض صورتوں میں پڑھنے لکھنے کی صلاحیت شامل ہے۔آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر پروفیسر مائیکل مائیکلائڈز کے مطابق ان بچوں کے لیے نتائج بہت متاثر کن اور جین تھیراپی کی تبدیلی کی صلاحیت کو واضح کرتے ہیں۔ پروفیسرجیمز بین برج کا کہنا ہے کہ اس مرض سے متاثربچے روشنی اور اندھیرے کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت تو رکھتے ہیں،لیکن خاص بات یہ ہے کہ کئی بچوں نے تھیراپی علاج کے بعد پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت کا مظاہرہ بھی کیا،جو اس حالت میں علاج کے بغیر متوقع نہیں ہے۔بچوں کے والدین نے نتائج کو خوش آئند اورغیر معمولی بتایا۔جین تھیراپی پر کئی برسوں سے کام کیا جا رہا ہے۔ اپریل2016میں برطانوی سائنس دانوں نے جینیاتی طریقہ علاج سے کئی ایسے مریضوں کی بینائی بحال کی،جن کے نابینا ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔علاج میں آنکھ کے پیچھے کے حصے میں ایک فعال جین داخل کیا جاتا ہے،جس سے خلیے ازسرنو زندہ ہوکر کام کرنے لگتے ہیں۔ ڈیڑھ دہائی قبل اس طریقہ علاج کو 4.5سال تک برطانیہ،امریکہ، کنیڈا اور جرمنی میں32مریضوں پر آزمایاگیا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ایک ایسی بیماری کا علاج کیا،جو نوجوانوں کو متاثر کرتی ہے۔ اس مرض میں ایک ناکارہ جین کی وجہ سے آنکھ کے خلیے مرنے لگتے ہیں اور مریض رفتہ رفتہ نابینا ہو جاتے ہیں حالاں کہ، تب تک اس مرض کا کوئی علاج نہیں تھا،لیکن سائنس دانوں نے محسوس کیا کہ اس طریقہ علاج سے نہ صرف مرض رُک گیا،بلکہ اس سے بعض مردہ خلیے دوبارہ صحت یاب ہوگئے اور مریض کی آنکھوں کی بینائی پہلے کے مقابلے بہتر ہو گئی۔ تجربات سے یہ بات ثابت ہو ئی کہ جینیاتی طریقہ علاج دیر تک چلنے والا صبر آزما علاج تو ہے،لیکن اس سے بینائی میں بہتری آنا یقینی ہے۔

2012میںیوروپ میں جینیاتی طریقہ علاج کو منظوری دی گئی۔چین میں جینیاتی طریقہ علاج پر سرکاری سطح پر پابندی عائد ہے۔اس طریقہ کار سے مریض کے ڈی این اے کو تبدیل کرکے والدین سے بچوں میں منتقل ہونے والی پیدائشی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔تجربات سے ثابت ہوا کہ یہ طریقہ علاج محفوظ،مؤثر ہے اور نابینا پن کی خرابی دور کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔’ایل سی اے ‘ کے بناپر دیکھنے کی صلاحیت سے محروم افراد کے یہاں پیدا ہونے والے بچے پیدائشی طور پر بینائی سے محروم ہوتے ہیںیا اپنی عمر کے شروعاتی کچھ مہینوں میں ان کی نظر چلی جاتی ہے۔ماہرین کے ایک اندازے کے مطابق ہر 80ہزار میں سے ایک شخص اس نایاب جینیاتی خرابی کا نشانہ بنتا ہے۔ فلاڈیلفیا میں واقع یونیورسٹی آف پینسلوانیا میں آنکھوں کے شعبے سے تعلق رکھنے والی ماہر پروفیسر جین بینٹ کے مطابق یہ آنکھ کے پردے کا بہت شدید مرض ہے،جو نوزائیدہ بچوں کو اپنا نشانہ بناتاہے۔عام طور پر والدین کو تقریباً ڈیڑھ مہینہ بعد اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ان کا بچہ انہیں دیکھ نہیں پا رہا ہے۔ دراصل دیکھنے کے عمل میں روشنی آنکھ کے اندر داخل ہوکر پردہ بصارت پر ایک تصویر بناتی ہے،جو اسے دماغ کو منتقل کر دیتی ہے اور ہمیں وہ چیز دکھائی دینے لگتی ہے۔

لیکن ایک خاص جین کی خرابی کی بنا پر آنکھ کا پردہ معمول کے مطابق کام نہیں کرتا اور انسان بصارت کی دولت سے محروم ہو جاتا ہے۔ پہلے جینیاتی طریقہ علاج کو جانوروں کے اُوپر آزمایا گیا۔ تجربات حیرت انگیز طور پر مؤثر رہنے کے بعد 2009 میں پہلی مرتبہ انسانوں پر تجربات کیے گئے۔ طبی سائنس دانوں نے جینیاتی خرابی دُور کی اور ایک درجن مریضوں کی آنکھ کے پردے میں اس کا انجیکشن لگایا،جس سے آنکھ میں صحت مند خلیوں کی تعمیر شروع ہوگئی۔ پروفیسر بینٹ کے مطابق یہ کم عمر مریض ابھی پوری طرح نابینا نہیں ہوئے تھے۔ علاج کے بعد وہ کتابیں پڑھنے، کلاس میں آگے کی نشستوں پر بیٹھنے، بلیک بورڈ پر ٹیچر کا لکھا پڑھنے اور سائیکل کے ذریعہ گھر سے اسکول جانے آنے لگے۔اُس وقت پروفیسر بینٹ کا کہنا تھا کہ مستقبل میں اس سے ملتے جلتے طریقہ علاج سے اُن مریضوں کی بینائی کی خرابی دُور کرنے میں مدد لی جا سکے گی،جن میں یہ خرابی عمر بڑھنے کے ساتھ پیدا ہوتی ہے۔

اُن کے مطابق دنیا بھر میں ہر برس 1.40کروڑ سے زیادہ لوگوں کی بینائی اس خرابی سے متاثر ہو جاتی ہے۔ نظر کی یہ خرابی آنکھ کے اندر مرکزی حصے میں واقع زرد رنگ کے ایک چھوٹے سے حصے میکولا(Macula) کو نقصان پہنچنے سے ہوتی ہے۔
طب کی دنیا میں جین تھیراپی کسی انقلاب سے کم نہیں ہے۔یہ ایک طبی نقطہ نظر ہے۔اس میں جینیاتی عوارض، بیماریوں کا علاج اور نشوونما کو روکنے والے ناقص جینوں کو صحت مند جینوں سے تبدیل کرنا شامل ہے۔ طب کا یہ شعبہ علامات کا علاج کرنے کے بجائے مسئلے کے بنیادی سبب کو نشانہ بناکر بیماریوں کے علاج اور علاج کے طریقہ کار میں زبردست انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اُمید کی جانی چاہیے کہ جین تھیراپی کی ابتدائی شکل، جاری تحقیقات و تجربات کے نتائج مستقبل میں زیادہ مؤثر اور قابل رسائی جین علاج کی ترقی کا باعث بنیں گے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS