شاہد زبیری
بی جے پی کے ایجنڈے میں رام مندر کی تعمیر ،جموںو کشمیر سے 370کا خاتمہ اور ملک بھر میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ سرِ فہرست رہاہے۔ رام مندر کی تعمیر اور جموںو کشمیر سے 370کے خاتمہ کا تمغہ بی جے پی اپنے سینہ پر آویزاں کر چکی ہے جس وقت قارئین کے ہاتھوں میں اخبار ہوگا۔ اترا کھنڈ کی بی جے پی سرکار اقلیتوں خاص کر مسلم اقلیت کی ناراضگی کی پروا کئے بغیر یکساں سول کوڈ کونافذ کر چکی ہوگی۔یکساں سول کوڈ کے موضوع پر ہم ان کالموں میں اس سے پہلے بھی لکھ چکے ہیںکہ مسلم اقلیّت اس کو آئین میں دئے گئے مذہبی حقوق پر حملہ اور شریعت میں مداخلت مانتی ہے لیکن اترا کھنڈ سرکار نے اس کی پروا نہیں کی۔ یکساں سول کوڈ کی خامیوں پر نظر رکھنے والو ںکے اندیشوں اور سماجی تانے بانے کو ہونے والے نقصانات کو بھی وہ خاطر میں نہیں لائی اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی ضد پوری کر کے رہی۔ 2022 کے اترا کھنڈ کے اسمبلی انتخابات کے دوران اس وقت کے وزیر اعلیٰ جو آج بھی وزیر اعلیٰ ہیں پشکر دھامی نے اپنی انتخابی دوران کہا تھا کہ اگر وہ دوبار اقتدار میں آئے تو اترا کھنڈ میں یکساں سول کو ڈ ہر حال میں نافذ کریں گے اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔
انہوں نے اس کے نفاذ کیلئے اقلیتوں کو اعتماد میں لینابھی ضروری نہیں سمجھا جن کو یہ خدشہ ہے کہ اس سے ان کے عائلی قوانین پر زور پڑے گی اور آئین میں دئے گئے ان کے حقوق پامال ہوں گے۔ پشکر دھامی کی سرکارنے یکساں سول کوڈ کو اپنی ترجیحات میں سرِ فہرست رکھا اور 27مئی2022 کو سپریم کورٹ کی ایک ریٹائرڈ جسٹس رنجنا پرکاش ڈیسائی کی قیادت میں 5رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ۔ کمیٹی نے 13ماہ بعد اپنی رپورٹ سرکار کو پیش کردی جس کے بعد 7فروری 2024 کو یکساں سول کوڈ قانون پر اتراکھنڈ اسمبلی نے اپنی مہر لگائی اور 12مارچ کو اس قانون کا گزٹ نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا گیااور وزیر اعظم نریندر مودی کی آمد 28جنوری سے ایک دن پہلے یعنی27جنوری 2025کی تاریخ کو نفاذ کیلئے طے کردی تاکہ ان کے اس قدم کو قومی سطح پر زیادہ اہمیت ملنے کے امکان روشن رہیں ۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کو مسلمان شریعت میں مداخلت تصور کرتے ہیں۔یہ عام مؤقف ہے جو شروع سے مسلمانوں کا رہا ہے۔اسی لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ و دیگر ملّی تنظیمیں جو بورڈ میں شامل ہیں جمعیۃ علماء ہند ،جماعتِ اسلامی اور ملّی کونسل اور شیعہ مسلمانوں سمیت تمام مکاتبِ فکر اور مسالک کے مسلمان اس کی مخالفت کرتے آرہے ہیں لیکن نقّار خانہ میں طوطی کی صدا کون سنتا ہے۔ پشکر دھامی کی بی جے پی سرکار نے بھی نہیں سنی اور اس نے ملک کی ایسی پہلی ریاست کا کریڈٹ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے ۔
ایک زمانہ میں جب شیوراج سنگھ چوہان مدھیہ پردیش کے وزیرِ اعلیٰ تھے انہوں نے چھاتی ٹھوک کر کہا تھا کہ وہ جلد ہی اپنے صوبہ میں یکساں سول کوڈ نافذ کریں گے لیکن ان کی کرسی ہی چھن گئی، اس لئے وہ اپنی اس دیرینہ خواہش کی تکمیل نہیں کرپائے ایسا ہی دعویٰ آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا نے بھی کیا تھا لیکن وزیرِ اعلیٰ پشکر دھامی بازی مار گئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب اور کون کون سے صوبوں کی بی جے پی سرکاریںاپنے صوبوں میں یکساں سول کوڈ نافذ کریں گی، لیکن اترا کھنڈ سرکار کا نافذ کیا گیا یہ یکساں سول کوڈ آخرکیسا سول کوڈ ہے جس میں ہندو میرج ایکٹ اور قبائل کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، نشانہ صرف اقلیتوں پر سادھا گیا ہے جس کا اثر مسلم اقلیت کے عائلی قوانین کے علاوہ اتراکھنڈ کی سکھ اقلیت اور عیسائی اقلیّت کے عائلی قوا نین پر بھی پڑنا لازمی ہے چونکہ سکھ اقلیت کی شادی بیاہ ہندو میرج ایکٹ کے تحت نہیں بلکہ آنند میرج ایکٹ کے تحت ہوتی ہے ۔اترا کھنڈ کا یکساں سول کوڈ رواجی قوانین کو بھی متاثر کرے گا ہر چند کہ قبائل کو اسی بنیاد پر یکساں سول کے دائرہ سے باہر رکھا گیا لیکن پہاڑی علاقوں میں جس میں اترا کھنڈ کے پہاڑی علاقے بھی شامل ہیں ان میں ایک وقت میں ایک سے زائد مردوں کے ساتھ شادی کا رواج چلا آرہا ہے کیا ان رواجی قوانین کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے؟
بی جے پی یاوہ جماعتیں اور دانشور آئین ہند کے رہنما اصول کے تحت آرٹیکل 44 کا حوالہ دیکر یکساں سول کوڈ کی وکالت کرتے ہیں وہ صرف یکساں سول کوڈ تک محدود نہیںہے اس میں دیگر باتوں کے علاوہ پورے ملک میںشراب پر مکمل پابندی بھی شامل ہے، آخر اس آرٹیکل کے پیشِ نظر ہماری مرکزی سرکار اور صوبائی سرکاروں نے شراب پر مکمل پابند ی کیلئے اب تک کتنی کوششیں کی ہیں؟۔بات صرف اتنی ہی نہیں ہندوستان جیسے کثیر مذاہب و ادیان،کثیر ثقافتی، کثیر تہذیبی اورمتنوع ملک میں اگر یہ قابلِ عمل ہوتا تو خود مودی سرکار کے لاء کمیشن کے سابق چیئر مین اور سابق چیف جسٹس بی ایس چوہان 2018میں اپنی آخری رپورٹ میں یہ کیوں کہتے کہ ہندوستان میں یکساں سول کوڈ نا ممکن عمل ہے۔ ماہرِ قوانین کی نظر میںیکساں سول کوڈ ہندوستان میں اس لئے بھی نا ممکن عمل ہے کیونکہ یہ قانون ہمارے ملک کی شمال مشرقی ریاستوں آسام، میگھالیہ ، تریپورہ اور ناگالینڈ کے رواجی قوانین سے متصادم ہوتا ہے۔مشرقی ریاستوں کے رواجی قوانین کی اہمیت یہ ہے کہ ان ریاستوں کے ہائی کورٹوں کا جج بننے کیلئے ان ریاستوںکے رواجی قوانین کے امتحان کو پاس کرنا لازمی ہے۔
پہاڑی علاقوں کے ہندئووں میں ایک سے زائد مردوں سے شادی بہو پتی شادی کے رواجی قوانین کے علاوہ کیرالہ کے نائر ہندو فرقہ میں حقیقی ماموں سے بھانجی کی شادی کا رواجی قانون ہے ۔یہ سب حقائق مرکزی لاء کمیشن کے سربراہ کے پیش نظر رہے ہوں گے اسی لئے 2018میں لاء کمیشن نے اس کو ملک میں ناممکن عمل قرار دیا اس کے بعد ان چند سالوں میں ایسا کیا بدل گیا کہ پشکر دھامی سرکار نے اترا کھنڈ میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کردیا اور کیا اب مودی سرکار پورے ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے والی ہے ؟ کیا یکساں سول کوڈ کے ملک بھر میں نفاذ کے بعد جوائنٹ ہندو فیملی کو انکم ٹیکس سے ملنے والی چھوٹ باقی رہے گی اس کا جواب تو مودی سرکار اور بی جے پی ہی دے سکتی ہے ۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ سنگھ پریوار ہو یا بی جے پی سرکاریں بشمول مرکزی سرکار یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے باز آنے والی نہیں ہیں یہ ایشو ان کے ایجنڈے میں شامل ہے اور اس کا آغاز اترا کھنڈ سے ہو گیا ہے ۔ سوال صرف ہندوستانی مسلم اقلیت کا نہیں دنیا کے ایک سے زائد ممالک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا تجر بہ ناکام ہو چکا ہے جن میں سابق یو ایس ایس آر ،یو گو سلاویہ اور تو اور ہندو ملک کہلانے والا پڑوسی ملک ماریشش بھی شامل ہے۔ماریشش میں 1976میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کیا گیا اور محض دوسال بعد 1978میں یکساں سول کوڈ کے ناکام تجربہ کے بعد اس کو ختم کردیا گیا ۔ اترا کھنڈ میں یکساں سول کوڈ کا تجربہ کتنا کامیاب رہتا ہے سب کی نظریں اس پر رہیں گی اور مودی سرکار بھی اس تجربہ کی روشنی ہی میں آئندہ اس مسئلہ پر کوئی حکمتِ عملی اختیار کرے گی اور کوئی پیش رفت کرے گی اس کو اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کی ناراضگی کی نہ اس ے پہلے پرواہ تھی اور نہ آج ہے وہ اپنے سیاسی مفادات کے تحت اور اپنے ہندو ووٹ بینک کی خوشی اور ناخوشی کو سامنے رکھ کراپنے فیصلے لیتی ہے ۔
سرکارنے چاہا جموںو کشمیر سے 370ختم کردی ، بیک وقت تین طلاق (طلاقہ ثلاثہ) پر پابندی لگادی اور مسلم پرسنل لاء بورڈ یا مسلمانوں کی ناراضگی کی پرواہ نہیںکی ۔سرکار نے چاہا وقف ترمیمی بل تھوپ دیااس پر انڈیا محاذ میں شامل جماعتوں اور مسلم جماعتوںکے ردِّ عمل کو دیکھتے ہوئے ضرور اس کو جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو سونپا گیا۔ اس کمیٹی کے چیئر مین نے 24 جنوری کو کمیٹی کی میٹنگ میں 10معزز ارکان کے اختلاف کرنے اور بولنے کے حق تسلیم نہ کرتے ہوئے غیر جمہوری طور پر سب کو ایک دن کیلئے معطل کردیا اب تک تو پارلیمنٹ میں مودی سرکا ر اپنے مخالف ممبرانِ پارلیمنٹ کو ہائوس سے باہر کرتی آئی ہے اب سرکار کی بنائی ہوئی کمیٹی نے بھی ایسا ہی کر دکھا یا۔ وقف ترمیمی بل کا مسئلہ ہو یا اترا کھنڈ میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ دیکھنا یہ ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ ا ن حساس ایشوز پر مسلمانوں کی کیا رہنمائی کرتا ہے اور عملی طور کیا قدم اٹھا تا ہے۔ عام مسلمانوں کو خاص طور پر اترا کھنڈ کے مسلمانوں کو مسئلہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے میڈیا کے روبرو یا عام طور پرجذبات سے کام لینے اور کسی غیر ضروری ردِّ عمل سے بچنا چاہئے اور صبر وتحمل سے کام لینا چاہئے ۔