دہلی کی سیاست ایک بار پھر ہنگامہ خیز مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ انتخابات کے اختتام اور ایگزٹ پولز کی روشنی میں بدلتے ہوئے سیاسی بیانات، جوڑ توڑ اور الزامات کا سلسلہ تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں اروند کجریوال اور ان کی عام آدمی پارٹی کے خلاف کارروائی، ایل جی کے احکامات اور بی جے پی کی بڑھتی ہوئی جارحیت نے ایک پیچیدہ سیاسی منظرنامہ تخلیق کر دیا ہے۔ عام آدمی پارٹی نے بی جے پی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ان کے امیدواروں کو پارٹی بدلنے کیلئے رشوت کی پیشکش کر رہی ہے۔ اروند کجریوال کے مطابق ان کی پارٹی کے 16 امیدواروں کو 15 کروڑ روپے اور وزارتی عہدے دینے کی پیشکش کی گئی تھی، جسے انہوں نے ’’آپریشن لوٹس‘‘ قرار دیا۔ اس الزام کے بعد لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ نے تحقیقات کا حکم دیا اورآج جمعہ کے روز اینٹی کرپشن بیورو کی ٹیم کجریوال کے گھر جا پہنچی۔ تاہم وہاں ہونے والے ہنگامے اور عام آدمی پارٹی کے رہنمائوں کے احتجاج نے معاملے کو مزید الجھا دیا۔
یہ حقیقت ہے کہ ہندوستانی سیاست میں جوڑ توڑ اور خرید و فروخت کے الزامات کوئی نئی بات نہیں لیکن ان الزامات کی شدت اور ان پر ردعمل کی نوعیت نے دہلی کی سیاست میں نئی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ عام آدمی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ بی جے پی انتخابی نتائج سے خوفزدہ ہو کر یہ ہتھکنڈے اپنا رہی ہے جبکہ بی جے پی کے مطابق عام آدمی پارٹی کے الزامات بے بنیاد اور عوام کو گمراہ کرنے کیلئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی کی جانب سے فوری ردعمل اور ایل جی کے حکم پر آج ہی سرعت کے ساتھ کی جانے والی کارروائی نے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔
ایگزٹ پولز کی روشنی میں دیکھا جائے تو زیادہ تر سروے یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ بی جے پی دہلی میں 27 سال بعد اقتدار میں واپس آسکتی ہے۔ دس میں سے آٹھ ایگزٹ پولز نے بی جے پی کو واضح اکثریت دی ہے جبکہ دو نے عام آدمی پارٹی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ اگر ان تمام پولز کا اوسط نکالا جائے تو بی جے پی کو 39،عام آدمی پارٹی کو 30 اور کانگریس کو صرف ایک سیٹ ملنے کا امکان ہے۔ البتہ کچھ ایگزٹ پولز جیسے کہ Weepreside اور مائنڈ برنک نے عام آدمی پارٹی کی برتری کی پیش گوئی کی ہے جو کہ صورتحال کی پیچیدگی ظاہر کرتی ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2020 کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی تھی جب اس نے 70 میں سے 62 نشستیں جیت کر بی جے پی کو محض 8 پر محدود کر دیا تھا۔ اگر حالیہ انتخابات میں بی جے پی واقعی اکثریت حاصل کرتی ہے تو یہ نہ صرف دہلی کی سیاست بلکہ ملک بھر میں بھی ایک بڑا سیاسی موڑ ہوگا۔ عام آدمی پارٹی کیلئے بھی یہ ایک بڑا امتحان ہوگا کیونکہ گزشتہ پانچ برسوں میں اس نے دہلی میں تعلیم، صحت اور بجلی کے شعبے میں جو اصلاحات کیں، ان پر عوام کا اعتماد اس کے ووٹ بینک کا فیصلہ کرے گا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ بی جے پی کا دہلی میں اقتدار حاصل کرنے کا خواب کئی دہائیوں سے پورا نہیں ہو سکا۔ اس کے برعکس عام آدمی پارٹی نے 2015 اور 2020 میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ اگر اس بار بی جے پی بازی مار لیتی ہے تو یہ دہلی کی سیاست کیلئے ایک بڑی تبدیلی ہوگی جس کے اثرات آئندہ عام انتخابات پر بھی پڑسکتے ہیں۔ البتہ اگر عام آدمی پارٹی دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو یہ کجریوال کی قیادت کیلئے ایک مضبوط مہرتصدیق ہوگی۔
اب تمام نظریں 8 فروری پر ہیں جب الیکشن کمیشن دہلی اسمبلی انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان کرے گا۔ اگر نتائج ایگزٹ پولز سے مطابقت رکھتے ہیں تو دہلی میں بی جے پی کی طویل عرصے بعد واپسی ہوگی لیکن اگرعام آدمی پارٹی ایک بار پھر بازی جیتنے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ بی جے پی کیلئے ایک بڑا سیاسی دھچکا ہوگا۔
لیکن یہ صرف اقتدار کی لڑائی نہیں عوام کے اعتماد کا امتحان بھی ہے۔ دہلی کا ووٹر ہمیشہ سیاسی طور پر باشعور رہا ہے جو محض نعروں پر نہیں بلکہ زمینی حقائق پر فیصلہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی پارٹی نے پچھلے انتخابات میں غیر معمولی حمایت حاصل کی تھی۔ کیا اس بار بھی عوام کی ترجیح وہی رہے گی یا بی جے پی اپنے دیرینہ خواب کو پورا کرنے میں کامیاب ہو جائے گی؟
اس سیاسی بحران کے بیچ ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہندوستان کی سیاست میں اصول، دیانتداری اور جمہوری قدریں صرف انتخابی نعرے بن کر رہ گئی ہیں؟ کیا سیاسی جماعتیں عوامی بھلائی کیلئے کام کر رہی ہیں، یا یہ سب محض اقتدار کے کھیل کا حصہ ہے؟ جب 8 فروری کوپردہ اٹھے گا تو یہ صرف ایک جیت یا ہار نہیں ہوگی بلکہ ہندوستانی جمہوریت کے ایک اور امتحان کا نتیجہ بھی سامنے آئے گا۔