اسرائیل نے فلسطینی مزاحمت کی کامیابی سے کیا سبق سیکھا؟ : ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے وہائٹ ہاؤس میں حاضری کی دعوت ملی ہے اور نیتن یاہو بہت خوش ہیں کہ صہیونیت کے سب سے بڑے حامی اور دنیا کے واحد سپر پاور ملک کے صدر نے انہیں اولیت کے شرف سے نوازا ہے۔ نیتن یاہو کی ملاقات سہ شنبہ کو ڈونالڈ ٹرمپ سے ہوگی جہاں وہ امریکی صدر کو اسرائیل کے مستقبل پلان سے آگاہ کریں گے اور کوشش کریں گے کہ ڈونالڈ ٹرمپ ان کے پلان پر موافقت کی مہر ثبت کردیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی سیمابی شخصیت سے یہ کوئی بعید بھی نہیں ہے کیونکہ ان کی طبیعت میں ٹھہراؤ اور فکر میں استقامت جیسی خصوصیات بالکل مفقود ہیں۔ ایک طرف تو غزہ میں جنگ بندی کے لئے انہوں نے جو کوششیں کیں اور کامیابی کے ساتھ اس کو حقیقت کی زمین پر اتارا اس کے لئے سہرہ اپنے سر پر باندھتے نظر آ رہے ہیں اور دوسری طرف اہل فلسطین کو ان کی زمینوں سے نکالنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔جنگ بندی کے معاملہ میں ٹرمپ اپنے کردار کو اتنی بار دہرا چکے ہیں اور اپنے سیاسی حریف سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی ناکامی کو اس قدر شدت سے دنیا کے سامنے پیش کر چکے ہیں کہ یہ احساس ہونے لگا ہے کہ آج بھی مغربی استعمار کی تمام کامیابیاں تب تک انہیں ادھوری معلوم ہوتی ہیں جب تک مشرق وسطیٰ کا رنگ استعماری تاج پر واضح طور پر نظر نہ آتا ہو۔ گویا آج بھی مغربی تہذیب اپنی صلیبی نفسیات سے باہر نہیں آ سکی ہے اور صلاح الدین ایوبی کی صدیوں پرانی ضربوں کی ٹیس اپنی پشت پر آج بھی محسوس کرتی ہے۔ لہٰذا اس کو جب بھی کبھی اس کا موقع ملتا ہے کہ اپنی تفوق کے مظاہر کو مسلم دنیا اور مشرق وسطیٰ کے خلاف ثابت کر سکے تو وہ کبھی اس سے گریز نہیں کرتی۔ صلیبی دور کی ہی وہ نفسیاتی شکست ہے جس سے مغربی دنیا جوجھتی رہتی ہے اور اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو شکست و ریخت سے اس حد تک دوچار کر دیا جائے کہ وہ پھر کبھی اس کے سامنے سر نہ اٹھا سکے۔ بہت حد تک وہ اس میں کامیاب بھی ہوچکی ہے۔

لیکن مغرب کی غلطی یہ ہے کہ اس نے اپنی فکر و عمل کا جو ڈھانچہ تیار کیا ہے وہ اس قدر تنگ اور غیر منطقی ہے کہ اس کے ذریعہ کم سے کم اسلامی دنیا کو سمجھ پانا اس کے لئے قطعاً ممکن نہیں ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے خاتمہ کے بعد جب دولت عثمانیہ کو عالم عربی اور شمالی افریقہ کی زمینوں سے نکالا گیا اور برطانیہ و فرانس نے عالم عربی کے حصے بخرے کرکے آپس میں بانٹ لئے اور شام پر فرانس کو قبضہ حاصل ہوگیا تو اس موقع پر فرانس کے جنرل نے سب سے پہلا جملہ جو کہا تھا وہ یہی تھا کہ صلیبی جنگ آج ختم ہوئی ہے۔ کچھ یہی حال برطانیہ کا تھا جس نے فلسطین پر حق انتداب حاصل کرنے کے بعد صلاح الدین ایوبی کی روح کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دیکھو ہم بیت المقدس میں پھر سے موجود ہیں۔ لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ فرانس و برطانیہ نے اپنی نازیبا حرکتوں سے عرب نوجوانوں کی خوابیدہ روح کو بیدا کر دیا اور ان نوجوانوں نے مغربی استعمار کے خلاف اپنی مزاحمت کا آغاز کر دیا۔ زیادہ مدت نہیں گزری کہ ان زمینوں سے انہیں جانا پڑا۔ فرانس کو صرف شام و لبنان سے ہی پیچھے نہیں ہٹنا پڑا بلکہ شمالی افریقہ کے ممالک تونس و مراقش اور الجزائر سے بھی بھاگنا پڑا۔ الجزائر کی تحریک آزادی بطور خاص بیک وقت بہت دلخراش اور دلچسپ بھی ہے۔ وہاں ارباب مزاحمت نے بڑی قیمت چکائی۔

پندرہ لاکھ سے زیادہ مجاہدین آزادی شہید ہوئے لیکن فرانس کی بربریت ان کے جذبہ آزادی کو توڑ نہیں سکی اور وہ خود ان کی قوتِ ایمانی اور فکری و عملی صلابت کے سامنے سر نگوں ہوگیا۔ یہی حال برطانیہ کا ہوا۔ عراق و فلسطین اور مصر و سوڈان پرقابض رہتے ہوئے اپنے استعماری منصوبوں کو بروئے کار لاتا رہا اور آخر کار صہیونی ریاست کے قیام کا سب سے بڑا ذریعہ بنا۔ لیکن اس کے دور کا بھی خاتمہ ہوگیا اور آخری بار برطانیہ نے 1956 میں عدوانِ ثلاثی کے ذریعہ مصر کے سویز چینل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ مصر کے خلاف اس عدوان میں برطانیہ کے ساتھ فرانس اور اسرائیل بھی شامل تھا۔ لیکن اس میں انہیں پھر بھی کامیابی نہیں ملی اور مصر از سر نو ابنائے مصر کے پاس لوٹ آیا۔ اس کے بعد امریکہ کا دور مشرق وسطیٰ میں شروع ہوا اور وہ روزِ اول سے ہی صہیونی ایجنڈہ کا حامی ملک بنا رہا ہے۔ بلکہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ برطانیہ کے بعد سوویت یونین اور امریکہ دونوں نے مل کر اسرائیل کے قیام کو یقینی بنایا تھا اور جب اقوام متحدہ میں اسرائیل کو منظوری مل گئی تو انہی دونوں طاقتوں نے سب سے پہلے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا تھا۔ زمانہ ہوا کہ سوویت یونین ختم ہوا اور اسی کے ساتھ مشرق وسطیٰ پر اس کی پرچھائیاں تک زائل ہوگئیں۔ سوویت یونین کی وراثت کے بوجھ سے دبا ہوا ملک روس آج تک مشرق وسطی کی ریت میں اپنا قدم جمانے کی تاک میں لگا ہوا ہے لیکن یہاں جم پانا اس کے لئے مشکل معلوم ہو رہا ہے۔ اب واحد طاقت امریکہ ہے جس کی حمایت کی وجہ سے مغربی استعمار کا آخری قلعہ اسرائیل بچا ہوا ہے اور اس کو محفوظ رکھنے کے لئے ہر طرح کا تعاون صہیونی عناصر کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس عمل میں امریکہ کے تمام صدور یکساں طور پر شریک رہے ہیں۔

ڈونالڈ ٹرمپ بھی ان سے مختلف بالکل نہیں ہیں۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ وہ صہیونی نظریہ کے ساتھ دوسروں کے مقابلہ زیادہ ہمدردی رکھتے ہیں کیونکہ ان کی حمایت کرنے والوں میں ان تشدد پسند انجیلی عیسائیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو صہیونیوں کے نظریہ سے اتفاق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل میں امریکی سفیر کے طور پر ٹرمپ نے جس کا انتخاب کیا ہے وہ خود اسی یہودی عقیدہ پر ایمان رکھتی ہیں کہ پورے فلسطین پر یہودیوں کا حق ہے۔ اسی تناظر میں ڈونالڈ ٹرمپ کا وہ بیان بھی دیکھا جانا چاہئے جس میں انہوں نے اردن اور مصر کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو اپنی زمینوں میں بسا لیں۔ حالانکہ مصر و اردن دونوں نے فلسطین سے متعلق اپنے تاریخی موقف کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ٹرمپ کے اس بیان کو مسترد کرتے ہیں اور فلسطینی زمینوں کو ان کے باشندوں سے خالی کرانے کے ارادہ کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ اس خطہ کے تمام عرب ممالک نے بھی ٹرمپ کے بیان کو مسترد کیا ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا فلسطینی خود کبھی اس بات کے لئے راضی ہوں گے کہ وہ اپنی زمینوں سے دستبردار ہوجائیں؟ اس پہلو کو سمجھنے کے لئے اس حقیقت پر غور کرنا چاہئے کہ غزہ میں جنگ بندی معاہدہ کے نفاذ کے بعد شمالی غزہ کی طرف لوٹنے والی فلسطینی بھیڑ کا عالم یہ تھا کہ لوگ محور نتساریم پر رات بھر رکے رہے اور موسم کی شدت کو برداشت کیا کیونکہ اسرائیل نے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کے کھولنے میں تاخیر کی تھی۔

جب محور نتساریم کھل گیا تو قدم تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ بچے، بوڑھے، جوان اور مرد و خواتین سب کے سب جذبہ شوقِ زیارتِ بام و در میں اس قدر گم تھے کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ وہی قوم ہے جو ابھی ابھی جنگ کی شدت کو جھیل کر آ رہی ہے۔ وہ اپنے ان گھروں کو دیکھنا چاہ رہے تھے جن کو اسرائیل نے زمیں بوس کر دیا تھا۔ وہ اپنے شہداء کی قبروں کی زیارت کرنا چاہ رہے تھے جو راہِ دین و وطن میں قربان ہو چکے تھے اور ان زندگیوں کو تلاش کرنے کی دھن ان پر سوار تھی جو ملبوں کے نیچے دفن تھیں۔ وہ جانتے تھے کہ صرف کھنڈرات اور برباد گھر و آنگن ان کے منتظر ہیں لیکن پھر بھی ان کے ساتھ ان کا والہانہ لگاؤ یہ بتا رہا تھا کہ کوئی طاقت انہیں ان کی زمینوں سے الگ نہیں کر سکتی۔ کتنے ہی لوگ اس بات پر ندامت کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ جنگ کے دوران اپنے گھروں کو چھوڑ گئے اور شہید ہونے کو قبول نہیں کیا۔ وہ اس عزم کا اظہار کر رہے تھے کہ اب اگر ایسا ہوا تو وہ شہید ہونا پسند کریں گے لیکن اپنے گھر اور کھیت کھلیان کو پیچھے نہیں چھوڑیں گے۔ ان لوگوں نے اپنے مجاہدین اور مزاحمت کار نوجوانوں سے یہی سیکھا ہے کہ وہ آخری دم تک لڑیں گے اور اپنی ایک انچ زمین سے بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔

فلسطین کے مسلح مزاحمت کاروں نے بھی جنگ بندی کے فوراً بعد جس ڈسپلین اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے ان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسرائیلی بمباری نے ان پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالا۔ وہ ایک لمحہ کے لئے رنجیدہ اور نیم جان نظر نہیں آئے۔ اس کے برعکس اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کرنے کے مواقع سے لے کر صاف ستھری گاڑیوں کے ذریعہ انہیں صلیب احمر تک پہنچانے کے تمام مراحل نے اسرائیل کو حیران کر دیا ہے۔ اسرائیل نے غزہ پر جنگ کے آغاز کے وقت جو اہداف طے کئے تھے ان میں سے کوئی بھی ہدف اسرائیل حاصل کرنے میں ناکام رہا یہ ان کی سب سے بڑی شکست تھی۔ اس کے مقابلہ میں فلسطینی مزاحمت آج بھی تازہ دم، منظم اور حصولِ آزادی کے اپنے مقصد پر قائم ہے۔ اس کا پورا امکان ہے کہ جنگ بندی کے پہلے مرحلہ کے خاتمہ سے قبل ہی دوسرے مرحلہ کے لئے بات چیت شروع کی جائے گی اور نیتن یاہو اپنی تمام چال بازیوں کے باوجود اس کو روک نہیں پائیں گے۔

حماس کی سیاسی قیادت نے بھی اب تک بات چیت کے محاذ پر کوئی کمزوری نہیں دکھائی ہے اور اپنے اکثر مطالبوں کو منوانے میں کامیاب رہی ہے۔ اسرائیل کو اب اس کا خوب اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ اپنی فتح کا جھنڈا نہیں لہرا سکتا کیونکہ غزہ سے جو تصویریں سامنے آ رہی ہیں وہ اسرائیلی پروپیگنڈوں کی پول کھول رہی ہیں اور خود اسرائیلیوں کی نظر میں نیتن یاہو کی پالیسیوں کی ناکامی واضح کر رہی ہیں۔ اسی لئے وہ مظاہروں اور بیانات کے ذریعہ امریکہ کو بھی یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ نیتن یاہو کے جھانسہ میں نہ آئیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نیتن یاہو کی ٹرمپ سے جب ملاقات ہوتی ہے تو ان باتوں کا ان پر کتنا اثر پڑتا ہے۔ ٹرمپ کے لئے بہتر یہی ہوگا کہ وہ اپنے گھر میں لگی آگ بجھائیں اور ان باتوں پر عمل کریں جن کا مشورہ انہیں چرچ میں مذہبی رہنما نے دیا تھا۔ اگر وہ امریکہ کو واقعی عظیم بنانا چاہتے ہیں تو انہیں امریکہ کی تاریخی غلطی کو درست کرتے ہوئے اہل فلسطین کے جائز حقوق کو قبول کرنا چاہئے اور اسرائیل پر دباؤ ڈال کر اسے ایک آزاد فلسطینی ریاست کی قبولیت پر آمادہ کرنا چاہئے۔ امریکہ کی عظمت کا راز اس میں پوشیدہ ہے کہ وہ کمزور قوموں کے جائز مطالبوں کو قبول کرے اور ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

قومیں اور ممالک ظلم سے نہیں انصاف سے عظیم بنتے ہیں۔ اہل فلسطین کو ان کی زمینوں سے نکالنے کی کوشش اگر کی گئی تو اس کا راستہ قتل عام اور نسل کشی سے ہوکر گزرے گا۔ کیا امریکہ اس عمل میں صہیونیوں کے ساتھ جانا پسند کرے گا؟ کیا اس سے امریکہ کی عظمت کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر ہوپائے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر ٹرمپ کو غور کرنا چاہئے اور غیر جانب داری کے ساتھ مسئلہ فلسطین کے جائز حل کے لئے کوشش کرنی چاہئے تاکہ تاریخ انہیں ایک سیمابی شخصیت کے بجائے ایک تاریخ ساز لیڈر کے طور پر یاد رکھے۔ انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مغربی استعمار کا دور اب ختم ہوچکا ہے۔ اگر الجزائر سے لے کر افغانستان تک کے لوگ لڑے ہیں اور جیتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ دیر یا سویر فلسطینی مزاحمت کو اپنے مقصد میں کامیابی نہیں ملے گی۔ تاریخ کے اس سبق کو یاد رکھنا اسرائیل اور امریکہ دونوں کے لئے مفید ہوگا۔

(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS