سماجی روایتوں کی مسخ ہوتی شکلیں

0

وسیم احمد

ہندوستان ان خوش نصیب ملکوں میں شامل ہے جہاں قدیم ترین تہذیبوں کا ورثہ موجود ہے۔ دنیا کو روایتوں، ثقافتوں اور علم و تہذیب سے متعارف کرانے والا یہ ملک اب نئی صدی کی آمد کے ساتھ ہی اپنی تہذیب سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ کسی بھی خطے، قوم وملک کی تہذیب و ثقافت نہ صرف اس کی تاریخ کی ترجمان ہوتی ہے بلکہ یہ اس کے تاریخی طرز تعمیر اور معاشرے کی بودوباش کی بھی عکاس ہوتی ہے۔ جو معاشرہ اپنی تہذیب و ثقافت اورتاریخی ورثے کی حفاظت نہیں کرتا، وہ روایتی اقدار سے ملنے والی روحانی توانائیوں سے محروم ہوجاتا ہے اور ’’زندگی بے روح‘‘ بن کررہ جاتی ہے۔

کہتے ہیں، کسی معاشرے کو مفلوج کرنا ہو تو اس کی اقدار چھین لو، اقدار کی حیثیت کسی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے۔ اقدار کو پہنچنے والی کوئی بھی چوٹ اسے مفلوج کر سکتی ہے اور یہ فالج زدہ معاشرہ، اجتماعی زندگی کے اصل حسن، احسان، اخوت، رواداری اور ایثارو قربانی جیسے جذبوں کی رعنائیوں سے نا آشنا ہوجاتا ہے، جبکہ کسی بھی معاشرے کو مثالی، معیاری اور حسین بنانے میں یہ صفات ناگزیرہوتی ہیں۔ جب ہم اپنے موجودہ سماج کا جائزہ لیتے ہیں تودُکھ ہوتا ہے کہ گزشتہ تقریباً ڈیڑھ دہائیوں سے ہماری نسل جس طرح اپنی اقدار کو کھوتی جا رہی ہے، بعید نہیں کہ آئندہ کچھ برسوں میں ہماری یہ قدریں معدوم ہو جائیں جبکہ یہ نسل آخری ایسی کڑی ہے جو گزشتہ دو ہزار سال کی روایات، رسومات، رواجوں، تہواروں، طرز زندگی کو آگے بڑھا رہی ہے۔ یہ روایات نسل در نسل منتقل ہوتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہیں۔ منتقلی کا یہ سلسلہ تہذیب کو زندہ رکھنے میں معاون اور اسے محفوظ و ترقی دینے میں مددگار ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں اب تک جتنی بھی تاریخی یا جغرافیائی تبدیلیاں آئیں، سماج پر اس تبدیلی کے گہرے اثرات کو روکنے میں اسی سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی تہذیب نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ملک تقسیم ہوا اور تاریخ میں اتھل پتھل پیدا ہوئی لیکن سماج کا اپنا طرز زندگی برقرار رہا۔ لیکن اب شاید وقت آگیا ہے کہ ان سب پر مکمل روک لگ جائے اور تہذیبی اقدار موجودہ نسل کے ساتھ ہی دفن ہوجائیں۔ نئی نسل نہ تو پرانی روایات کو اپنانا چاہتی ہے اور نہ ہی آگے لے جانا چاہتی ہے۔ جدیدیت، ٹکنالوجی اور دکھاوے کی زندگی کے نام پر وہ ان تاریخی اقدار و روایات کو ڈھونگ اور بے وقعت قرار دے کر ترک کر رہی ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو ہماری قدروں کا تذکرہ تاریخ کی کتابوں میں سمٹ کر رہ جائے گا، ان کے بارے میں بتانے والا کوئی نہیں بچے گا۔ تہوار تو آئیں گے لیکن ان کی سماجی اہمیت اور معاشرتی ہم آہنگی کی لذتوں پر روشنی ڈالنے والا کوئی نہ ہو گا۔ بھلے ہی یہ بات تھوڑی سخت لگتی ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے، ایک آفاقی سچائی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

اس نسل کے لوگ بالکل مختلف ہیں۔ اپنے آباء و اجداد کی روایتوں کو تیزی سے چھوڑ رہے ہیں۔ رات کو جلدی سونے والے، صبح سویرے اٹھ کر سیرکے لیے نکلنے والے، صحن اور پودوں کو پانی دینے والے، صبح کی اذان سنتے ہی بستر چھوڑ کر مسجد روانہ ہونے والے، راستے میں ملنے والے لوگوں سے گرمجوشی سے ہاتھ ملانے والے اور نیم کی مسواک کرتے ہوئے کنویں کی منڈیروں پر بیٹھ کر گپ شپ کرنے والے اور تالاب کے کنارے سیر سپاٹے کرنے والے اب دھیرے دھیرے ماضی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اب وہ سماج کہیں کھوتا جارہا ہے جس میں تہواروں کی ہلچل، مہمانوں کے آداب، خدا پر بے پناہ یقین، سماجی رسم رواج کی پاسداری، گرمی کی چلچلاتی دوپہر میں چار پائی بچھا کر کسی گھنے پیڑ کے سائے میں جمع ہونا اور پھر پورے محلے، گائوں، رشتہ داری سے لے کر دیسی ٹماٹر، بینگن، میتھی اور ساگ تک پر نقد و تبصرہ، اب ہمیشہ کے لیے دور ہو تا جارہا ہے۔

دنیا بھلے ہی جغرافیائی وجوہات کی بنا پر تباہی کی حالت میں ہو، لیکن یہ ثقافتی تباہی اس سے بھی بدتر ہو گی جس کے نتائج آنے والی چند دہائیوں میں مسخ شدہ شکل میں نظر آئیں گے اور ہماری یہ روایتیں گمنامی کی تاریکی میں سما جائیں گی۔ یہ سب کچھ دوسری دنیا کے لوگوں کی ثقافتی یلغار کی وجہ سے نہیں، بلکہ ہمارے درمیان نئی نسل اور نئی ٹیکنالوجیکل دنیا کے حملے کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اس میں ہم والدین کی بھی کچھ نہ کچھ کوتاہی ہے۔ والدین اور اولاد کا رشتہ اس دنیا میں بیش قیمت رشتہ ہے جو بے لوث اور بے غرض ہوتا ہے۔اولاد کی تربیت اور شفقت و محبت والدین کی ذمہ داری ہے۔ جہاں پر والدین کی ذمہ داریوں میں غفلت ہوتی ہے، وہاں معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے لگتا ہے۔

ہم نے اپنی اولاد کو جدید ٹیکنالوجی کے حوالے کردیا ہے۔ والدین کے ساتھ بات چیت کرنے سے زیادہ موبائل کی اسکرین پر ان کا وقت گزرتا ہے۔ جب موبائل نہیں تھا تو والدین اپنے بچوں کو سماجی اقدار کی باتیں بتایا کرتے تھے مگر اب وہ یہی اقدار انٹرنیٹ کی دنیا سے سیکھ رہے ہیں، وہاں سے سیکھی ہوئی باتیں ان کے شعور پر اثر انداز ہو رہی ہیں اور اب وہ اپنی ہی تہذیب کو، دقیانوسی سمجھنے لگے ہیں۔ اگر ابتدا سے ہی جدید ٹیکنالوجی کی آغوش میں دینے کے بجائے ان کا رشتہ قلم اور کتاب سے جوڑدیا جاتا تو نئی ٹیکنالوجی کا مغربی حملہ ان کے ذہن و شعور کو متاثر نہیں کرتا، کیونکہ کتابیں شعور دیتی ہیں۔ کتب بینی کی عادت سے بچوں میں چیزوں کو سمجھنے اور پرکھنے کا احساس پروان چڑھتا ہے۔ کتابوں سے ہی بچوں میں سماجی اقدار کا شعور اور رشتوں کی فضیلت کا یقین جاں گزیں ہوتا ہے۔ ہم نے اپنے بچوں کو یہ بتانا چھوڑ دیا کہ کوئی بھی انسان تنہا معاشرہ نہیں بنا سکتا۔ رشتے وہ خوبصورت ڈور ہیں جو زندگی میں خوشیوں کی پتنگ کو اونچا اڑانے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور اسی سے ایک مضبوط سماج وجود میں آتا ہے۔ ہماری روایتیں اور ہمارا مذہب ہمیں اپنے رشتوں سے محبت کی تلقین کرتا ہے۔

اللہ کے رسولؐ نے دوسروں کے حقوق میں کوتاہی کرنے پر آخرت میں سخت عذاب کی خبردی ہے اوررشتوں کا احترام کرنے والوں کے لیے بشارتیں دی ہیں۔ مذہب اسلام میں مضبوط خاندانی نظام کی حوصلہ افزائی اور معیاری سماج کی تعمیر کی بھرپور حمایت کی گئی ہے۔ موجودہ نسل آہستہ آہستہ رخصت ہورہی ہے، اس کے ساتھ ہی سماجی روایتیں بھی معدوم ہورہی ہیں۔ لیکن کسی نے اس مسلسل کٹاؤ کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا اور نہ ہی مٹتی ہوئی مذہبی روایات کو بچانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا۔ روایت سے جوڑ کر رکھنے کے لیے مذہب ایک بہترین ذریعہ ہوتا ہے۔ ہٹلر کی نازی افواج کے ہاتھوں یہودیوں کی نسل کشی کی گئی، مگر مذہبی کتابوں سے وابستگی کے سبب یہودیت زندہ رہی۔

عیسائیت دنیا کے مختلف ملکوں میں اقلیت میں رہی اور محکومیت ومغلوبیت سے دوچار رہی، لیکن مذہبی رسومات سے وابستگی کی وجہ سے وہ اپنے وجود کو بچانے میں کامیاب رہی۔ ان اقوام میں سب سے زیادہ آزمائش امت مسلمہ کی ہوئی۔ باطل نے ہمیشہ ہی مسلمانوں کے خلاف تیرو تفنگ اور سیف و سنان کا استعمال کرکے انہیں مٹانے کی کوشش کی،اس کے باوجود مسلمانوں میں مسلمان ہونے کا شعور باقی رہا اور قرآن و حدیث سے ان کی وابستگی برقرار رہی توکوئی بھی انہیں مٹا نہ سکا اور نہ ہی ان کی شناخت چھین سکا۔ مگر جب کوئی قوم اپنی روایات سے ہٹ جاتی ہے تو اس کی شناخت مٹا دی جاتی ہے۔ ہماری نئی نسل جس طرح جدید دنیا کی چمک میں کھوتی جارہی ہے، آنے والے کچھ برسوں میں ہماری قدریں یاد رفتہ بن کر رہ جائیں گی۔ سماجی اقدار کو باقی رکھنے کے لیے ان میں قناعت، سادگی اور روحانی زندگی کی کشش پیدا کرنی ہوگی۔یہی کشش ماضی سے جوڑ کر رکھے گی۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس پر منظم کوشش کی جائے اور نئی نسل میں مذہبیت کا رنگ بھر کر روایات سے جوڑا جائے۔ تہذیب کو زندہ رکھنے کے لیے روایت سے جڑ کر رہنا لازمی ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS