روپیہ، ڈالر اور معیشت کی کشمکش

0

وقت کی چال اور معیشت کی بساط پر حالات کا جبر اکثر ہمیں پرانے دعوئوں کی حقیقت سے آشنا کرتا ہے۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے دنوں میں، ڈالر کی قدر کے گرد ہونے والے مباحثے کی بازگشت آج بھی ہمارے کانوں میں گونجتی ہے۔ اس وقت کے بیانات، وعدے اور دعوے آج کے معروضی حالات میں ایک آئینے کی طرح سامنے آکھڑے ہیں۔ وزیراعظم کے اس وقت کے ٹوئیٹس، جن میں ڈالر کو 40 روپے تک لانے کی امید دلائی گئی تھی، آج کے87 روپے کے قریب پہنچتے ہوئے ڈالر کے تناظر میں ایک دلچسپ مگر تلخ یادگار بن گئے ہیں۔

ریزرو بینک آف انڈیا نے حالیہ مہینوں میں کرنسی کی قدر کو مستحکم رکھنے کیلئے بڑے پیمانے پر مداخلت کی ہے۔ مارکیٹ میں ڈالر کی فروخت اور کرنسی خریدنے جیسے اقدامات اس استحکام کی بنیادی وجہ ہیں۔ تاہم اس حکمت عملی کے نقصانات بھی ہیں۔ مثال کے طور پر غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آئی، جو جنوری 2025 تک 623.98بلین ڈالر تک محدود ہوچکے ہیں حالانکہ گزشتہ مہینہ یہ 625.87بلین ڈالر تھے۔

عالمی معیشت پر نظر ڈالیں تو ڈالر انڈیکس،جو 6 بڑی غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کی پیمائش کرتا ہے، مسلسل اوپر جارہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت عالمی سطح پر ایک عمومی رجحان ہے۔ 2023 میں ہندوستان کی افراط زر کی شرح 5.36فیصد کے قریب رہی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں قدرے کم تھی لیکن اب بھی عام شہری کی جیب پر بھاری بوجھ ڈالتی ہے۔ افراط زر کے اس بوجھ کوخام تیل کی قیمتوں میں اضافہ بھی مزید سنگین بنارہاہے کیوں کہ اس کی وجہ سے براہ راست درآمدی اخراجات میں اضافہ ہورہاہے۔

ہندوستانی معیشت کی ساخت کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم خالص درآمد کنندہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہماری درآمدات کو مزید مہنگا بنا دیتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا اثر پیٹرولیم مصنوعات پر پڑتا ہے، جن کی قیمتوں میں اضافے سے ٹرانسپورٹ اور دیگر ضروری اشیا کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ نتیجتاً عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس برآمدات کے شعبے میں ہندوستان کو وہ فائدہ نہیں ملتا جو ایک خالص برآمد کنندہ ملک کو حاصل ہوتا ہے۔

ریاستی پالیسیاں اور عالمی عوامل ریزرو بینک کی جانب سے روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کے اقدامات قابل ستائش ہیں لیکن ان کے ساتھ خطرات بھی وابستہ ہیں۔ ڈالر کی مسلسل فروخت ملکی مارکیٹ میں نقدی کی قلت پیدا کر سکتی ہے جبکہ سود کی بلند شرحیں پہلے ہی سرمایہ کاری کیلئے غیر موافق ماحول پیدا کر رہی ہیں۔ دوسری جانب بجٹ کی تشکیل میں غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے سازگار اقدامات کی توقعات بڑھ رہی ہیں لیکن ان توقعات کو پورا کرنا مرکزی حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

عالمی سطح پر ڈالر کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ برینٹ کروڈ(خام تیل) کی قیمت 78.65ڈالر فی بیرل ہو چکی ہے۔ اس سے مقامی مارکیٹ پر مزید دبائو پیدا ہونے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کا سرمایہ نکالنا بھی روپے پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ صرف ایک دن میں غیر ملکی ادارہ جاتی سرمایہ کاروں (FIIs) نے 2,758.49 کروڑ روپے سرمایہ نکال لیا، جو گھریلو مارکیٹ میں اعتماد کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔معاشی پالیسیاں اور عوامی توقعات2014 کے وعدوں کے برعکس روپے کی موجودہ صورتحال ظاہر کرتی ہیں کہ عوامی توقعات اور زمینی حقائق کے درمیان ایک واضح خلیج ہے۔

معیشت کی موجودہ حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان کو اپنی معاشی پالیسیوں میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ زرعی شعبے، برآمدات اور گھریلو پیداوار کو فروغ دینا ایسے اقدامات ہیں جو طویل مدتی استحکام فراہم کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عوام کو موجودہ حالات سے آگاہ کرنا اور غیر ضروری توقعات پیدا کرنے سے گریز کرنا بھی اہم ہے۔

روپے کی موجودہ قدر ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جسے صرف داخلی اقدامات سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صورتحال ایک بار پھر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ معاشی پالیسیاں عوامی توقعات اور سیاسی بیانیے سے ماورا ہوتی ہیں۔ حکومت کو نہ صرف عالمی منڈی میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھنی ہوگی بلکہ داخلی سطح پر بھی مضبوط اقدامات کرنے ہوں گے۔ بصورت دیگر روپے کی گرتی ہوئی قدر اور بڑھتی ہوئی مہنگائی عام شہری کی زندگی کو مزید مشکل بنا دے گی۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS