عورت: دنیا میں رنگینی اور توازن کا باعث : پروفیسر اسلم جمشید پوری

0

پروفیسر اسلم جمشید پوری

ذرا دیر کو سو چئے اگر عورت نہ ہو تو یہ دنیا کیسی ہوگی؟نہ شادی ہوگی،نہ ماں جیسی عظیم ہستی کا وجود ہو گا۔ہر رشتہ مذاق بن کر رہ جائے گا۔اس جہان کا کیا بنے گا؟جب بی حوا ہی نہ ہوں گی تو آدمؑ کی تنہائی کا کیا ہوگا؟ میاں-بیوی، چاچا-چاچی، بہن-بہنوئی، بھیا-بھابھی، نانا- نانی، دادا- دادی، خالہ-خالو، پھوپھا-پھوپھی وغیرہ رشتے نہ ہوںگے۔ ہر طرف صرف مرد ہی مرد نظر آئیں گے۔چہار جانب بے رونقی اور بد مزگی ہوگی،نہ مرنے کا لطف ہوگا اور نہ جینے کی خواہش۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا عورت کے بغیر جتنی بے رونق اور بے رنگ ہے،اتنی ہی مرد کے بغیر بھی ادھوری ہے۔مرد و زن دونوں مل کر اس جہان کو بارونق بناتے ہیں۔دونوں ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں۔ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔خدا نے بھی آدمؑ کو پیدا کیا تو بی حوا کو بھی پیدا کیا تاکہ کائنات میں حسن( رنگینی )بھی ہو اور توازن بھی۔

پرانے زمانے میں عورت کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں تھی۔جاہلیت کا ایسا عہد تھا کہ لڑکیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے۔انہیں یہ ڈرتھا کہ بڑی ہو کر یہ لڑکی ہماری بدنامی کا سبب بنے گی۔ یہ تو اسلام کے آنے کے بعد عورتوں کو سماج میں ایک مقام ملا۔حضرت محمدمصطفیؐ نے اسلام میں خواتین کو اہم مقام دیا۔ عورتوں کو بیوی بنا کر اس کے حقوق دیے گئے۔ رشتوں کا احترام کیا جانے لگا۔پہلے خواتین مساجد میں نماز ادا کرتی تھیں،پردے کا حکم آیا تو سب نے اسے اپنایا۔ جائیداد،ورثہ اور ترکہ میں عورتوں کو بھی ان کا حق اسلام نے طے کیا۔

آج کیا ہو رہا ہے؟ آزادی کے نام پر فحاشی۔مردوں نے عورت کو ایک کھلونا سمجھ رکھا ہے بس۔اس ترقی یافتہ دور میں بھی عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہو تا۔یہ بھی ٹھیک ہے کہ آج کی عورت پہلے سے بہت بہتر،آزاد،بولڈ اور مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے لائق ہوگئی ہے۔ بینک کی سی او،،کمپنیز کی سی ایم ڈی، ضلع کمشنر،ڈی ایم،جسٹس،چیف جسٹس،مارکیٹنگ کی باس،ایم ایل اے،ایم پی،سی ایم،پی ایم،ملک کی صدر سے لے کر آج خواتین ہر جگہ نظر آتی ہیں۔ رانی لکشمی بائی، بیگم حضرت محل، بی اماں، سروجنی نائیڈو، اندرا گاندھی، مدرٹریسا، ارونا آصف علی،قرۃ العین حیدر، پرتبھا سنگھ پاٹل، دروپدی مرمو،جے للتا، ممتابنرجی، مایاوتی، رابڑی دیوی، شیلا دیکشت، سشما سوراج، کلپنا چائولہ، سنیتا ولیم،فاطمہ بی بی،بیلا ترویدی،بی وی ناگرتھنا وغیرہ نے اپنے اپنے میدان میںاعلیٰ مقام تک پہنچنے اور ملک کانام روشن کرنے کا کام کیا۔پڑو سی ممالک میں شیخ حسینہ،خالدہ ضیا،بے نظیر بھٹو،چندر یکا کمارا تنگا،،آنگ سانگ سوکی، ملالہ یوسف زئی کو کون نہیں جانتا۔ان خواتین نے عوام کیلئے جوخدمات انجام دیں، وہ سب جانتے ہیں۔ مریم، حضرت فاطمہ، رابعہ بصری اور بزرگان ِ دین کی مائوں نے مذہب کی جو خدمتیں کی ہیں،ان سے سب واقف ہیں۔ مگر آج بھی عورت محفوظ نہیں۔عورت کی عظمت میں سیکڑوں فلمیں بنی ہیںاور گانے لکھے جا چکے ہیں۔مگر ہماری ذہنیت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔آج بھی مرد اساس سماج میں خواتین کو اس عزت و احترام کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا،جس کی وہ حقدار ہیں۔

ہمارے شاعروں نے بے شمار اشعار عورت کے حسن اور ان کے استحصال پر لکھے ہیں۔بلکہ غزل میں رومانی شعر ہو جاتا ہے تو اسے تغزل کے شعرسے موسوم کیا جا تا ہے۔مگر آج بھی بہت سے لوگ عورتوں کا استعمال صرف جنسی خواہشات کے لیے کرتے ہیں۔ آئے دن عورتوں کی عصمت دری کے واقعات اخبار کی سر خیاں بنتے رہتے ہیں۔ دفاتر میں عورت کی عزت محفوظ نہیں۔ایک طرف ان کی عزت خراب ہوتی ہے،دوسری طرف آنر کلنگ میں بھی عورتوں کا بے رحمی سے اپنوں کے ذریعہ قتل ہو تا ہے۔یہ سب کیا ہے ؟

اسلام نے عورت کو عزت دی،مقام دیا اور شرم و حیا کا پابند بنا یا۔قرآن میں عورتوں کے متعلق متعدد بار ذکر آیا ہے۔سورہ نسا ء میں قرآن کریم میں اللہ فرماتا ہے:
’’ اے ایمان والو! اپنے پرور دگار سے ڈرو،جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی اور دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں(دنیا میں ) پھیلا دیے۔‘‘

[تو ضیح القرآن : سورہ نساء،آیت ١،تفسیر و ترجمہ،محمد تقی عثمانی،ص-226،جلد اول،مطبوعہ دیو بند،2011]
اللہ نے سب کو پیدا کیا۔سب کے رنگ، سائز،ہئیت اور صورتیںالگ الگ بنائیں۔مرد کو عورت پہ کچھ فوقیت دی۔ اللہ کے رسول محمدمصطفیؐ نے عورتوں کی عزت و توقیر میں اضافہ کیا۔جب پردے کا اللہ کی طرف سے حکم آیا تو عورتیں پردہ کرنے لگیں۔ آج پوری دنیا میں عورتوں کو استحصال کا شکار ہونا پڑ رہا ہے۔ہندوستان کی بات کی جائے تو ’’نربھیا‘‘ معاملہ اور اب بنگال کے ایک میڈیکل کالج کی طالبہ کے ساتھ جو درد ناک بدفعلی اور مرڈر کا معاملہ ہوا ہے، وہ لائقِ مذمت تو ہے ہی،ساتھ ہی مجرمین کو سخت ترین سزا دیے جانے کا بھی ہے۔ ابھی تک مرکزی سر کار نے کسی سخت ترین سزا کا بل پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا ہے۔اسلام میں زانی کی سزا انتہائی سخت ہے، تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی عبرت ہو اور کوئی بھی ایسا جرم کرنے سے پہلے سو بار سوچے۔ایسے معاملات پورے ہندوستان میں ہر روز ہوتے ہیں۔لیکن ان پر کوئی بڑا ہنگامہ نہیں ہوتا۔بنگال معاملے کو طول دینا بھی اس معاملے پر سیاست ہے۔خود میرٹھ میں کچھ دن پہلے ایک حیوان نے دو تین سال کی بچی کے ساتھ منھ کالا کیا۔ہندوستان میں ایسے درندوں کی کمی نہیں۔ایسے زانیوں کے لیے ملک گیر ایک قانون بنے جس میں ایک تو ضمانت نہ ہو،دوسرے فاسٹ ٹریک کورٹ کے ذریعہ پندرہ بیس دن میں مقدمے کا فیصلہ ہوجائے۔ مجرم کو سزائے موت جیسی سزا ملنی چاہیے۔

اس معاملے میں اسلام بہت سخت ہے۔اسلام میں پیغمبراسلام کی بیویوں کو بھی بے ہودہ بات تک کی اجازت نہیں، اس کے ارتکاب پر انہیں دوگنا عذاب ہے۔ ایک طرف ہم اتنے ماڈرن اور مغرب کے فیشن کے دلدادہ ہوتے جا رہے ہیں کہ ہم فیمینزم کو پڑھ ہی نہیں رہے بلکہ اسے اپنا بھی رہے ہیں۔فیمینزم میں بہت سے لوگ فحاشی کو آزادی سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔یہاں عورتیں،جنسیت، لو اِن رِلیشن شپ،می ٹو، ہنی ٹریپ سے بھی آگے بڑھ کر ’’ میرا جسم میری مرضی ‘‘ تک آگئی ہیں۔یہ سب ہندوستانی سماج میں جائز نہیں۔لڑکیوں سے لڑکیوں کی شادی بھی اس معاشرے کو گندگی کی طرف دھکیل رہی ہے۔

بلو فلمیں،پورن سائٹس بھی معاشرے کو خراب اور گندہ کر نے کی ذمہ دار ہیں۔انٹر نیٹ کا غلط استعمال نوجوانوں کو بر باد کر رہا ہے۔جو وقت ان کو اپنے کریئر بنانے میں لگا نا چاہیے،وہ وقت گندی سائٹیں اور فلمیں دیکھنے میں لگا رہے ہیں۔اس طرح ہماری ایک قیمتی نسل تباہ و برباد ہو رہی ہے۔ اگر والدین نے اپنے جوان ہوتے بچوں پر توجہ نہ کی تو ان کی تباہی طے ہے۔ہم نوجوان بچوں کو ایک تو پڑھائی کے وقت موبائل نہ دیں۔دوسرے موبائل کا استعمال تنہائی میں نہ ہو۔تیسرے موبائل سے پڑھنے کا مواد ہی ڈائون لوڈ کیا جائے،گیم وغیرہ نہ کھیلیں۔

ہندوستان میں زنا جیسے سنگین جرم کو روکنے کے لیے ہم سب کو آگے آنا ہو گا۔ہمیں صرف سرکار ،پولیس یاعدالتوں کا انتظار ہی نہیں کر نا ہوگا بلکہ ایسے مجرم کا سماجی بائیکاٹ بھی ہو۔خواہ وہ کسی کا بیٹا ہو،بھائی ہو یا رشتہ دار۔رسوخ دار ہو یا رشوت کے بل پر ضمانت پانے والا۔ ہمیں نڈر ہو کر سب کے خلاف سماجی بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ دوسرے اپنی بچیوں کی خود حفاظت کرنی ہوگی۔بیٹیاں گھر اور سماج کی عزت ہوتی ہیں۔ بیٹیوںکو تعلیم کے زیور سے ضرور آراستہ کریں،مگر باریک اور مختصر لباس زیب تن کر نے سے منع کریںاور انہیں پڑھنے وہیں بھیجیں جہاں کا ماحول اسلامی ہو،محفوظ ہو، کوشش کریں کہ ایسی درس گاہیں تلاش کریں جن میں مخلوط تعلیم نہ ہو۔ ان کا لباس بھی بھڑکائو نہ ہو، نہ ہی ہماری لڑکیاں مغرب کے فیشن میںملوث ہو جائیں۔ اسلام کہتا ہے کہ جب لڑکے یا لڑکیاں سن بلوغ کو پہنچ جائیں،ان کے نکاح کر دیں۔اس سے معاشرے کی برائیاں بہت حد تک کم ہو جائیں گی اور ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر و تشکیل ہوگی۔ ساتھ ہی عورت کی عزت میں بھی اضافہ ہوگا۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS