نول کشور کمار
ملک کی سیاست اب اپنی پرانی روش چھوڑ رہی ہے۔ زیادہ سرخیوں میں رہنے والے یا کہیے کہ اپنے بیانات سے سرخیاں بٹورنے والے یا پارٹی میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے اقتدار کے مسند پر نہیں بٹھائے جارہے ہیں۔ دہلی کی نو منتخب وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا اس کی تازہ مثال ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی اعلیٰ قیادت نے اپنے فیصلے سے لوگوں کو حیریت زدہ کیا ہے۔ اس سے پہلے مدھیہ پردیش میں ڈاکٹر موہن یادو کو جب وزیر اعلیٰ کے طور پر متعارف کرایا گیا تو لوگ حیران رہ گئے تھے۔ اسی طرح اوڈیشہ میں جب بی جے پی نے نوین پٹنائک کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تو اس نے ریاست کی کمان موہن چرن ماجھی کے ہاتھوں میں سونپ دی۔راجستھان میں بھی اسی طرح کئی مشہور ناموں کو پیچھے کرتے ہوئے بی جے پی نے بھجن لال شرما کو ترجیح دی۔
ریکھا گپتا کی شکل میں بی جے پی نے پھر وہیں سے شروعات کی ہے جہاں سے 27 سال پہلے سشما سوراج کا کارواں رکا تھا۔ اگرچہ سشما سوراج کی شکل میں تب بی جے پی کے پاس ایک تجربہ کار شخصیت تھی لیکن ریکھا گپتا پہلی بار ایم ایل اے بنی ہیں اور سیاسی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ ایک اہم پہلو ہے۔ ظاہری طور پراسے ریکھا گپتا کی قسمت سے بھی جوڑ کر دیکھا جاسکتا ہے لیکن سیاست میں قسمت سے زیادہ اہم سیاسی معاملات ہوتے ہیں۔ اسے اس طرح سمجھیں کہ چھ رکنی وزراء کونسل کے دیگر ارکان میں پرویش ورما، آشیش سود، سردار منیندر سنگھ سرسا، رویندر سنگھ، کپل مشرا اور ڈاکٹر پنکج کمار سنگھ شامل ہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ریکھا گپتا خواہ وزیراعلیٰ ہیں، لیکن اقتدار کی باگ ڈور ’دِگجوں‘ کے پاس ہی رہے گی۔ نیز اعلیٰ قیادت نے وزراء کی کونسل میں اعلیٰ ذاتوں، سکھوں، جاٹوں وغیرہ کو جگہ دے کر اپنی منشا کو واضح کر دیا ہے۔
دراصل یہ بی جے پی کی دانستہ سیاست کا ایک نمونہ ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ بی جے پی اب پورے ملک کی سیاست میں موثر کردار ادا کر رہی ہے۔ پھر چاہے وہ کسی بھی صوبے میں اقتدار میں رہے یا نہ رہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو بھی اس کی سوشل انجینئرنگ کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔پہلی بار ایم ایل بنیں ریکھا گپتا کو دہلی کی نویں اور چوتھی خاتون وزیر اعلیٰ بننے کا اگر موقع ملا ہے تو اس کے پیچھے بھی بی جے پی کی ایک حکمت عملی ہے۔ تاہم، اس طرح کی حکمت عملی کانگریس اپنے اُن دنوں میں آزما چکی ہے جب وہ ملک کی سیاست پر مضبوط گرفت رکھتی تھی۔ مثال کے طور پر جب بہار میں دلت اور پسماندہ طبقات مضبوط ہونے لگے تب کانگریس نے بھی اپنی سیاست میں تبدیلی کرتے ہوئے اعلیٰ ذاتوں کے بجائے دلت اور پسماندہ سماج کے لوگوں کے ہاتھوں میں قیادت سونپی تھی۔ اس تناظر میں داروگا پرساد رائے، بھولا پاسوان شاستری وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں، جو غیراعلیٰ ذات کے تھے اورکانگریس نے انہیں وزیر اعلیٰ بنایا تھا۔ لیکن بعد کے دنوں میں جیسے جیسے کانگریس کمزور ہوتی گئی، اس میں یہ ہمت ختم ہوگئی۔ اسے 1980 کے بعد بہار میں یکے بعد دیگرے وزرائے اعلیٰ کی تبدیلی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ہوا یہ تھا کہ1980میں جیت کے بعد کانگریس نے بہار میں جگن ناتھ مشرا، چندر شیکھر سنگھ، بندیشوری دوبے، بھاگوت جھا آزاد، ستیندر نارائن سنگھ اور پھر جگن ناتھ مشرا کو وزیر اعلیٰ بنایا۔ یہ سلسلہ 1990 میں کانگریس کی شکست اور لالو پرساد کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد ختم ہوا۔
لیکن ریکھا گپتا کو دہلی کی وزیر اعلیٰ بنانے کی بی جے پی کی حکمت عملی کے کئی پہلو ہیں۔ سب سے پہلا تو یہی کہ بی جے پی دہلی جیسی اہم ریاست پر اب اپنا قبضہ طویل عرصے تک برقرار رکھنا چاہتی ہے اور اس کے لیے وہ عام آدمی پارٹی کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑنا چاہتی ہے۔ بی جے پی قیادت یہ سمجھ چکی ہے کہ بھلے ہی ان کی پارٹی کو اسمبلی انتخابات میں ان کی پارٹی کو48 اور عام آدمی پارٹی کو 22 سیٹیں ملی ہیں، لیکن عام آدمی پارٹی کا ووٹ بیس بہت زیادہ کمزور نہیں ہوا ہے۔ خواتین میں اس کی مقبولیت برقرار ہے۔ ریکھا گپتا کو وزیراعلیٰ بنانے کے پیچھے بی جے پی کی ایک حکمت عملی اپنی شبیہ بہتر کرنے کی بھی ہے۔ کپل مشرا، منوج تیواری اور پرویش ورما وغیرہ کی وجہ سے بی جے پی پر ایک خاص قسم کی جارحانہ سیاست کرنے کا لیبل لگ گیا تھا، جس کی وجہ سے عام لوگوں میں پارٹی کی شبیہ پر برا اثر پڑا۔ تاہم ریکھا گپتا بھی اپنے متنازع بیانات کی وجہ سے موضوع بحث رہی ہیں۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر ان کے سابقہ بیانات اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اس تناظر میں یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ اس پورے معاملے میں بی جے پی اپنی تنظیم آر ایس ایس کی پیروی کر رہی ہے۔ سیاسی حلقوں میں اس بات کی چرچہ ہے کہ ریکھا گپتا سنگھ کی پسند ہیں۔ تاہم وہ دہلی یونیورسٹی طلبا یونین اور اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کی صدر رہ چکی ہیں۔ اگر یہ سچ بھی ہے تب بھی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، نریندر مودی اور آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت آئے دن ایک دوسرے کے خیالات کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم، اب بھی آر ایس ایس بالواسطہ طور پر یہی دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
بہرحال بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کی پارٹی اس وقت نہ صرف سب سے بڑی پارٹی ہے بلکہ سب سے زیادہ نظم و ضبط رکھنے والی پارٹی بھی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اعلیٰ قیادت کے فیصلے پر کسی طرح کا سوال نہیں اٹھایا جاتا۔ آج کانگریس یا دیگر پارٹیوں میں ایسا ڈسپلن نظر نہیں آتا۔ لیکن ان سب کے باوجود یہ کہنا ہی پڑے گا کہ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی اب اسی راستہ پر گامزن ہوگئی ہے جس راہ پر کبھی کانگریس اندرا گاندھی کی قیادت میں چل رہی تھی۔ مطلب یہ کہ اقتدار کے اعلیٰ عہدے پر کون براجمان ہوگا، اب اس کا فیصلہ صرف اعلیٰ قیادت ہی کرے گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب کوئی پارٹی اس طرح سے ایک شخص پر مرکوز ہوتی گئی ہے، اسے نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ لیکن ابھی بی جے پی مضبوط پوزیشن میں ہے اور اکثر جب کوئی مضبوط پوزیشن میں ہوتا ہے تو اپنی کمزوریوں کو نظرانداز کردیتا ہے۔حال ہی میں ہریانہ میں انل وج کی بغاوت اس کی ایک مثال محض ہے۔