اقتدار، سیاست اور سوشلزم

0

پریم پرکاش

گزشتہ ایک دہائی میں ہندوستان میں کئی تبدیلیاں ایک ساتھ ہوئی ہیں۔ ان دس برسوں میں جہاں ایک خاص نظریہ کی حکومت مسلسل تیسری مرتبہ منتخب ہوکر مرکز میں آئی، وہیں تاریخ کے حوالہ سے ہمارے نظریہ کا کمپاس بھی خاصا گھوم گیا۔ لیکن ان تمام تبدیلیوں کے درمیان کچھ خاص اسباق اور آزادی کے بعد کی ہندوستانی سماجی-سیاسی فکر کی ایک بڑی کامیابی مسلسل بحث کے دائرہ سے باہر بھی ہوتی گئی ہے۔ وراثت اور سیاست کی مشترکہ چہل قدمی کے قلعہ میں غوروفکر اور ترقی کا جو محور خاص طور پر چھوٹ گیا ہے، وہ ہے ملک میں سوشلسٹ سوچ اور نظریہ کی سیاست۔ مورخ اور اپنے کالم سے مسلسل چرچہ میں رہنے والے رام چندر گوہا نے اس جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔

گوہاکہتے ہیں کہ فکر کے میدان میں اچانک کود پڑے غافل افراد کو بھلے لگتا ہو کہ ملک میں سوشلسٹ روایت آج بستر مرگ پر ہے۔ لیکن یہ وقت اور فکر کی متحرک شراکت کونہ دیکھ-پرکھ پانے کی تنگ نظری ہے۔ حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ سوشلسٹ فکر اور روایت کا پھیلاؤ اب پہلے کے جیسا نہیں ہے، لیکن یہ آج بھی ہندوستانی سیاست میں سب سے بڑی اخلاقی اور تخلیقی موجودگی کے طور پر برقرار ہے۔ اس سلسلے میں نظریاتی وابستگی کے ساتھ کی ہونے والی تاریخ لکھنے پر بھی تجربہ اور تدبر سے بحث کی جانی چاہیے۔ خود گوہا اس بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کانگریس، کمیونسٹ، علاقائی پارٹیاں، امبیڈکرائٹ اور خاص طور پر حالیہ برسوں میں جن سنگھ اور بی جے پی، سبھی کے پاس اپنے تاریخ دانوں اور حصولیابیوں پر فخر کرنے والوںکی اپنی اپنی فوجیں ہیں۔ لیکن سوشلسٹ کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ سوشلسٹ کے نظریاتی اظہار کی طرح، تاریخ لکھنے کے ان کے نقطہ نظر اور تخلیقی کاموں کو متوقع آرکائیو ویلیو نہیں ملی۔

تاہم، موجودہ وقت ہندوستانی سیاست کو مضبوط بنانے میں سوشلسٹ کے کردار کو نشان زد کرنے کے لحاظ سے کافی موزوں ہے۔ یہ بھی کہ سوشلسٹ اسٹریم کے سرکردہ نمائندوں میں سے ایک مدھو دنڈوتے کی پیدائش کا صد سالہ سال ہے۔ اتفاق کی اگلی کڑی کی بات کریں تو دہلی کے بعد ہونے والا بہار اسمبلی الیکشن بہت معنی رکھتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ گزشتہ کم ازکم چار دہائیوں میں ملک میں سیاست اور اقتدار کی تبدیلی کے جتنے بھی اُلٹ پھیر ہوئے ہیںاس کا مرکز یا تو بہار رہا ہے، یا پھر اس کے سیاسی ذرائع یہاں سے جڑے رہے ہیں۔ غیر کانگریسی سیاسی متبادل سے لے کر ایمرجنسی کے دور میں جمہوریت کے تحفظ اور پھر ریزرویشن کی سیاسی لڑائی تک بہار ملک کی سیاست کا ستون رہا ہے۔ اس لیے ملک میں رائج سیاسی محاورے میں اکثر بہار کو سیاسی تجربات کی سرزمین بھی کہا جاتا رہا ہے۔

بات سوشلزم کی کریں تو بہار اس نظریے کو سب سے زیادہ سپورٹ کرنے والی ریاست ہے۔ یہ اپنے آپ میں بدقسمتی ہے کہ میڈیا اور اظہار کے اس ڈیجیٹل دور میں بہار کی اس خاصیت اور انفرادیت پر چرچہ نہ کے برابر ہے اور نتیش کمار کی قیادت میں وہاں دو دہائیوں سے سیاسی استحکام ہی نہیں، بلکہ سوشلسٹ نظریے اور اخلاقیات کی مضبوط روایت بھی اقتدار کے توازن کو برقرار رکھتی رہی ہے۔ بہار کے موجودہ وزیراعلیٰ کی سیاسی جانچ کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم سوشلسٹ نظریہ کے ماخذ کے ساتھ بہار کے ساتھ اس کے تعلق کو بھی تاریخی طور پر دیکھیں اور سمجھیں۔ آج لوگوں کو یہ بات یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ اشوک مہتا، مینو مسانی، مدھو لمئے، جارج فرنانڈس سے لے کر شرد یادو تک کسی کی پیدائش بہار میں نہیں ہوئی ہے۔ لیکن بہار کے عوام نے سوشلسٹ تحریک کے ان قدآوروں کو پارلیمنٹ تک پہنچایا۔

یہ اس ریاست کی سیاسی یا جمہوری تفہیم کی ایک ایسی مثال ہے جو آج اس ریاست کی پہچان سے متعلق بہت سے تعصبات کو نہ صرف نکارتی ہے بلکہ ایک نئے زاویے سے اسے دیکھنے کی ضرورت پیش کرتی ہے۔
بہار کی تجرباتی سرزمین ایک بار پھر نئے سیاسی تجربے کے حوالہ سے چرچہ میں ہے۔ دلچسپ ہے کہ اس بار یہ تجربہ گاندھی کے نام پر کیا جا رہا ہے، ستیہ گرہ کی شکل میں دیے گئے عدم تشدد کی جدوجہد کے فارمولے کے ساتھ ہورہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ گاندھی کے بعد ان کے راستہ کو براہ راست انتخابی سیاست میں آزمانے کا کوئی سیاسی جماعت دعویٰ کر رہی ہے۔ بہار میں جن سوراج پارٹی اور اس کے معمار پرشانت کشور بھی ایسا ہی دعویٰ کررہے ہیں۔ اس دعوے کی سچائی تو آئندہ اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد ہی واضح ہوگی لیکن اخلاقی، نظریاتی اور حقیقتاً اس سیاسی تجربے کے بارے میں کچھ باتیں تو ابھی سے سمجھنے کی ہیں۔ جس نتیش کمار کی رہائش گاہ اور پارٹی کے ساتھ رہ کر پرشانت کشور نے بہار کی موجودہ سیاست کی نوعیت دیکھی اور سمجھی۔ آج وہ اس سے یہ کہتے ہوئے دوری اختیار کررہے ہیں کہ ان کا یہ ساتھ انتخابی حکمت عملی کے طور پر تھا۔اچھا ہے کہ لوگوں میں ان کی شبیہ ایک سیاسی پنڈت یا حکمت عملی بنانے والے کی ہے۔ ورنہ یہ سمجھنے میں غلطی ہوتی کہ پد یاترا اور ستیہ گرہ کا راستہ گاندھی کی عدم تشدد کی جدوجہد کا تو راستہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ صرف اقتدار تک پہنچنے کا شارٹ کٹ نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ان دنوں اسی شارٹ کٹ پر یقین کر رہے ہیں۔

آج بہار کی راجدھانی میں گنگا کے کنارے جن سوراجیوں کا پورا گروہ ستیہ گرہ کی بات کہتے ہوئے خیمہ اور شامیانے کے ساتھ کیمپ کررہا ہے۔اس دوران ہر دوسرے تیسرے دن ان کی طرف سے کوئی بڑا اعلان کیا جا رہا ہے۔ اس پورے واقعہ کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھنے پر کچھ سوال فطری طور پراٹھتے ہیں۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ تاریخ کے کسی بڑے تجربے کو ایک طویل عرصے کے بعد کیا پھر سے اسی اثر کے ساتھ دوبارہ تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ آرٹ کی زبان میں جس ریپلکا کی بات ہوتی ہے، وہ ایک بڑے فنکارانہ تجربے کی عین نقل ہوتی ہے، لیکن فنکاری کے سامنے اس کی فنکارانہ قدر بہت کم سمجھی جاتی ہے۔ عام طور پر تاریخ کے بڑے واقعات کے بارے میں بھی ایسا ہی سمجھا جاتا ہے کہ ان کی یاد اور الہام کو زندہ رکھنے کے لیے ہم بھلے جو بھی کریں۔لیکن اس کی شکل اور اثر کو نقل کرنا مشکل ہے۔

درحقیقت سیاست کو انتخابی اسٹنٹ بنادینے والے ماہرین آج کچھ کریں یا نہ کریں، بہار کی سیاسی وراثت اور شناخت کے ساتھ ضرور کھیل رہے ہیں۔ بہار کی سیاست سے جڑی سماجوادی وراثت کو روند کر نہ تو نظام میں تبدیلی لانا ممکن ہے اور نہ ہی اس سماجوادی وراثت اور قیادت کو نظر انداز کرنا ممکن ہے جس کے ایک سرے پر کھڑے ہو کر نتیش کمار گزشتہ دو دہائیوں سے بہار میں اقتدار کی سیاست میں توازن قائم کر رہے ہیں۔ دراصل عہدہ اور عہدے سے استعفیٰ دے کر مزاحمت کی سیاست کی سوشلسٹ وراثت کو نظرانداز کرنا ہندوستان کی بھرپور سیاسی روایت کی توہین تو ہے ہی، یہ بہار کی سیاسی شناخت کے ساتھ بھی کھلواڑ ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS