دہلی اسمبلی انتخابات 2025: مسلم ووٹرز، تقسیم یا بے بسی؟: عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی

دہلی اسمبلی انتخابات 2025 کے بعد جاری کردہ ایگزٹ پولز کے مطابق بی جے پی کی دہلی میں 26 سال بعد اقتدار میں واپسی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ مختلف ایگزٹ پولز میں بی جے پی کو 36 سے 50 نشستیں ملنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جبکہ عام آدمی پارٹی (آپ) اور کانگریس کو بالترتیب کم نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ اگر یہ پیش گوئیاں درست ثابت ہوتی ہیں، تو بی جے پی 1998 کے بعد پہلی بار دہلی میں حکومت بنائے گی، تاہم ایگزٹ پولز کا ماضی میں ملا جلا ریکارڈ رہا ہے۔ حتمی نتائج 8 فروری کو سامنے آئیں گے۔ایگزٹ پولز کے مطابق ’آپ‘ کو 18 سے 37 نشستیں ملنے کا امکان ہے، جو پچھلے انتخابات کے مقابلے میں نمایاں کمی ہوگی۔ کانگریس کی کارکردگی بھی محدود رہنے کی توقع ہے، اور اسے 0 سے 3 نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ ان ایگزٹ پولز کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہلی کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی آ سکتی ہے اور بی جے پی کی ممکنہ کامیابی مسلم ووٹروں کی تقسیم اور دیگر عوامل کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ ان نتائج کو سامنے رکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ دہلی کے حالیہ اسمبلی انتخابات 2025 نے نہ صرف سیاسی منظرنامے کو نئی شکل دی ہے بلکہ مسلم کمیونٹی کے لیے بھی کئی اہم سوالات چھوڑے ہیں۔ یہ انتخابات عام آدمی پارٹی (آپ)، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور کانگریس کے درمیان سخت مقابلے کے گواہ بنے، تاہم مسلم ووٹروں کی تقسیم نے اس بار بھی نتائج پر گہرا اثر ڈالا۔ اس مضمون میں ہم اس انتخابی معرکے کا تجزیہ مسلم ووٹروں کے نقطۂ نظر سے کریں گے، تاکہ یہ جان سکیں کہ کیا واقعی ان کا سیاسی مستقبل محفوظ ہے یا وہ ایک بار پھر بے بسی کا شکار ہوئے ہیں۔

دہلی میں مسلم آبادی تقریباً 13 فیصد ہے، جو کئی اسمبلی حلقوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ ان میں اوکھلا، مصطفی آباد، سیلم پور، بلیماران، مٹیا محل، بابر پور اور چاندنی چوک جیسے علاقے شامل ہیں، جہاں مسلم ووٹ کسی بھی جماعت کی جیت یا ہار کا تعین کر سکتے ہیں، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم ووٹ بینک ہمیشہ منقسم رہا ہے، جس کا نقصان بالآخر خود مسلم قیادت اور عوام کو ہی پہنچتا ہے۔اس بار بھی یہی ہوا۔ آپ، کانگریس اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے درمیان مسلم ووٹوں کی تقسیم نے کئی حلقوں میں بی جے پی کو براہ راست فائدہ پہنچایا۔ مثال کے طور پر مصطفی آباد میں اے آئی ایم آئی ایم کے امیدوار طاہر حسین اور کانگریس کے امیدوار کے درمیان ووٹ تقسیم ہونے سے بی جے پی کے امیدوار کو آسانی سے برتری حاصل ہوتی نظر آرہی ہے۔ اسی طرح، سیلم پور میں بھی ووٹوں کی تقسیم نے بی جے پی کو فائدہ پہنچایا، جبکہ کانگریس اور ’آپ‘ کی مشترکہ حکمت عملی ناکام رہی۔ عام آدمی پارٹی گزشتہ دو اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کی اکثریتی حمایت کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی۔ اروند کجریوال کی قیادت میں آپ نے ہمیشہ بی جے پی کے خلاف اپنی پوزیشن مضبوط رکھنے کی کوشش کی، تاہم اس بار پارٹی کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

مثال کے طور پر بدعنوانی کے الزامات نے سخت مشکلات پیدا کیں۔ وزیر اعلیٰ اروند کجریوال سمیت کئی وزراء پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے، جن میں شراب گھوٹالہ کیس خاص طور پر نمایاں رہا۔ اس نے عوام کے اعتماد کو متزلزل کر دیا، جس کا اثر مسلم ووٹرز پر بھی پڑا۔ اس کے ساتھ مسلم مسائل پر کجریوال کی خاموشی بھی ایک اہم ایشو رہا ہے۔ دہلی کے حالیہ دنگوں، سی اے اے/این آر سی احتجاجات اور بلیماران و سیلم پور جیسے علاقوں میں پولیس مظالم پر کجریوال کی خاموشی نے مسلم ووٹروں کو متبادل قیادت کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا۔ ان سب کا ڈیمیج کنٹرول ہو سکتا تھا اگر کجریوال سرکار کسی مسلمان کو راجیہ سبھا میں نامزد کرتی یا کم از کم اب حالیہ اسمبلی الیکشن میں مسلم امیدواروں کی نامزدگی میں اضافہ کرتی جو کہ نہیں کیا گیا جس سے مسلم کمیونٹی میں ناراضگی پیدا ہوئی۔ اس کے برعکس بی جے پی کی حکمت عملی ہندو ووٹ بینک اور مسلم ووٹوں کی تقسیم کی حد تک کارگر ثابت ہوئی ہے، ساتھ ہی بی جے پی نے اس مرتبہ فرقہ وارانہ رخ اختیار نہیں کیا۔

ہمیشہ کی طرح بی جے پی نے اس بار بھی مسلم ووٹوں کی تقسیم کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ پارٹی نے اپنی انتخابی مہم میں ہندو ووٹ بینک کو متحد کرنے پر توجہ دی اور مسلم اکثریتی علاقوں میں ووٹ تقسیم کرانے کی حکمت عملی اپنائی۔ البتہ دنگوں سے متاثرہ علاقوں میں ہندو ووٹرز کو متحرک کرنے کے لیے پارٹی نے جارحانہ رخ اپنایا اور فائر برانڈ مانے جانے والے کپل مشرا اور روی نیگی کو اپنا امیدوار بنایا۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے اس بار پسماندہ طبقات کو خاص طور پر متوجہ کرنے کی کوشش کی، تاکہ کانگریس اور آپ کے ووٹ بینک کو کمزور کیا جا سکے۔ سب سے اہم بات کہ مسلم ووٹوں کی تقسیم سے فائدہ اٹھایا۔ بی جے پی کو معلوم تھا کہ اگر مسلم ووٹ متحد نہ ہوں، تو اسے جیتنے کا راستہ مل سکتا ہے۔ چنانچہ مصطفی آباد، اوکھلا، بلیماران اور چاندنی چوک جیسے حلقوں میں مسلم امیدواروں کی زیادہ تعداد نے بی جے پی کے امیدواروں کے لیے جیت کا راستہ ہموار کر دیا۔ جہاں تک کانگریس کا تعلق ہے ،کانگریس نے اس انتخاب میں مسلم ووٹ بینک کو دوبارہ اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے خاص کوشش کی، لیکن وہ مکمل طور پر کامیاب نہ ہو سکی۔ راہل گاندھی، پرینکا گاندھی اور دیگر رہنماؤں نے دنگوں سے متاثرہ علاقوں میں ریلیاں کیں، سی اے اے/این آر سی کے خلاف احتجاجات میں اپنی حمایت کا اعلان کیا، اور اقلیتوں کے حقوق پر زور دیا، لیکن وہ مسلم ووٹوں کو یکجا کرنے میں ناکام رہے۔اس ناکامی کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

مثال کے طور پر قیادت کا بحران، کانگریس کی مقامی قیادت اب بھی کمزور اور غیر مؤثر نظر آتی ہے، جو ووٹرز کو مکمل طور پر قائل نہیں کر سکی۔مسلم امیدواروں کی محدود نامزدگی کانگریس میں بھی نظر آتی ہے اور ایک اہم وجہ یہ کہ دہلی میں کانگریس کے زوال کے بعد اب بھی ووٹرز کا بڑا حصہ ’آپ‘ کو ترجیح دیتا رہا، جس سے پارٹی کو خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔اب ہم بات کرتے ہیں مسلم قیادت کی کمی اور ووٹوں کی تقسیم کی اور مستقبل کے لائحہ عمل کی ، تو دہلی کے اس انتخاب میں مسلم ووٹوں کی تقسیم نے ثابت کر دیا کہ اگر اقلیتی برادری متحد نہ ہوئی، تو اس کا فائدہ بی جے پی جیسی مخالف پارٹی کو پہنچے گا۔

یہ صورتحال مسلم قیادت کے بحران کی بھی عکاسی کرتی ہے۔اگر مستقبل میں مسلم ووٹرز اپنی اجتماعی طاقت کا مؤثر استعمال کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں ان نکات پر غور کرنا ہوگا ، متحدہ حکمت عملی: مسلم کمیونٹی کو سیاسی طور پر تقسیم ہونے کے بجائے کسی ایک مؤثر جماعت کو ترجیح دینی چاہیے، جو ان کے مسائل کے حل کی ضمانت دے سکے۔ مثال کے طور پر دہلی میں مؤثر مسلم قیادت کے بغیر ووٹ بینک ہمیشہ تقسیم رہے گا، لہٰذا مقامی اور قومی سطح پر مضبوط مسلم قیادت کو فروغ دینا ضروری ہے۔مسلم ووٹرز کو وقتی جذباتی نعروں اور نمائشی سیاست سے نکل کر عملی بنیادوں پر اپنے ووٹ کا استعمال کرنا ہوگا، تاکہ ان کے مسائل حقیقی طور پر حل ہو سکیں، ساتھ ہی اگر ’آپ‘ اور کانگریس جیسی جماعتیں مسلمانوں کے مسائل کو نظر انداز کرتی رہیں، تو مسلم رہنماؤں کو ان سے مذاکرات کر کے بہتر سیاسی حکمت عملی اپنانے پر مجبور کرنا ہوگا۔

نتیجہ کے طور پر ہم کہ سکتے ہیں کہ دہلی اسمبلی انتخابات 2025 کے ایگزٹ پول نتائج نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کو ایک لانگ ٹرم سیاسی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کرنی ہوگی اور سیکولر ووٹوں کے ساتھ اپنی طاقت کس طرح مضبوط بنائی جا سکے، اس پر طویل مدتی منصوبہ سازی کی ضرورت ہو گی جس کے لئے سنجیدہ افراد کو آگے آنا ہوگا۔ اگر مسلم ووٹرز اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں، تو انہیں اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ بصورت دیگر، ہر انتخاب میں یہی صورتحال دہرائی جاتی رہے گی، اور مسلم برادری صرف ایک ’ووٹ بینک‘ بن کر رہ جائے گی، جس کا کوئی حقیقی سیاسی فائدہ نہیں ہوگا۔

(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS