ڈاکٹر جاوید عالم خان
حالیہ بجٹ کے تجزیہ سے پتا چلتا ہے کہ حکومت کے مجموعی اخراجات میں اس سال میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے بجٹ میں سماجی شعبے کے اخراجات میں بھی تخفیف دیکھنے کو ملی ہے۔ صحت کے شعبے کے بجٹ تجزیے سے یہ پتا چلتا ہے کہ مرکزی حکومت اس شعبے کو پوری طرح سے نظرانداز کررہی ہے۔ صحت اور آیوش سے متعلق وزارت کو ملا کر مجموعی بجٹ میں معمولی اضافہ کیا گیا ہے۔ 2024-25کے تخمینہ بجٹ میں94671 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے جبکہ اس سال 103851 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ گزشتہ سال کے مقابلے اس سال 9180کروڑ روپے کا اضافہ کیا گیا ہے لیکن اگر افراط زر کو شامل کیا جائے تو حقیقی اضافہ3فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ مجموعی صحت کا بجٹ جی ڈی پی کی شرح میں0.37 فیصد سے گھٹ کر0.29فیصد ہوگیا ہے، اسی طرح سے مجموعی بجٹ میں بھی صحت کے شعبے کا بجٹ2.06سے گھٹ کر2.05 فیصد ہوگیا ہے۔ مرکزی حکومت ہیلتھ سسٹم کو بہتر کرنے کے لیے جو ہیلتھ اسکیمیں چلا رہی ہے، اس میں نیشنل ہیلتھ مشن، غذائیت کے لیے پردھان منتری سواستھ سرکشا یوجنا اور صحت سے متعلق اسکیمیں شامل ہیں لیکن ان اسکیموں کے بجٹ میں کٹوتی کی گئی ہے، وہیں پر پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا ڈیجیٹل ہیلتھ مشن کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔
ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اگر حکومت نیشنل ہیلتھ مشن کے ذریعے بنیادی صحت کی خدمات کو بہتر نہیں کرے گی تو انشورنس اسکیموں کے ذریعے صحت سے متعلق عوامی خدمات کو بہتر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ صحت سے متعلق بنیادی ضرورتیں بچوں کی ٹیکہ کاری اور محفوظ طریقے سے بچوں کی پیدائش کی سہولیات کو بہتر کرنا نہایت ضروری ہے مزید گاؤں کی سطح پر کام کرنے والی آشا ورکر کے معاوضے میں بھی اضافے کی سخت ضرورت ہے۔ جہاں تک تعلیم کے بجٹ کا معاملہ ہے تو مجموعی طور سے تعلیم کی وزارت کے بجٹ میں8000کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ 2024-25میں تعلیم کی وزارت کا بجٹ 120628 کروڑ روپے تھا جوکہ2025-26میں بڑھ کر 128650 کروڑ روپے ہوگیا ہے۔ اسکولی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے لیے بالترتیب 78572کروڑ روپے اور50078 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ جی ڈی پی کی شرح میں وزارت کا بجٹ0.37سے گھٹ کر 0.36فیصد ہوگیا ہے، اسی طرح سے مجموعی بجٹ میں بھی اس وزارت کا بجٹ 2.78 فیصد سے گھٹ کر 2.54فیصد ہوگیا ہے۔ بجٹ تخمینے میں کمی کے باوجود حقیقی خرچ میں بھی کافی کمی آئی ہے۔ وزارت تعلیم آر ٹی ای ایکٹ کو نافذ کرنے کے لیے مرکزی حکومت سمگرشکشا ابھیان کا نفاذ کررہی ہے لیکن اس اسکیم کے مختص بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیاگیا ہے۔ 2024-25 میں اس اسکیم کے تحت37373کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے جوکہ اس سال کے بجٹ میں 37453کروڑ روپے ہوگئے ہیں۔
اس سال کے مرکزی بجٹ میں قبائلیوں اور دلتوں کے لیے ترقیاتی ترجیحات میں گزشتہ سالوں کی طرح زیادہ تبدیلی نہیں دیکھنے کو ملی ہے۔ملک میں اس وقت قبائلیوں اور دلتوں کی آبادی بالترتیب کل آبادی میں 8فیصد اور16فیصد سے زیادہ ہے لیکن قبائلیوں اور دلتوں کا ایک بڑا طبقہ ملک میں نافذ کیے جارہے ترقیاتی پروگراموں کا فائدہ پوری طرح سے نہیں اٹھا پا رہا ہے۔ ترقی کے مختلف میدانوں میں جیسے تعلیم، صحت، غذائیت اور روزگار کے معاملے میں دلت اور قبائلی صدیوں سے پسماندگی کا شکار ہیں۔ اس کے پیچھے کئی وجوہات ہیں جیسے کہ جغرافیائی سطح پر ان کی علیحدگی، تعصب اور حکومتی سطح پر تفریق ہے لیکن ان وجوہات کے علاوہ کچھ اہم وجوہات جیسے کہ حکومت کی سطح پر بنائی گئی ترقیاتی پالیسی ان کی ضرورتوں کے مطابق سے غیرمناسب ہیں۔ مختص کیا جا رہا بجٹ نا کافی ہے۔ پروگرام اور اسکیم کا نفاذ کافی کمزور ہے، اس کے علاوہ ترقیاتی پروگراموں کے نفاذ کی نگرانی کی صورتحال کافی خستہ ہے۔
مالی سال2025-26 میں 1292کروڑ روپے قبائلیوں کے سب پلان کے لیے مختص کیے گئے ہیں جوکہ کل اسکیم بجٹ کا8فیصد ہے۔ٹرائبل سب پلان/ڈیولپمنٹ ایکشن پلان کے تحت جو وزارتیں اور شعبے قبائلیوں کے لیے سب سے زیادہ بجٹ مختص کر رہے ہیں، ان میں کوئلہ(42فیصد)، اعلیٰ تعلیم (32فیصد)، شمال مشرقی علاقہ (29فیصد)، دیہی ترقی (13فیصد) اور اسکولی تعلیم(12فیصد) ہیں۔ جبکہ وزارت معدنیات، پٹرولیم، کوآپریشن ، کامرس اور کنزیومر افیئرس کا بجٹ ایک فیصد سے بھی کم ہے ۔ مرکزی وزارت برائے قبائلی امور کا بجٹ مجموعی ڈیولپمنٹ ایکشن پلان بجٹ کا10فیصد ہے۔ یہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ وزارت کا بجٹ قبائلیوں کے لیے مکمل طور پر خرچ کیا جا رہا ہوگا ۔ پردھان منتری آدی گرام آدرش یوجنا کے تحت 2025-26 میں2000 کروڑ کا بجٹ مختص کیا گیا۔ اس اسکیم کا مقصد قبائلی اکثریتی گاؤں کو ماڈل ولیج بنانا ہے جس میں صحت، تعلیم، روزگار اور سڑک کی سہولتیں دستیاب کی جائیں گی۔ اس اسکیم کے تحت 36428گاؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔ اکلویہ ماڈل رہائشی اسکول کے لیے7088کروڑ مختص کیے گئے ہیں اور 740اسکولوں کو مکمل طور سے قبائلی علاقوں میں شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ان سارے پروگرام کا نفاذ اگر بہتر طریقہ سے کیا جائے تو قبائلی علاقوں میں ترقی کی صورتحال کو مضبوط کیا جا سکتا ہے لیکن اسکیموں کا کمزور نفاذ اور غیر مؤثر منصوبہ بندی کی وجہ سے قبائلی اس کا فائدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں۔
دلتوں کی ترقیاتی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے 1979 میں دلتوں کی ہمہ جہتی ترقی کے لیے خصوصی بجٹ مختص کرنے کا فیصلہ لیا تھا اور اس حکمت عملی کو اسپیشل کمپوننٹ فار شیڈول کاسٹ(ایس سی پی) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ موجودہ بجٹ میں اس پلان کے تحت 168478 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ گزشتہ بجٹ میں یہ رقم 165598 کروڑ روپے تھی۔ ایس سی پی کے تحت پلان بجٹ میں دلتوں کے لیے ان کی آبادی کے تناسب کے حساب سے مختلف اسکیموں میں بجٹ مختص کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔ مطلب یہ کہ اگر قومی سطح پر دلتوں کی آبادی کل آبادی میں16فیصد ہے تو وزارتوں اور شعبوں کو اپنی اسکیموں اور پروگراموں میں ان کے لیے16فیصد بجٹ اور اس سے متعلق فوائد مختص کیے جائیں گے۔ ایس سی پی کی حکمت عملی کے تحت مرکزی حکومت نے مختلف وزارتوں اور شعبوں سے درخواست کی تھی کہ وہ دلتوں کی ضرورتوں کے حساب سے اسکیم اور پروگرام بنائیں، اس کے علاوہ جن وزارتوں میں آبادی کے تناسب کے حساب سے بجٹ مختص کیے جا رہے ہیں، اس کے اندر دلتوں کے لیے مخصوص پروجیکٹ بنائے جائیں جو ان کی ضرورتوں کو پورا کر سکیں ۔ ایس سی پی کے تحت دلتوں کے لیے مختص ترقیاتی فنڈ کو ایک مخصوص بجٹ کوڈ کے تحت رکھا جائے گا جوکہ تفصیلی بجٹ دستاویز میں مائنر ہیڈ(Minor Head 789) کے تحت درج ہوگا، اس کا مقصد یہ تھا کہ دلتوں کے لیے مختص بجٹ کو کسی اور مقصد اور طبقہ کے ضرورتوں کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اسکیموں کے تحت مختص بجٹ میں عدم یکسانیت، فائدہ اٹھانے والوں کے اعداد و شمار کا فقدان، فنڈز کا کم استعمال اور فنڈ کو دوسرے مقاصد کی طرف موڑنا اس کے نفاذ میں موجودہ بڑے مسائل ہیں۔ ڈیولپمنٹ ایکشن پلان کی حکمت عملی کو قومی سطح پر اور باقی ریاستوں میں آندھرا پردیش، تلنگانہ اور کرناٹک کی حکومتوں کے ماڈل پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
مالی سال2025-26میں مرکزی حکومت کے چائلڈ بجٹ اسٹیٹمنٹ کے تجزیہ سے پتا چلتا ہے کہ بچوں کی اسکیموں کے تحت 116132کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ 2024-25کے مقابلے موجودہ سال کے مختص بجٹ میں ایک معمولی اضافہ ہے۔2025-26 میں مرکزی حکومت کے کل بجٹ میں بچوں کے لیے مختص بجٹ2.3فیصد ہے جبکہ گزشتہ بجٹ میں بھی یہ2.3فیصد ہی تھا، یہ بچوں کے بجٹ میں کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2016میں بنائے گئے نیشنل ایکشن فار چلڈرن نے اس بات کی سفارش کی تھی کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے مجموعی بجٹ میں بچوں کے لیے بجٹ کا حصہ5فیصد سے کم نہیں ہونا چاہیے۔
بچوں کے لیے تعلیم پر مختص بجٹ کے تجزیہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ حکومت کی زیادہ بجٹ ترجیحات تعلیم کے شعبہ پر ہے۔ بچوں کے لیے کل مختص بجٹ میں تعلیمی بجٹ کا حصہ تقریباً 77.5فیصد ہے جبکہ بچوں کی صحت پر3.4فیصد خرچ کیا جاتا ہے، وہیں بچوں کی غذائیت سے متعلق بجٹ17.4فیصد ہے۔ سب سے کم بجٹ بچوں کے تحفظ پر خرچ کیا جاتا ہے جو کہ چائلڈ بجٹ کا1.7فیصد ہے۔ حکومت غذائیت کو بڑھانے کے لیے سکشم آنگن واڑی اور پوشن اسکیم چلا رہی ہے حالانکہ ان دونوں اسکیموں کے لیے مختص بجٹ میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔ موجودہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کو دیکھتے ہوئے پوشن اسکیم کے تحت مختص کیا گیا بجٹ بالکل ہی ناکافی تھا، اسی طرح سے چائلڈ بجٹ میں تعلیم کے شعبے کو زیادہ ترجیح دی گئی تھی لیکن سمگرشکشا کے تحت موجودہ مختص بجٹ کافی نہیں ہے۔ کورونا وبا اور حکومت کے ذریعے کیے گئے حالیہ تعلیمی سروے سے یہ پتا چلتا ہے کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد نے اسکول چھوڑ دیا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے ان بچوں کو اسکول واپس لانے اور سیکھنے کے معیار کو بہتر بنانے کی سخت ضرورت ہے جس کیلئے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو بچوں سے متعلق تعلیمی اسکیمیں بنانے اور بجٹ مختص کرنے میں زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ بچوں کے تحفظ کو لے کر مرکزی حکومت کے ذریعہ چلائی جا رہی اسکیم کو بجٹ مختص کرنے کے معاملے میں زیادہ ترجیح نہیں دی گئی۔ چائلڈ ہیلپ لائن اسکیم بھی عدم توجہی کا شکار ہے لہٰذا حکومت کو اس اسکیم کے تحت بجٹ میں اور اضافہ کرنا چاہیے۔ بچوں کے تحفظ سے متعلق جس کا نام مشن وتسلیہ ہے، اس کیلئے مختص بجٹ کو پوری طرح سے خرچ نہیں کیا جا سکا ہے۔ اوپر کیے گئے تجزیے سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ موجودہ بجٹ میں سماجی خدمات کے شعبے کو پوری طرح سے نظرانداز کیا گیا ہے۔
(مضمون نگار اقتصادی امور کے تجزیہ نگار ہیں۔)
[email protected]