بے حد خطرناک ہے لاٹھی سے بھینس ہانکنے کی روایت؟ : ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

زمانۂ جاہلیت میںتعلیم و تربیت کی کمی تھی تو جمہوری نظام سرے سے غائب تھا۔ گاؤں، دیہات، شہر،علاقہ،ریاست اور ملک کا نظام طاقت کی بنیاد پر چلتا تھا۔جمہوری نظام کے قاعدے قوانین نہیں تھے۔ قوم، برادری اور مذہبی بنیاد پرجس کے پاس طاقت ہوتی تھی،اُسی کا سکہ چلتا تھا۔اُس کی زبان سے نکلے الفاظ قانون اور اشارہ حکم کا درجہ رکھتا تھا۔ بالفاظ دیگر بھینس کا مالک کوئی بھی ہو لیکن اجارہ داری اُسی کی ہوتی تھی،جو اُسے ڈنڈے سے ہانک کر اپنے قبضے میںکرلیتاتھا۔ اپنا رعب اور دبدبہ قائم کرنے اور علاقہ بڑھانے کے جنون میں لڑائیوں اور جنگوں کا ہونا عام بات تھی۔ طاقتورافراد،قزاق اور ڈاکوؤں کی طرح چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر حملہ کرکے اُنہیں غصب کرتے اوراپنے علاقے میں شامل کر لیتے تھے۔ جنگ کا خمیازہ عام باشندوں کو اُٹھانا پڑتا تھا۔بے گناہ افراد کو قتل کرکے سروں کے مینار بنانے والے جنونیوں میں چنگیز خان کا نام سر فہرست ہے۔جوچی خان، برکے خان، چغتائی خان، ہلاکو خان،امیر تیمور اور نادرشاہ وغیرہ کے علاوہ عالمی سرخیاں بٹورنے والوں میں ایڈولف ہٹلر اور بنیتو مسو لینی جیسے نام لیے جا سکتے ہیں۔آج زیادہ تر ممالک میں جمہوری نظام رائج ہے تو کہیں کہیں بادشاہی اورآمرانہ راج بھی موجودہے۔ جمہوری نظام والے کئی ممالک میں اعلیٰ رہنماؤں کے انداز ابھی بھی مطلق العنان حاکم اور جس کی لاٹھی، اُسی کی بھینس جیسے ہیں۔ اُنہیںاپنی زبان سے نکلے جملے بے کاٹی لکیر اور حرف آخر کی سند نظر آتے ہیں۔ ایک ملک کے دوسرے ملک پر قبضہ کرکے اسے اپنے ساتھ ملانے کے بہانے تلاش کیے جارہے ہیں۔اسی بنا پر کئی جگہ جنگیں عروج پر ہیں۔

جمہوری ملک امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے 20جنوری 2025کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھانے سے قبل ہی اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے کا خاکہ پیش کرکے پوری دنیا میں ہلچل پیدا کر دی تو اسرائیل کی جانب سے بھی ’گریٹر اسرائیل‘(عظیم اسرائیل) کا نیا توسیعی نقشہ منظر عام پر لاکر دنیا کو حیرت زدہ کر دیاگیا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے کناڈا، جس کا رقبہ امریکہ سے بھی1,51,150مربع کلومیٹر زیادہ ہے،کو اپنے ملک میں شامل کرکے51ویں ریاست بنانے کی بات کرکے اپنے ارادے ظاہر کردیے۔ کناڈا کے رہنماؤں سے بھی تعاون دینے کو کہا،جب کہ زیادہ تر لوگ کناڈا کو امریکہ میں شامل کرنے کے خلاف ہیں۔ اس سے قبل ٹرمپ نے کناڈا اور میکسیکو پر اہم محصولات عائد کرنے کی بات کہی تھی۔اُنہوں نے خلیج میکسیکو کانام تبدیل کر ’خلیج امریکہ‘ رکھنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔8جنوری کو واشنگٹن میں منعقدہ پریس کانفرنس میں سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ڈونالڈ ٹرمپ نے کناڈا،میکسیکو، پناما نہر اور گرین لینڈ پر کھل کر گفتگو کی اور اپنے وعدوں کو دہرایا۔ دوسری جانب پناما کے صدر جوزے راؤل ملینو نے ٹرمپ کے بیان کو بکواس قرار دیا۔ وزیر خارجہ ہادیئر مارٹینز-آچا نے صدر کے حوالے سے کہا کہ پناما نہر کی خود مختاری پر کسی طرح کی بات چیت نہیں کی جا سکتی۔ یہ نہر ان کی جدوجہد کی تاریخ سے جڑا حصہ ہے۔اُنہوں نے ٹرمپ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نہر کے انتظام و انصرام کا حق صرف اور صرف پناما حکومت کا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے ’عظیم اسرائیل‘ کا خودساختہ نقشہ پیش کیے جانے کی عرب ممالک کی جانب سے شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔اسرائیل کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شائع کیے گئے اس نام نہاد ’گریٹراسرائیل‘کے نقشے کی مذمت کرنے والے ممالک میں قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے علاوہ کئی خلیجی ملک شامل ہیں۔ عظیم اسرائیل کے نقشے میں فلسطین،اُردن، لبنان اور شام کو شامل دکھاتے ہوئے ’تاریخی علاقائی حقوق‘ کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ یہ نقشہ ایسے وقت میں شائع کیا گیا، جب اسرائیلی حکومت میں شامل کٹّر سوچ کے حامل وزراء مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے کے دوبارہ مکمل الحاق اور غزہ پٹی میں پھر سے اسرائیلی بستیاں بسانے کی بات کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ مارچ 2023میں انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزل اسموٹریچ پیرس میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران اپنے ہاتھوں میں ’گریٹراسرائیل‘ کا نقشہ لیے کھڑے دکھائی دیے تھے۔اس میں اُردن کو اسرائیل کا حصہ دکھایاگیاتھا۔اس پر بڑے پیمانے پر ردعمل دیکھاگیا۔ عرب ممالک نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ خطے اور عوام کے خلاف اسرائیلی خلاف ورزیاں روکنے کے لیے اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اسرائیل کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اس ’تاریخی اسرائیلی ریاست‘ کے خود ساختہ نقشوں کی اشاعت کی مذمت کرتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ اس قسم کے انتہا پسندانہ اقدامات اسرائیل کے اپنے قبضے کو مستحکم کرنے، ریاستوں کی خودمختاری پر حملے جاری رکھنے اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے عزائم کا اظہار ہے۔قطر کی وزارت خارجہ نے اسرائیلی نقشے کی اشاعت کو عالمی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قراردیا۔ دوحہ کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس مبینہ نقشے کی اشاعت سے جنگ میں جھلس رہی غزہ پٹی میں امن کے امکانات متاثر ہوں گے۔ متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے اسرائیلی اقدام کو قبضے کو وسعت دینے کی دانستہ کوشش اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی بتایا۔ اُردن کی وزارت خارجہ نے اس نقشے کو ’ دعوے اور وہم‘قرار دیتے ہوئے مذمت کی۔ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے اس نقشے کو اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا مظہر بتاتے ہوئے عرب اور مسلم اکثریتی ممالک کی حکومتوں سے اس عمل کے خلاف سخت اقدامات کیے جانے کا مطالبہ کیا۔اُدھراسرائیل نے جنگ بندی کے باوجود ایک ایسا نقشہ جاری کیا ہے،جس میں شمال میں نیٹزارم کوریڈور کا علاقہ، رفح کراسنگ اور جنوب میں فلاڈیلفی کوریڈورسمیت غزہ کی سرحد پر700میٹر چوڑے اور60کلومیٹر لمبے بفرزون کے قریب آنے کے خلاف وارننگ دی ہے۔

روس- یوکرین کے درمیان بھی قبضہ اور وسعت کی جنگ جاری ہے۔ ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد اس کے فوری ختم ہونے کی اُمید کیسے کی جا سکتی ہے،جب کہ ان کا نظریہ بھی وسعت پسندانہ ہے۔ روس،یوکرین کے 20فیصد علاقے پرقبضہ کرچکا ہے۔جو بائیڈن حکومت کے یوکرین کو 2.5اَرب ڈالر کی فوجی امدادکے بعد سے بھی ایسا نظر نہیں آتا کہ امریکہ فی الوقت جنگ بندی کا خواہش مند ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تنازع 2014میں شروع ہوا تھا، لیکن 24فروری2022کو روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے مسلسل جنگ جاری ہے۔ یوکرین 30 ممالک کے اتحاد’نیٹو‘میں شمولیت چاہتا ہے۔روس نہ صرف اس کی پُرزور مخالفت میں ہے،بلکہ حمایتی ممالک کو بھی دھمکی دے رہا ہے۔ چین اور تائیوان کے درمیان بھی کشیدگی ہے۔ بیجنگ، تائیوان کے جزیرے پر اپنی ملکیت ہونے کا دعویٰ کرتاہے۔ وہ اسے چین میں دوبارہ شامل کرنے کا خواب ہی نہیں دیکھتا،بلکہ ضرورت پڑنے پر طاقت کے استعمال سے اپنے ساتھ ملانے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔چین اور تائیوان1949میں تب الگ ہو ئے تھے،جب چینی خانہ جنگی میں ماؤ زی تنگ کی قیادت میں کمیونسٹ فتحیاب ہوئی تھی اور حریف پارٹی’کو من ٹانگ‘(کے ایم ٹی) کے سربراہ چیانگ کائی شیک تائیوان چلے گئے تھے۔تبھی سے تائیوان میں آزاد حکومت قائم ہے۔سرکاری طور پر اسے ’جمہوریہ چین‘ کہا جاتاہے،جب کہ چین کا سرکاری نام’عوامی جمہوریہ چین‘ ہے۔آبنائے تائیوان اس جزیرے کو چین سے الگ کرتی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے سابقہ دور حکومت میں تائیوان کو18بلین سے زیادہ ڈالر کے ہتھیا رفروخت کیے تھے۔ جو بائیڈن نے بھی چین کے حملہ کرنے کی صورت میں تائیوان کا دفاع کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔دنیا کے ہر ملک کو آزادانہ طور پر اپنے ملک کا نظام چلانے کا بنیادی حق حاصل ہے۔دنیا میں امن و امان قائم کرنے کے لیے طاقت کے زعم میں کمزور ملک یا اس کا علاقہ ہڑپنے کی روایت کا ختم کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS