جنوبی ایشیائی ممالک کی دوستی کے چیلنجز: پروفیسر عتیق احمد فاروقی

0

پروفیسر عتیق احمد فاروقی

ہندوستان کے پڑوس میں ایک دوسالوں سے بہت چیلنجز سے پرحالات ہیں۔ ایسا اس لیے نہیں ہواکہ اپنے ملک کی خارجہ پالیسی میں کوئی نقص ہے، بلکہ اس لیے ہواہے کہ پڑوسی ممالک کے اندر کئی برعکس سیاسی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ پڑوسی ممالک کو لے کر ان دنوں خوب تشویش کا اظہار کیاجارہاہے، پر ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہواہے۔ 1970اور1980 کی دہائیوں میں بھی بنگلہ دیش، سری لنکا یا نیپال کی جانب سے کشیدہ حالات بنتے رہے ہیں۔ پڑوسی ممالک سے ہندوستان کی کشیدگی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اگرہم پڑوسیوں سے تعلقات کی سلسلہ وار بات کریں اور پاکستان کی بات چھوڑ بھی دیں جہاں سدھار کی گنجائش فی الحال بہت کم ہے تو بھی حال میں مالدیپ کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوگئے تھے۔ مگر اپنے ملک کے پختہ رویہ سے مالدیپ کو بھی یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ ہندوستان سے تصادم کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ ہندوستان نے اس کی مدد کرنا نہیں چھوڑااوریہی بات ہمارے حق میں ثابت ہوئی۔ اب مالدیپ سے ہمارے تعلقات دوبارہ پٹری پر آگئے ہیں۔

ویسے ہی جب سری لنکادیوالیہ ہوا تو وہاں حالات بہت بگڑ گئے تھے۔ کوئی ملک جب سری لنکا کی مدد کیلئے نہیں آرہا تھا تب ہندوستان نے اسے چالیس لاکھ ڈالر دیے۔ سری لنکا کو تیل بھی دیااوردیگر ضروری اشیاء بھی، اس کا اثرہمارے تعلقات پر پڑا۔ سری لنکا کی نئی حکومت جب برسراقتدار ہوئی تو وہاں کوئی ہندوستان مخالف لہر نہیں دکھی۔ دونوں ممالک کے دوران رشتے بہتری کی جانب جارہے ہیں، پر اسی بات کا نیپال پر مکمل طور پر اطلاق نہیں ہوتا۔ پرچنڈ کے دور میں نیپال سے ہمارے تعلقات خوشگوار تھے، مگرجب اولی آئے تو ان کا رجحان چین کی جانب زیادہ نظرآرہاہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ ہندوستان کا کم اور دراصل اپنا نقصان زیادہ کررہے ہیں۔ اولی اپنے یہاں چین کو زیادہ اہمیت دے کر ہندوستان کو نظرانداز کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کی سمجھ میں جوبات نہیں آرہی ہے، وہ یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ نیپال کی جڑیں کھود رہے ہیں۔ چین جس طرح سے سرمایہ لگاتاہے وہ اقتصادی طور پر اتنا مفیدنہیں ہوتا، پروہ اپنے معاون ملک کو قرض اوراپنی حکمت عملی میں پھنساضرور لیتاہے۔ ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ اگرچینی فوج نیپال – ہندوستان سرحد پر آکر بیٹھ جائے تودباؤ بڑھ جائے گا۔ ہندوستان پر ایسا دباؤ خود نیپال کے مفاد میں نہیں ہے۔ بہرحال نیپال کے محاذ پر بھی ہندوستانی حکومت پختگی کا مظاہرہ کررہی ہے اوربنگلہ دیش کے محاذ پر بھی بہت سنبھل کر چل رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں جو حکومت اس وقت برسراقتدار ہے، وہ سیاسی اوراقتصادی محاذ پر ابھی کچھ خاص نہیں کرپائی ہے، وہاں اقتصادی حالات بھی بگڑتے جارہے ہیں۔ نظم ونسق کی حالت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ شدت پسندطاقتوں کو بڑھاوا مل رہاہے۔ ان کو ملک کی پالیسی کی تشکیل میں شامل کرلیاگیاہے۔ نتیجتاً شدت پسند عناصر سڑکوں پر کھلے عام گھوم رہے ہیں جس سے وہاں کی اقلیتیں خصوصاً ہندواوربودھ خوفزدہ ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ بنگلہ دیش کی جانب ہندوستان کی حکومت نے پھر پختگی کا رویہ اپنا رکھاہے۔ ہماری حکومت مانتی ہے کہ بنگلہ دیش ایک اہم ملک ہے اوراگروہاں عدم استحکام پھیلتاہے تو ہندوستان پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔

فی الحال دونوں ممالک کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے حالات کا فائدہ شدت پسند عناصر بھی اٹھا رہے ہیں۔ وہاں ہندوستان کے تئیں نفرت کا ماحول بن رہاہے۔ یہ صرف اس لیے نہیں ہے کہ ہندوستان اورشیخ حسینہ حکومت کے رشتہ بہت خوشگوار تھے۔ وہاں کی کچھ سیاسی جماعتیں اور شدت پسند عناصر ہندوستان کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ جب شیخ حسینہ بنگلہ دیش میں من مانی کررہی تھیں تب ہندوستانی حکومت ان کی حمایت میں کھڑی تھی۔ یہ سمجھناچاہیے کہ ہندوستانی حکومت کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ بنگلہ دیش میں جو بھی حکومت ہوگی، اسے ہندوستانی حکومت کو باہمی اتفاق کے ساتھ چلنا ہوگا۔ ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات صرف مخصوص لیڈر پر مرکوز نہیں ہوتے۔ جب باہمی تعاون سے کوئی سڑک تعمیر ہوتی ہے توبنگلہ دیش کو بھی اس کا فائدہ پہنچتاہے اورہندوستان کو بھی۔ جب ہندوستان وظیفہ دیتاہے توبنگلہ دیش کے وزیراعظم کو نہیں بلکہ وہاں کے طلبا کو ہی فائدہ ہوتاہے۔ بنگلہ دیش کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان کے رشتے پورے بنگلہ دیش کے ساتھ ہیں، اُس کے عوام کے ساتھ ہیں، پر اس رشتہ کا ذریعہ حکومت ہے۔ ہندوستانی حکومت بنگلہ دیش کی حکومت کو نظرانداز کرکے بلاواسطہ وہاں کے عوام کے ساتھ سلوک کرنے لگے، توفوراً الزام لگ جائے گاکہ ہندوستان داخلی معاملات میں دخل اندازی کررہاہے۔ ہندوستان سیدھے وہاں کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوجائے توبھی غلط ہے اوراگروہاں کی حکومت کے ساتھ کھڑا ہو توبہت سے لوگ الزام لگانے لگتے ہیںکہ ہندوستانی حکومت بنگلہ دیش حکومت کا ساتھ دے رہی ہے۔ یہ تو وہی بات ہوگئی کہ چت بھی میری،پٹ بھی میری۔ایسا نہیں ہوناچاہیے۔

خیر اب ہندوستان کو دوخطروں پر غور کرناچاہیے۔ پہلا خطرہ چین کا بنگلہ دیش اور ہندوستان کے دیگر پڑوسی ممالک میں بڑھتادخل۔ ہندوستان کے خلاف چین کا گھیرا تنگ ہوتا جارہاہے،اگرچہ حالیہ مذاکرات کے ذریعہ دونوں ممالک نے کچھ مثبت اقدام کے وعدے کیے ہیں۔ ہمیں چین کے ساتھ تھوڑا اور سخت ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی پالیسی میں تبدیلی لانی چاہیے۔ چین کو کسی ملک سے تعلقات استوار کرنے سے توہم نہیں روک سکتے، پراسے یہ تو بتاہی سکتے ہیں کہ وہ ہماری سلامتی کو نظرانداز نہ کرے۔آج دنیا میں بہت سارے ممالک ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ ہندوستان کو نظرانداز کرسکتے ہیں، مگر چین کو نہیں۔ ہندوستان کچھ اچھا بھی کرے توبات الٹی پڑتی ہے اورچین برا بھی کرے تو کوئی انگلی نہیںاٹھاتا۔یہ جو حالات ہیں، اس کا علاج ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے معماروں کوکرناہوگا۔

دوسرا خطرہ یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش کی نزدیکیاں بڑھنے لگی ہیں۔ شیخ حسینہ کے دورمیں کافی سنبھل کر درآمدات ہوتی تھیں اورپاکستان کے لوگوں کو ویزہ بھی سوچ سمجھ کر دیاجاتاتھا، مگر اب پاکستان سے لوگ آسانی سے بنگلہ دیش پہنچنے لگیں گے۔ حسینہ سے پہلے جب خالدہ ضیاوزیراعظم تھیں تب پاکستان سے آئے دہشت گرد مبینہ طور پر بنگلہ دیش کے راستے ہندوستان میں داخل ہوتے تھے۔ بنگلہ دیش تب شمال مشرق کے ہندوستان مخالف شدت پسند عناصر کو بھی پناہ دیتاتھا۔ بنگلہ دیش اورپاکستان کے درمیان براہ راست ہوائی خدمت بھی شروع ہونے والی ہے۔ اگرہندوستان،پاکستان اوربنگلہ دیش تینوں کے باہمی تعلقات خوشگوار ہوتے تو ہندوستان کو کسی طرح کا خدشہ نہ ہوتا،مگر چونکہ تعلقات نارمل نہیں ہیں، ایسی حالت میں ہماری فوجوں کیلئے پہلے سے زیادہ مستعد رہنے کی ضرورت ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS