خواجہ عبدالمنتقم
مرکز اور ریاستی حکومتوںکے یکساں سول کوڈ لانے کی خبر سے مسلمانان ہند اور ارباب حکومت کے مابین پھر ٹکراؤ جیسی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ سپریم کورٹ کے پنالال بنسی لال بنام ریاست آندھراپردیش (1996) جے ایس سی سی498)والے معاملے میں دیے گئے اس فیصلے کے بعد کہ کسی قانون کے سب پر اطلاق سے متعلق فیصلہ ایکدم نہیں کیاجاناچاہیے اور صرف تبھی کیا جاناچاہیے جب اس کی ضرورت نہایت شدید ہواور اس سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوتے ہوں اور ملک کا اتحاد و سالمیت قائم رہے،اور اس آئینی ضمانت کے بعد کہ سب کو آزادیٔ ضمیر اور اپنے مذ ہب کی پیروی کرنے کی مکمل آزادی ہوگی بشرطیکہ اس سے امن عامہ ،صحت عامہ اور اخلاق عامہ و آئین کے جز تین کی توضیعات پر منفی اثر نہ پڑے بار بار یکساں سول کوڈ لانے کی بات اچھی نہیں لگتی۔ باقی جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔کیا کبھی سپریم کورٹ نے یہ کہا کہ یکساں سول کوڈ لاگو کرنے سے امن عامہ ،صحت عامہ ، اخلاق عامہ و آئین کے جز تین کی تو ضیعات پر منفی اثر پڑے گا؟ صرف یہی نہیں سپریم کورٹ اپنی اس رائے کا بھی اظہار کرچکی ہے کہ فیصلہ پر قائم رہنے کے اصول(Stare Decisis)کے مطابق عدالتوں کو اپنے فیصلوں پر قائم رہنا چاہیے اور انہیںالٹ پلٹ نہیں کرنا چاہیے۔ (ملاحظہ فرمائیے ریاست پنجاب بنام بلدیو سنگھو دیگر (1999) 6ایس سی سی 172)۔ لاکمیشن کے سابق چیئرمین جسٹس چوہان نے بھی مسلمانوں کے ایک وفد کو یہ یقین دلایا تھا کہ حکومت یا سپریم کورٹ کا مسلمانوں کے شرعی قانون میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں ۔
دریں صورت یکساں سول کوڈ کی بابت قانون سازی کے لیے عجلت کا کوئی جواز نہیں۔در اصل یہ ایک آئینی مسئلہ ہے مگر اسے سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے۔ بھارت کے آئین کی دفعہ 44میں صرف یہ بات کہی گئی ہے کہ مملکت اس بات کی کوشش کرے گی کہ ہندوستان میں سبھی شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ ہو مگر یکساں سول کوڈ کی نوعیت کیا ہوگی، اس کے بارے میں ابھی تک ہمارا آئین بالکل خاموش ہے۔اس سے زیادہ اہم تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی بھی خط افلاس سے نیچے نہ رہے، سب کو صاف پانی وبہتر ماحول میسر ہو، معیار زندگی بلند ہو، غذائیت سے بھرپور غذا ملے، قومی اہمیت کی یادگاروں اور مقامات کی حفاظت کی جائے ،کمزور طبقات کی تعلیمی و معاشی حالت بہتر ہو، سب کو کام ملے، دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ ممالک میں ہمارا شمار نہ ہو، ہمارے ملک کی راجدھانی دنیا کا سب سے آلودہ شہر نہ ہو، خانگی تشدد کے معاملات میں کمی آئے، کینسر اور ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں کمی آئے اور مریضوں کو بہتر سہولیات ملیں،تباہ کن سیلاب، سائیکلون، زلزلہ، برفانی طوفان، ، لینڈ سلائڈ، آتش فشاں پہاڑوں کا قہر، گلیشیروں کا پگھلنا، بھیانک آگ زنی، خشک سالی، پانی کی سخت قلت، فصلوں کے لیے بھی پانی کا کم ہونا، ہرطرح کی ماحولیاتی آلودگی ،گلوبل وارمنگ وغیرہ پر قابو پانے کے لیے زیادہ موثر اقدامات کیے جائیں۔
حکومت کو بار بار ان دشواریوں سے آگاہ کیا جاتا رہا ہے جو یکساں سول کوڈ لانے سے پیدا ہو سکتی ہیں۔ ذرا سوچئے:
-1 کیاہندوؤں کے دونوں مکاتب فکر یعنی میتاکشر اور دائے بھاگ پر اور مسلمانوں کے ہرمکتب فکر اور مسلک پر ہرعائلی معاملے میں یکساں سول کوڈ کا اطلاق ممکن ہے؟
-2 کیا عام ہندوؤں اور پہاڑی و قبائلی ہندوؤں پر،جو بیک وقت کئی خاوند رکھنے میں یقین رکھتے ہیں ،یکساں سول کوڈ کا اطلاق ممکن ہے؟
-3 -کیا سول کوڈ تمام مذاہب کی بنیادی باتوں اور آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کو نظرانداز کرکے نافذ کیا جاسکتا ہے؟
بڑے افسوس کی بات ہے کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ پالی گیمی کی ابتدا مسلمانوں نے کی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے تعداد ازواج کو محدود کیا ورنہ اس سے قبل نہ صرف عرب بلکہ غیر عرب جتنی چاہے بیویاں رکھ سکتے تھے۔کیا یہودی اور حضرت موسیٰؑ کے پیروکاروں اور Mormons میں پالی گیمی رائج نہیں رہی؟ کیا 1955 کے ہندو میرج ایکٹ کے نفاذ سے قبل ہمارے ہندو بھائی ایک سے زیادہ بیویاں نہیں رکھ سکتے تھے؟آج بھی آپ کو شاذونادر ہی مسلمانوں میں ایسے لوگ ملیںگے جن کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں۔
ہمارے ملک میں عائلی قوانین کے علاوہ تقریباً تمام قوانین کا اطلاق ہم سب پر یکساں طور پر ہوتا رہا ہے اور ہورہا ہے۔ عائلی قوانین کو خاص طور پر اقلیتوں کے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس طرح وضع کیا گیا تھا کہ نہ صرف اقلیتیں بلکہ تمام مذاہب کے پیروکار ازدواج، وراثت، تبنیت جیسے امور پر اپنے اپنے عقائد کے مطابق عمل کرسکیں۔
اگر کوئی بھی قانون نیک نیتی سے اور وہ حقیقتاً ان طبقات کے مفاد کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے بنایا جا تا ہے تو وہ متعلقہ طبقات کو یقینی طور پر قبول ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ نے دوران سماعت اپنے ایک حالیہ معاملے میں جہیز اور خانگی تشدد سے متعلق بنائے گئے قوانین کی ناکامی کے بارے میں اپنی اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ صرف قانون بنانے سے ہی معاشرے کی اصلاح نہیں ہوسکتی، اس کے لیے عوام کو اپنی سوچ اور اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہوگی۔اس نے اس سلسلے میں حکومت ہند سے تین طلاق کے معاملات کی تعداد پیش کرنے کے لیے کہا ہے جو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ اس قانون کا نفاذ صرف کاغذوں تک محدود ہے اور یہ تا ہنوز زمین پر نہیں اترا ہے۔ یہی صورت حال جہیز سے متعلق قانون کی ہے۔اب صرف تین راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ حکومت سے شائستگی کے ساتھ یہ التماس کیا جائے کہ وہ آپ کے جذبات کا احترام کرے ۔دوسرا راستہ یہ ہے کہ قانون بن جانے کے بعد اس کا بغور مطالعہ کیا جائے اور ضرورت پڑنے پر عدالت سے رجوع کیا جائے اور ناکامی کی صورت میں صبر و تحمل سے کام لیا جائے۔ عافیت اسی میںہے۔تحمل اور صبر ایک ایسا ہتھیار ہے جس کا کوئی توڑ نہیں ۔ کوشش کیجیے حضور اکرمؐ کی دکھائی گئی راہ پر چلنے کی ، آپؐ اپنے ساتھ کیے جانے والے ہرناروا سلوک پر سیخ پا اور برانگیختہ ہونے کے بجائے اور بھی زیادہ حلیم اور بردبار نظر آتے تھے۔ حرم میں سجدہ کرتے ہوئے دوش مبارک پر اوجھ رکھ دیا جائے ،سر مبارک پر کوڑا کرکٹ ڈالا جائے،سرداران کی انسانیت سوز دل آزاری کی حرکتیں ہوں، آپؐ نے ہرطرح کے حالات کی سنگینی کا ہمیشہ توکل علی اللہ کی ڈھال ہی سے کامیاب مقابلہ کیا اورجس صبر و استقامت کا نمونہ پیش فرمایا یہ چمنستان خلق محمدیؐ کے خزاں نا آشنا پھول ہیں جن کی تازگی، لطافت اور مہک تا قیامت کم نہ ہوگی۔کیا ہم مولانا آزاد کے اس خطاب کو بھی بھول گئے جس میں تقسیم ہند کے فوراً بعد انہوں نے دہلی کی جامع مسجد کے منبر سے ہمیں یہ کہہ کر ہمت دلائی تھی کہ ہم نے لیل و نہارکی بہت سی گردشیں دیکھی ہیں،گھبرانے کی ضرورت نہیں۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]