پنکج چترویدی
صرف ہندوستان ہی نہیں، بنگلہ دیش اور بھوٹان بھی جب اس بات کیلئے فکرمند تھے کہ چین، تبت کے اس حصے میں دنیا کا سب سے بڑا ہائیڈرپاور پروجیکٹ شروع کر رہا ہے، جو زلزلوں کے حوالے سے انتہائی حساس ہے اور ایسی جگہ پر تعمیر کیے گئے بڑے ڈیم کبھی بھی پورے جنوب ایشیا میں تباہی مچا سکتے ہیں، اس سال کے پہلے ہفتے میں ہی تبت کی زمین کانپ اٹھی تھی۔ ریکٹر اسکیل پر 6.8 سے لے کر 7.1 کی شدت کے تین جھٹکوں نے تقریباً 200 افراد کی جان لے لی اور بڑا علاقہ تباہ ہو گیا۔ چین کا مجوزہ پروجیکٹ اسی علاقے میں ہے۔ چین کا یہ ڈیم آبی تحفظ، ماحولیاتی توازن اور علاقائی تعلقات کے حوالے سے بہت سے خدشات کو جنم دے رہا ہے۔ دریائے برہم پتر ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں کے لیے لائف لائن ہے، جو آبپاشی، پینے کے پانی اور پن بجلی کی پیداوار کے لیے درکار پانی فراہم کرتا ہے۔ دریا کے قدرتی بہاؤ میں کوئی بھی اہم تبدیلی پانی کی دستیابی کو خطرہ میں ڈال سکتی ہے، خاص طور پر خشک موسم میں۔ یہ خدشہ ہے کہ ڈیم دریا کے بہاؤ پرچین کو اسٹرٹیجک کنٹرول دے گا، جس سے کشیدگی کے وہ وقت دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہوسکتا ہے۔
یہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ دریائے یارلُنگ جانگبو، یعنی برہم پتر کا تبتی نام، کے نچلے حصے میں ہمالیہ کی ایک وسیع وادی بنائی جائے گی۔ یارلنگ جانگبو یا برہم پتر ڈیم چین کے14 ویں پانچ سالہ منصوبے (2021-2025) اور قومی اقتصادی اور سماجی ترقی اور سال 2035 تک کے طویل مدتی مقاصد کا حصہ تھا، جسے 2020 میں حکمراں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کو ایک اہم پالیسی باڈی پلینم کے ذریعے اپنایا گیا تھا۔ اس ڈیم کی وجہ سے ہندوستان سمیت کئی دیگر ممالک میں خوف کی وجہ یہ بھی ہے کہ پروجیکٹ سائٹ ٹیک ٹونک پلیٹ کی باؤنڈری پر واقع ہے۔ تبتی پٹھار، جسے دنیا کی چھت سمجھا جاتا ہے، اکثر زلزلوں کی زد میں رہتا ہے، کیونکہ یہ ٹیک ٹونک پلیٹوں کے اوپر واقع ہے۔ 60 گیگا واٹ کا یہ پروجیکٹ دریا کے بہاؤ کے ایسے موڑ پر بنایا جا رہا ہے جہاں سے سیانگ یا دِہانگ دریا کی شکل میں اروناچل پردیش میں داخل ہونے سے پہلے تبتی پلیٹو پر یارلنگ بہت بلندی سے گرتا ہے۔ اس موڑ کے تقریباً 50 کلومیٹر کے علاقے کو استعمال کیا جائے گا، جس سے پارنی 2,000 میٹر کی اونچائی سے گرے اور جس کے ذریعے پن بجلی پیدا کی جاسکے۔ چین نے اب تک دریائے یارلنگ کا استعمال بجلی بنانے میں سب سے کم کیا ہے، محض 0.3 فیصد۔ اب اس نے میڈوگ علاقے کے قریب اپنی جغرافیائی حد کے تقریباً آخری کنارے پر دریا کو روکنے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اتنے بڑے دریا کو بڑے پیمانے پر باندھنے اور اس کے پانی کو آبی ذخائر میں ذخیرہ کرنے کی وجہ سے طویل مدت میں دریا کے ماحولیاتی نظام اور حیاتیاتی تنوع پر بھی نقصاندہ اثر پڑنا فطری ہے، تاہم حکومت ہند بھی اس کے جواب میں اپنے حصے کے دریا پر 10 گیگاواٹ کا ایک ڈیم بنانے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔ سوچنا ہوگا کہ جب دریا کے اصل بہاؤ کو ہی چین روک دے گا تو ہماری منصوبہ بندی کے لیے پانی کی ضرورت کا کنٹرول تو چین کے پاس ہوگا ہی، ہم بھی دریا کے ماحولیاتی نظام کو اتنا ہی نقصان پہنچائیں گے۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان کا منصوبہ بھی ہائیڈرو پیکنگ کے اصول پر ہی کام کرے گا۔ ان دو میگا پروجیکٹوں کے مشترکہ اثرات اس خطے میں ماحولیاتی نقصان میں اضافہ کر سکتے ہیں، جس سے اس علاقے کا ماحولیاتی نظام بدل سکتا ہے۔ اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ بہتے ہوئے پانی کا ماحولیاتی نظام(Lotic Ecosystem)ٹھہرے ہوئے پانی کے ماحولیاتی نظام (Lentic Ecosystem) میں تبدیل ہو جائے۔ لوٹک نظام ایک میٹھے پانی کا ماحولیاتی نظام ہے جہاں پانی مستقل نیچے کی سمت میں بہتا ہے۔ لاٹک نظام مچھلیوں، پرندوں، آبی جانوروں اور دیگر جنگلی حیات سمیت کئی انواع و اقسام کے لیے اہم رہائش گاہ فراہم کرتا ہے۔ لوٹک نظام میں ٹھہرے ہوئے پانی کے ماحول کے مقابلہ زیادہ حیاتیاتی تنوع ہوتی ہے۔ لوٹک سسٹم گڑبڑی کے بعد جلد ہی اپنی اصل حالت میں واپس آسکتا ہے جبکہ لینٹک نظام ٹھہرے ہوئے میٹھے پانی کی ایک باڈی ہے، جیسے کہ جھیل، تالاب، دلدل یا دلدل، جہاں پانی بہت دھیمی رفتار سے بہتا ہے یا تقریباً ٹھہرا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ اصطلاح لاطینی لفظ لینٹس سے آئی ہے، جس کا مطلب ہے بڑی آہستگی سے چلنا۔
سمجھناہوگا کہ صدیوں پہلے دریاؤں کے ساتھ بہہ کر آئی جس مٹی نے کبھی ریاست آسام کی تشکیل کی، اب وہی پانی کی تیز اور وسیع لہریں اس ریاست کو سیلاب اور زمینی کٹاؤ کی وجہ سے متاثر کر رہی ہیں۔ برہم پتر اور براک اور ان کی تقریباً 50 معاون ندیوں کا انتہائی تیز بہاؤ اپنے کناروں پر آباد بستیوں اور کھیتوں کو جس طرح اُجاڑرہا ہے، اس سے ریاست میں کئی طرح کے بحران پیدا ہو رہے ہیں، جن میں بے گھر ہونا اور بے زمین ہونا بہت ہی افسوسناک ہے۔ آج بھی آسام اور شمال مشرق کے کئی علاقوں میں سیلاب کے ساتھ آنے والی تلچھٹ سے نئی زمین بنتی ہے۔ یہی وہاں کی کاشتکاری کی بنیاد بھی ہے۔ اگر پہلے تبت اور پھر ہندوستانی سرحد میں بڑے ڈیم بن جاتے ہیں تو جان لیں کہ دریا سے پیدا ہونے والی تلچھٹ کی آمد رک جائے گی۔ اس دریا میں 7,694 ہیکٹیئر فی میٹر کی شرح سے تلچھٹ پیدا ہوتی ہے۔ گواہاٹی کے قریب پاسی گھاٹ پر تقریباً 32 فیصد تلچھٹ کی پیمائش کی گئی۔ ڈیم اور پھر آبی ذخائر بڑی مقدار میں اس تلچھٹ کو جمع کرلیں گے اور یہ دریا کے کٹاؤ کو بڑھا دے گا۔ چین کے ذریعے تقریباً دس سال قبل بنائے گئے تین ڈیم تھری گورجیس ڈیم مثال ہیں کہ کس طرح اس کے نیچے آئی ندیوں کے کناروں پر کٹاؤ میں اضافہ ہوا۔ ہندوستان میں تو شمال مشرقی ریاستیں پہلے سے ہی بھوک سے پریشان ہیں۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اتنی بڑی مقدار میں ہندوستان کے اوپر جمع ہونے والے آبی ذخائر ہماری سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ اگر زلزلہ یا کسی اور قدرتی وجہ سے ڈیم پھٹ جاتا ہے یا پھر جنگ کی صورت میں چین صرف اس کا پانی بہادے تو ہندوستان کو جان و مال کا ناقابل تصور نقصان اٹھانا پڑے گا۔ یہ خطہ زلزلہ کے لحاظ سے حساس ہے اور انڈوجینک قوتوں، یعنی زمین کے اندر سے ابھرنے والے اندرونی دباؤ کے نتیجے میں مختلف شدت کے زلزلے یہاں اکثر محسوس کیے جاتے ہیں۔ یہ پورا علاقہ مسلسل نم رہتا ہے۔ آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے سب سے زیادہ حساس تبت کے پہاڑوں پر اچانک تیز بارش، درجۂ حرارت میں انتہائی اتار چڑھاؤ، لینڈسلائیڈنگ، برفانی تودے اور ملبے کے بہاؤ جیسی صورتحال کی مار بہت شدید ہے اور ان کی پیش گوئی کرنا انتہائی مشکل ہے۔
چونکہ ہندوستان اور چین کے درمیان کبھی پانی کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے اور چین اس بات کے لیے بدنام ہے کہ وہ حقیقی اعداد و شمار اور سرگرمیاں کبھی پڑوسیوں کے ساتھ شیئر نہیں کرتا، ایسے میں دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کی وجہ سے کشیدگی مزید بڑھے گی۔ یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ اس ڈیم کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں اروناچل پردیش کا وہ حصہ بھی ہے جس پر چین اپنا دعویٰ کرتا رہا ہے۔ حال ہی میں چین نے اروناچل پردیش کے علاقوں کا نام بدل کر نئی انتظامی کاؤنٹیاں بنائی ہیں۔ ہندوستان اس اقدام کو متنازع علاقوں پر خودمختاری کا دعویٰ کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتا ہے، تاہم جب بات جغرافیائی سیاست کی ہو تو یاد رکھنا ہوگا کہ چین کے پاکستان کے ساتھ بہت قریبی تعلقات ہیں اور چین نے وہاں بہت زیادہ سرمایہ بھی لگایا ہے۔ کچھ سالوں سے ہندوستان پاکستان کو دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ پنجاب کے پانچ دریاؤں کا پانی روکنے کی دھمکیاں دے دیتا رہا ہے۔ چونکہ سندھ بھی تبت سے نکلتا ہے اور لداخ سے ہوتا ہوا لداخ کی سرحد کو عبور کرتے ہوئے جموں و کشمیر میں گلگت کے قریب دردستان کے علاقے سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ اس میں پانی کی مقدار دنیا کاسب سے بڑا دریا کہلانے والے دریائے نیل سے بھی دوگنی ہے۔ ہندوستان اس دریا کی تقسیم کے پہلے سے ہوئے معاہدوں پر نئے سرے سے غور کرنے اور میڈیا کے ذریعے پورا پانی روک کر پاکستان کو پیاسہ مارنے کا پروپیگنڈہ کرتا رہا ہے۔ ایک امکان ہے کہ چین کے ڈیم کی اونچائی، واٹر کنٹرول وغیرہ پر جب بات ہوگی تو چین پاکستان کو سامنے رکھے گا۔