سیّد احمد قادری
ہندوستان ہمیشہ سے قومی یکجہتی کا گہوارہ رہا ہے، لیکن افسوس کہ اپنے سیاسی مقاصد اور مفادات کے حصول کے لئے دانستہ طور پر صدیوں پرانی اس شاندار روایت کو ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور اس وقت ہمارے ملک میں جس طرح فرقہ واریت ، مذہبی جنون،عدم رواداری اور منافرت کا زہر پھیل رہاہے ۔ وہ ہمارے ملک کی برسہا برس سے چلی آ رہی گنگا جمنی تہذیب ، رواداری کی روایات ،معاشرت و تہذیبی قدروں اور یکجہتی پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارا ملک ہندوستان ہمیشہ سے باہمی یگانگت، اتحاد و اتفاق ،اخوت و محبت اور دوستی و یکجہتی کا گہوارہ رہا ہے۔ یہاں کی تمام تہذیبیں مل کر ایک تہذیب میں مدغم ہو گئی ہیں، جسے ہندوستانی تہذیب کا نام دیا گیاہے، نہ کہ مختلف خانوں میں منقسم کیا گیاہے۔ اس سلسلے میں اردو کے مشہورشاعر رگھو پتی سہائے فراق گورکھپوری نے بڑی اچھی بات کہی تھی کہ ’’جب ہم ہندوستانی تہذیب اور کلچر کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ تہذیب صرف ہندوستانی ہوا کرتی ہے نہ کہ ہندو یا مسلم ہوتی ہے‘‘۔لیکن ان تمام پرانی قدروں اور روایت کو یکسر فراموش کرتے ہوئے پورے ملک میں ہندو مسلمان کے درمیان کے آپسی اتحاد واتفاق کوختم کرنے کی ہر ممکن کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ جس کی گزشتہ دس اگیارہ برسوں میں ہزاروں مثالیں سامنے آ چکی ہیں اور جنھیںوقتاََ فوقتاََ ملک و بیرون ممالک کے سیکولر ذہن والے دانشوروں نے ردّ کرتے ہوئے احتجاجی بیان بھی جاری کئے ہیں ۔
ملک کے اندر منافرت کا زہر پھیلانے والوں میں ایک ہوڑ سی لگی ہوئی ہے کہ کون ملک کی صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کو تار تار کرتے ہوئے سیاسی اور معاشی منفعت حاصل کر سکتا ہے ۔ اس ضمن میں اتر پردیش جو کبھی تہذیب اور تمدن کی ریاست ہوا کرتی تھی ، جہاں کبھی شیریں زبان (اردو) بولی اور سمجھی جاتی تھی ۔
میرے اس تمہید کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ تم ہم سے نفرت کرتے رہو لیکن ہم اپنی پرانی روایت یکجہتی اور رواداری کو نہیں چھوڑیں گے ۔ اس بات کا ثبوت گزشتہ 29 ؍ جنوری کو مونی آمسویا کی شب کو الہٰ آباد کے مسلمانوں نے اس وقت دیا جب مہاکمبھ کے میلہ میں کروڑوں عقیدت مند نہانے پہنچے اور انتظامیہ وی وی آئی پی مہمانوں کو سہولیات پہنچانے میں مصروف تھا ۔ ایسے وقت میں بے قابو بھیڑ بدانتظامی کا شکار ہوئی اور زبردست بھگدڑ مچی ، اس بھگڈر کے جو افسوسناک بلکہ دل دہلا دینے والے سانحات سامنے آئے اور کتنی ہلاکتیں ہوئیں ، کتنوں نے اپنوں کو کھو دیا ، جو گرا پھر اٹھ نہیں پایا۔ہرطرف لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی تھیں ، ہر چہار جانب چیخ وپکار ، کوئی کسی کامددگارنہیں تھا ۔ ہر طرف افراتفری ، بے بسی اور بے کسی کا ماحول تھا ۔
لوگ بس بھاگ رہے تھے اور انتظامیہ نے شہر کے کئی راستوں کو بند کر رکھا تھا ۔ ایسے بدترین حالات اور انتظامات سے دور دراز علاقوں سے آنے والے عقیدت مند شدت سے پریشان اور بے بسی کے شکار تھے ۔ایسی صورت حال سے دوچار ہونے والوں میں بوڑھے، بچے، عورتیں سب کے سب بے پناہ پریشان ہورہے تھے ۔ افسوسناک بات یہ بھی ہوئی کہ بقول تانیا متل( یوپی ٹورزم پروموٹر) ’’بھاگتی بھیڑ کو دیکھ کر سادھو سنتوں نے اپنے اپنے آشرم کے دروازے بند کر لئے تاکہ امڈتی بھیڑ ان آشرموں میں نہ داخل ہو جائے ۔‘‘ ایسے بہت ہی نازک وقت میں کمال کی ہمت ، حوصلہ کے ساتھ اپنی روایتی گنگا جمنی تہذیب کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے الٰہ آ باد کے کئی مسلم محلّوں مثلاََ روشن باغ ، حل آباد ، رانی منڈی اور شاہ گنج وغیرہ کے مسلمانوں نے ان تھکے ہوئے پریشان حال ہندو عقیدت مندوں کے لئے اپنے اپنے گھروں کے دروازے کھول دئے ۔
صرف گھروں کے دروازے ہی نہیں کھولے بلکہ انھیں بستر،کمبل اور لحاف وغیرہ کے ساتھ ساتھ ان کے کھانے پانی کا بھی انتظام کیا۔نخاس کوہنہ کے حافظ رجّب مسجد کے چند میٹر کے فاصلے پر ایک مسلم خاندان نے تو چالیس سے زائد راجستھان ، جھارکھنڈ ور بہار کے پریشان حال عقیدت مندوں کے لئے گھر کے تمام کمروں کوکھول دیا اور انھیں اپنے گھر میں مہمان بناکر ان کے آرام و سکون کا ہر طرح سے خیال رکھا ۔ چوک پور کے مسعود احمد نے ایسے تمام پریشان حال عقیدت مندوں کو تمام سہولیات مہیا کراتے ہوئے انھیں اسٹیشن تک پہنچانے کا انتظام کیا ۔ ان محلوں کے مسلمانوں کے علاوہ خلدآباد، سبزی منڈی ، بڑا تعزیہ امام باڑہ ، ہمت گنج درگاہ اور چوک مسجد کے ساتھ ساتھ حافظ رجّب مسجد ، چوک کی جامع مسجد وغیرہ کے دروازوںکو ہندو عقیدت مندوں کے لئے کھولنے کے ساتھ ہی تمام بھوکے پیاسے یاتریوں کے لئے رات گئے تک بھنڈارا بھی چلایا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس طرح الٰہ آ باد کے مختلف علاقوں میں ایسے پریشان حال پچیس ہزار عقیدتمندوں کی مدد کی گئی ۔ الٰہ آباد کے یہ وہ مسلمان ہیں جن کے کمبھ میلہ میں داخلہ کو حکومت ، انتظامیہ اور سادھو سنتوں نے ممنوع قرار دیا تھا ۔
یہی وہ مساجد ، مدارس ،امام باڑہ ، خانقاہ اوردرگاہیں وغیرہ ہیں جنھیں بند کرنے اور منہدم کئے جانے کی دھمکیاں حکومت کی جانب سے اکثر ملتی رہتی ہیں ۔ قدیم روایت کے تحت کمبھ میلہ میں غسل کئے جانے کی ایک تاریخ ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ اس تاریخی میلہ میں مسلمانوں کے داخلہ کو ممنوع قرار دیا گیا ہو ۔ لیکن یہ بھی عجیب قدرت کا معجزہ ہوا کہ میلہ خود یہاں کے مسلمانوں کے پاس پہنچا ۔ گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار االہٰ آباد کے مسلمانوں کے ذریعہ ایسی شاندار انسانی اوراخلاقی مثال پیش کئے جانے پر ایک صحافی شیتل سنگھ نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ ’’ الہٰ آباد کے مسلمانوں کے سمجھدار حصے نے ہندؤں کے درمیان ان کے فرقہ واریت کی لاعلاج بیماری سے سڑ چکے حصّہ کی نفرت پھیلانے والی مہم کا محبت سے جواب دے کر شاندار مثال پیش کی ہے ۔‘‘ مہاکمبھ میلہ کی بھگدڑ سے متاثرہ ہندو عقیدت مندوں کی جس انسانی ہمدردی کے ناطے الٰہ آباد کے مسلمان نے آگے آکر اور انسانی جذبے سے سرشار ہوکر مدد کی ۔
ان کے ایسے بہترین انسانی اور اخلاقی عمل کے اعتراف میں اس ریاست میں اگر سیکولر حکومت ہوتی تو یقینی طور پر ان مسلمانوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں اعزاز و اکرام سے نوازتی ، تاکہ ایسے کارناموں کا پیغام دور تک جائے اور ہندو مسلم کے درمیان آپسی ہم آہنگی ، اخوت اور یکجہتی ہمیشہ قائم رہے اور ایسے جذبے کا فروغ ملے ۔ اس تعلق سے سابق جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اپنے تاثرات رقم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ ہندو ووٹ حاصل کرنے کے لئے ہندوستانی معاشرے کو مذہبی خطوط پر پولرائز کرنے کی گزشتہ دس برسوں سے حکمراں جماعت کی تمام کوششوں کے باوجود مسلمانوں کو دہشت گرد اور ملک دشمن قرار دئے کے باوجود ، بہت سے مسلمانوں کی مآب لنچنگ کے باوجود ، ان کے گھروں کو بلڈوز ر سے تباہ و برباد کرنے کے باوجود ، موقع بموقع ان کی پٹائی کے باوجود ، زبردستی جے شری رام کے نعرے لگوانے کی کوششوںکے باوجود ، من گھڑت اور فضول الزامات میں کئی سالوں تک عمر خالد جیسوں کو جیل میں ڈالنے کے باوجود مسلمانوں کا کیا ردّعمل رہا؟جب کہ ایسے حالات میں لوگوں کو توقع ہوگی کہ ان ذہنوں میں ہندوؤں کے لئے ان پر ہونے والے مظالم کے لئے نفرت بھری ہوگی ۔ لیکن 29 ؍ جنوری 2025 ء کو کمبھ میلے میں بھگدڑ کے بعد الٰہ آباد میں جو کچھ ہوا جس میں نامعلوم تعداد میں ہندو یاتری ہلاک ہوئے اور متعدد لاپتہ ہیں ۔
مسلمانوں کا رد عمل اس کے برعکس تھا ۔ در حقیقت یہ ایک شاندار واقعہ تھا جس کا ظہور مسلمانوں کے عمل سے ہوا ۔ مسلمانوں سے کہا گیا تھا کہ وہ کمبھ میلہ کے علاقے سے دور رہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں اس فیصلہ سے ناراضگی پیدا ہوئی ہوگی ، لیکن بھگدڑ کے متاثرہ ہندوؤں کو ان لوگوں نے جس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا اور اپنے گھروں اور مسجدوں کے دروازے ان پر کھول دئے اس سے فرقہ پرستوں کے منھ پر زوردار مانچہ رسید ہوا ہے ‘‘۔ ایسے تاثرات کا اظہار جسٹس کاٹجو کے علاوہ پریشان حال پناہ لینے والے ہندوؤں نے بھی تعریف کئے جانے کے ساتھ ساتھ صمیم قلب سے شکریہ بھی ادا کیا ہے ۔کمبھ میلہ میں جانے والے عقیدتمندوں سے بھری بس ابھی کل ہی پرسوں بہار کے علاقہ میں ایک نالے میں الٹ جانے کے بعد اس علاقے کے مسلمان ہی آگے بڑھے اور کئی یاتیریوں کی جان بچائی۔ مسلمانوں کے ذریعہ بلا تفریق مذہب و ملّت مدد کا ہاتھ بڑھائے جانے کے ایسے واقعات اکثر سامنے آتے رہتے ہیں ۔
ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے اسی سال کی 3 ؍ جنوری کو کشمیر کی برف باری میں سینکڑوں کی تعداد میں ہندو سیاح پھنس گئے تب سون مرگ ، پہلگام ، کنڈ ، بارہ مولا اور ڈوگری کے کشمیری مسلمانوں نے اعلان کیا کہ جو بھی سیّاح ہمارے گھروں اور مساجد میں پناہ لینا چاہیں وہ بلا جھجھک تشریف لائیں ۔اس اعلان کے بعد برف باری سے پریشان مرد ، عورتیں اور بچے ان کشمیری مسلمانوں کے گھروں اور مسجدوں میں پناہ گزیں ہوئے۔ جہاں انھیں ٹھنڈ سے بچنے کے لئے کمبل وغیرہ کے ساتھ ساتھ ان کی بھوک پیاس مٹانے کا بھی انتظام کیا گیا ۔ ضرورت ہے کہ ایسے انسانی جذبے سے بھرے واقعات کو میڈیا کے ذریعہ سامنے لایا جائے ،تاکہ فرقہ پرستی کی مضموم فضا میں کمی آئے اور برسہا برس کی گنگا جمنی تہذیب کی روایت ہمیشہ قائم رہے ۔
( کالم نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں )