ٹکے سیر ٹماٹر اور مایوس کسان: پنکج چترویدی

0

پنکج چترویدی

جھارکھنڈ کے لاتیہار ضلع کے بالوماتھ و باریاتو کے علاقے دو قسم کے ٹماٹر کی کھیتی کے لیے مشہور ہیں- ایک ہے موٹے چھلکے والا گلشن، جس کا استعمال سبزی اور خاص طور پر سلاد کے طور پر کیا جاتا ہے جبکہ سلیکشن نامی ٹماٹر کے چھلکے کی پرت نرم ہوتی ہے، اس کا استعمال صرف سبزی، چٹنی اور ٹومیٹوکیچپ کے لیے کیا جاتا ہے۔ کچھ سال پہلے تک ٹماٹر کی لالی یہاں کے کسانوں کے گالوں پر بھی لالی لاتی تھی، لیکن اس سال حالت یہ ہے کہ فصل تو بمپر ہوئی لیکن لاگت تو دور، توڑ کر منڈی تک لے جانے کی قیمت نہیں نکل رہی۔ رام گڑھ، ہزاری باغ، لوہردگّا میں جن کسانوں نے ٹماٹر اگائے یا پھر پتّا یا پھول گوبھی یا پھر پالک- ٹریکٹر سے روند کر کھڑی فصل خود ہی برباد کر رہے ہیں۔ گوبھی کی قیمت دو سے چار روپے تو ٹماٹر کی دو روپے۔ اتنے میں تڑائی بھی نہیں نکلتی، پھر منڈی تک کون لے جائے۔ اترپردیش کے سون بھدر ضلع کے ہروائی گاؤں میں سرخ لال ٹماٹر کی فصل پر روٹ ویلر چلا کر گیہوں بوئے جا رہے ہیں۔ یہاں کسانوں نے 15 ہزار روپے بیگھہ پر کھیت کرائے پر لیے، پھر ٹماٹر بوئے۔ گزشتہ ماہ تو 400 روپے کریٹ (25کلو) ایک بار فروخت ہوئی پھر قیمت 60 سے 100 روپے کریٹ گرگئی۔ اب 30 روپے کریٹ تڑائی، 15 روپے منڈی کے پلّے دار کو، پھر ٹرانسپورٹ- آخر کسان کتنا خسارہ برداشت کرے! مدھیہ پردیش کے بڑوانی میں ٹماٹر مویشی کھارہے ہیں۔ دہلی اور اس کے آس پاس بھلے ہی بازار میں ٹماٹر کی قیمت 40 روپے کلو ہو لیکن ٹماٹر اگانے کے لیے مشہور ملک کے مختلف اضلاع میں ٹماٹر کوڑے میں پڑا ہے۔

چھتیس گڑھ کے ٹماٹر کی کھیتی کرنے والے کسان تو آب و ہوا میں تبدیلی کی عجب مار جھیل رہے ہیں اور انہیں فصل کھیت میں برباد کرنی پڑرہی ہے۔ دُر گ ضلع میں پہلے تو سمندری طوفان کی وجہ سے تقریباً 15 دن آسمان ابرآلود رہا۔ پھر اچانک ٹھنڈک میں اضافہ ہوگیا۔ اس سے ٹماٹر تیزی سے پکنے لگے۔ جب پکے ٹماٹر کی سپلائی زیادہ ہوئی تو قیمتیں گرگئیں۔ یہاں اکثر اتنی ٹھنڈ نہیں پڑتی۔ اب ٹماٹر وقت سے پہلے پک رہے ہیں، نہ توڑو تو خود گر جاتے ہیں۔ مجبور کسان فصل تباہ کر رہے ہیں۔

نزدیکی ریاست تلنگانہ اور آندھراپردیش کے حالات بھی مختلف نہیں ہیں۔ یہاں میڈک کے شیوم پیٹ میں ٹماٹر کی تیار فصل کو آگ لگانے کے سیکڑوں واقعات ہوچکے ہیں۔ معلوم ہو کہ ٹماٹر15-27°C کے درمیان کے درجۂ حرارت میں سب سے اچھے اگتے ہیں اور اس کے لیے معقول اوسط ماہانہ درجۂ حرارت 21-23°C ہوتا ہے۔ 32°C سے زیادہ درجۂ حرارت پھل لگنے اور اس کی نشو و نما پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ جنوبی ریاستوں میں آب و ہوا میں تبدیلی سے متاثر ٹماٹر کی کھیتی میں سفید فنگس اور پٹّی میں سوراخ کرنے والے کیڑوں کے مسئلے نے پہلے سے ہی کیڑے مار دوا کا خرچ بڑھایا تھا۔ فصل اچھی ہو گئی تو بازار میں قیمت نہیں ملنے سے کسان قرض کے بوجھ تلے دب گیا۔

حالانکہ نہ تو یہ پہلی بار ہورہا ہے اور نہ ہی صرف ٹماٹر کے ساتھ ہو رہا ہے۔ امید سے زیادہ فصل سنہرے کل کی امیدوں پر پانی پھیر دیتی ہے- گھر کا نیا چھپر، بہن کی شادی، ماں-باپ کی تیرتھ یاترا، نہ جانے ایسے کتنے ہی خواب وہ کسان سڑک پر ’کریش کراپ‘کہلانے والی فصل کے ساتھ پھینک آتے ہیں۔ ساتھ ہوتی ہے تو صرف ایک فکر- کھیتی کے لیے بیج، کھاد کے لیے، لیے گئے قرض کو کیسے اتارا جائے؟ پورے ملک کی کاشتکاری غیرمنصوبہ بند، استحصال کی شکار اور کسان مخالف ہے۔ تبھی ہر سال ملک کے کئی حصوں میں افراط فصل کو سڑک پر پھینکنے اور کچھ ہی ماہ بعد اسی فصل کے تباہ ہونے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ کسان محنت کر سکتا ہے، اچھی فصل دے سکتا ہے، لیکن حکومت میں بیٹھے لوگوں کو بھی اس کی محنت کا معقول معاوضہ، زیادہ مال کے محفوظ ذخیرہ کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

ہر دوسرے تیسرے سال کرناٹک میں کئی ا ضلاع کے کسان اپنے تیکھے ذائقہ کے لیے مشہور ہری مرچوں کو سڑک پر لاوارث پھینک کر اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوںمیں کبھی ٹماٹر تو کبھی انگور، کبھی مونگ پھلی تو کبھی گوبھی کسانوں کو ایسے ہی مایوس کرتی ہے۔ دہلی سے متصل مغربی اترپردیش کے کئی اضلاع میں آئے دن آلو کی ٹنوں فصل بغیر اکھاڑے، مویشیوں کو چرانے کے واقعات سنائی دیتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ جب مایوس کسان اپنے ہی ہاتھوں اپنی محنت کو برباد کرتا ہوتا ہے، ایسے میں غازی آباد، نوئیڈا یا دہلی میں آلو کی قیمت پہلے کی ہی طرح زیادہ نظر آتی ہے۔ راجستھان کے سروہی ضلع میں جب ٹماٹر مارا-مارا گھومتا ہے تبھی وہاں سے کچھ کلومیٹر دور گجرات میں لال ٹماٹر کی قیمت صارفین کو لال کیے رہتی ہے۔ سرکاری اور پرائیویٹ کمپنیاں خواب دکھا کر زیادہ فصل دینے والے بیجوں کو فروخت کرتی ہیں، جب فصل بہترین ہوتی ہے تو قیمت اتنی کم ملتی ہے کہ لاگت بھی نہ نکلے۔

بدقسمتی ہے کہ زراعت پر مبنی معیشت والے ملک میں زرعی پیداوار کی کم سے کم قیمت، پیداوار کی خریداری، بچولیوں کا کردار، کسانوں کو ذخیرہ کرنے کا حق، فصل کا انتظام جیسے ایشوز ثانوی نظر آتے ہیں اور یہ ہماری جمہوریت کے عام آدمی کے تئیں بے حسی کا ثبوت ہے۔ سبزی، پھل اور دوسری کریش-کراپ کا بغیر سوچے سمجھے حوصلہ بڑھانے کے برے نتائج دال، تیل کے بیجوں(تلہنوں) اور دیگر خوردنی اشیا کی پیداوار میں بحران کی حد تک کمی کے طور پر سامنے آرہے ہیں۔

کسانوں کے خوابوں کی فصل کو بچانے کے دو طریقے ہیں- ایک تو ضلع سطح پر زیادہ سے زیادہ کولڈ اسٹوریج ہوں اور دوسری مقامی پیداوار کے مطابق فوڈپروسیسنگ سینٹر کھولے جائیں۔ اگر ہر ضلع میں ٹماٹر کے کیچپ اور سوس کے کارخانے ہوں تو کسانوں کو فصل پھینکنی نہیں پڑے گی۔ ہمارے ملک میں اس وقت اندازاً 8ہزار کولڈ اسٹوریج ہیں جن میں سب سے زیادہ اترپردیش میں 1817، گجرات میں 827، پنجاب میں 430 ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر پر آلو اور پیاز کا قبضہ ہوتا ہے۔ آج ضرورت ہے کہ کھیتوں میں کون سی اور کتنی فصل اگائی جائے، اس کی مقامی ڈیمانڈ کتنی ہے اور کتنے کا ٹرانسپورٹیشن ممکن ہے- اس کی پالیسیاں اگر متعلقہ یا ضلع سطح پر ہی بنیں تو پیدا فصل کی ذرا ذرا سی کی محنت کا صحیح اندازہ ہوگا۔ ایک بات اور، کولڈ اسٹوریج یا ویئرہاؤس پر کسان کا کنٹرول ہو، نہ کے تاجروںکا قبضہ۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS