سید جعفر مسعود حسنی ندوی کا وصال بڑا ملی خسارہ: عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی

دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کو اس کے بلند علمی و تصنیفی خدمات اور علوم اسلامیہ کی ترویج و اشاعت کی خاطر نسلوں کی تربیت کا جو طویل تجربہ ہے، اس کی وجہ سے عالمی سطح پر اس کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہے، اس سے سبھی واقف ہیں۔ یہ ادارہ آج بھی قدیم صالح اور جدید نافع کے اصولوں پر ہر سال نسل نو کی ایک بڑی کھیپ تیار کرتا ہے جو اپنی علمی قابلیت، فکری متانت اور بامقصد طرز حیات کی وجہ سے اپنا مقام و مرتبہ سماج میں حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔ اس ادارہ کا یہ امتیاز ہے کہ اس کے فارغین جدید علوم کے صرف مبادی سے ہی نہیں بلکہ بعض اوقات گہرے فکری نظریات سے بھی واقفیت رکھتے ہیں اور جب سماج کے متنوع مسائل سے ان کا سامنا ہوتا ہے تو وہ ان کے حل کا بہتر نسخہ پیش کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ ندوۃ العلماء کا یہ امتیازی کردار اس کی تاسیس کے بالکل آغاز سے ہی رہا ہے۔ لیکن جن شخصیتوں نے اس ادارہ کو اس بے مثال کامیابی کے ساتھ اپنی خدمات پیش کرنے کے لائق بنایا ہے، ان کے تذکرہ کے بغیر اس کی شاندار تاریخ کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس کے لیے ندوۃ العلماء کی تاریخ موجود ہے۔ ارباب ذوق اس کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ایسی عبقری شخصیات کی فہرست بہت طویل ہے جنہوں نے ایسے ادارہ کے قیام کے بارے میں سوچا، اس کو حقیقت کی زمین پر اتارنے کے لیے ہم خیال افراد و تنظیموں کو جوڑا اور پھر بڑے سلیقہ سے اس کو نافذ کیا اور پوری مستعدی سے اس پر جمے رہے۔ یہاں تک کہ یہ ایک تناور درخت بن گیا جس کے سایہ میں آج بھی ہزاروں تشنگان علم و ادب اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ جن شخصیتوں نے اس کی کامیابی کو یقینی بنایا ہے، ان میں بانیٔ ندوۃ العلماء مولانا محمد علی مونگیری کے علاوہ علامہ شبلی نعمانی، مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی اور مولانا حکیم عبدالحئی صاحب نزھۃ الخواطر اور ان کے صاحبزادہ حکیم عبدالعلی حسنی سر فہرست ہیں۔ علامہ سید سلیمان ندوی اس انجمن کے گل سر سبد اور افتخار ندوہ کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔ علامہ سید سلیمان ندوی کے بعد اس ادارہ سے وابستہ جس شخصیت کو دنیا میں ان کی علمی بلندی، فکری گہرائی اور معتبر تصنیفی خدمات کی وجہ سے بے پناہ شہرت ملی اور اس معاملہ میں وہ اپنے اسلاف سے بھی بہت آگے چلے گئے، وہ نام بلاشبہ حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ ندوۃ العلماء کو حقیقی عالمی شہرت ان کے ہی دورِ قیادت میں ملی اور اس ادارہ کی طویل علمی کاوشوں کی خبر دنیا کو اور بطور خاص عالم عربی کو ان کے ہی دور میں ہوئی۔ مولانا علی میاں نے جہاں ایک طرف ندوۃ العلماء کو مشرق و مغرب کے ہر خطہ میں اپنی علمی دھاک، فکری بیباکی اور قلندرانہ شان کی وجہ سے متعارف کروایا، وہیں دوسری طرف انہوں نے افراد سازی پر بھی خاص توجہ مرکوز کی۔ انہوں نے افراد سازی کا یہ ہنر اپنے مربی اور بڑے بھائی حکیم سید عبدالعلی سے سیکھا تھا جن کی نگرانی میں مولانا علی میاں کی تربیت ہوئی تھی۔ مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی نے بے شمار افراد تیار کیے لیکن ان میں امتیازی مقام ان کے دو بھانجوں مولانا سید رابع حسنی ندوی اور مولانا سید واضح حسنی ندوی کو ملا۔ یہ وہ شخصیات تھیں جنہوں نے مولانا علی میاں کی رحلت کے بعد ندوہ کے مشن کو آگے بڑھایا اور ایک لمحہ کے لیے اس ادارہ کو اس بلندی سے گرنے نہیں دیا جہاں تک مولانا علی میاں اپنی حیات میں اس کو پہنچا چکے تھے۔ اسی خانوادہ کے نہایت روشن چراغ مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی (1965-2025) تھے جن کی سڑک حادثہ میں اچانک وفات پانے کی خبر چہار شنبہ کی شام ہر طرف پھیل گئی اور ندوہ کے وابستگان جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، دم بخود رہ گئے۔ مولانا جعفر ندوی سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں کیونکہ وہ وراثت کے سچے جانشیں تھے جس کے لیے ندوہ معروف ہے۔ وہ ادیب عصر مولانا واضح رشید ندوی کے فرزند اور سابق ناظم ندوۃ العلماء اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سابق صدر مولانا سید رابع حسنی ندوی کے بھتیجے اور داماد تھے۔ ان میں علمی قابلیت اور فکری سنجیدگی اتم موجود تھی جن کی ضرورت آج کے مشکل دور میں بہت زیادہ ہے۔ ان کی انہی صلاحیتوں کی بنیاد پر ان کو ندوہ سے شائع ہونے والے معیاری عربی رسالہ ’’الرائد‘‘ کا ایڈیٹر ان چیف بنایا گیا تھا اور ندوہ کی اداری ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے ان کا انتخاب ناظر ندوۃ العلماء کے طور پر کیا گیا تھا۔ چونکہ حالیہ دنوں میں مولانا علی میاں کے علمی وارثین اور ذمہ دارانِ ندوہ کی اموات بہت معمولی وقفہ کے ساتھ ہوتی رہی تھی، اس لیے یہ فکر لاحق رہتی تھی کہیں کوئی خلاء نہ پیدا ہوجائے۔ لیکن چونکہ اہل افراد کی طویل فہرست اس خانوادہ میں پائی جاتی ہے، اس لیے اس کی نوبت کبھی نہیں آئی اور مولانا بلال حسنی ندوی کے ساتھ ساتھ جب مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی کے کاندھوں پر بھی ندوہ کی قیادت کی ذمہ داری ڈالی گئی تو کسی قدر اطمینان ہوگیا تھا کہ نسبتاً یہ جواں سال قیادتیں طویل مدت تک ندوہ کو آگے لے کر جانے کا کام کریں گی۔ لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کسی نشہ میں دھت اوباش کی غلطی کی وجہ سے امت اسلامیہ ہندیہ کو سخت آزمائش سے گزرنا پڑا اور وہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ ندوہ کے لیے یہ خسارہ بہت بڑا ہے اور اس کی تلافی میں یقینا وقت لگے گا۔ البتہ ذمہ دارانِ ندوہ کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اس ادارہ کی مزید ترقی کو پیش نظر رکھتے ہوئے صلاحیتوں کا ایک پول تیار کریں اور متعین مدت کے لیے لائق افراد کو ذمہ داریاں سونپیں تاکہ ممتاز خوبیوں کے حامل افراد کی کمی کبھی محسوس نہ ہو۔ اس کی خاطر اگر خانوادۂ حسنی سے باہر کے افراد کی خدمات بھی حاصل کی جائیں تو بہتر ہوگا تاکہ کل ہند سطح پر موجود شخصیتوں سے استفادہ کرنا آسان ہو اور ادارہ کو اچانک کسی موقع پر بحران کا شکار نہ ہونا پڑے۔ فی الحال تو ندوۃ العلماء اور فرزندانِ ندوہ تعزیت کے حق دار ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ اس خسارہ کی تلافی کی سبیل جلد پیدا ہوجائے اور ندوۃ العلماء اپنے دینی و تعلیمی مشن پر اسی طرح گامزن رہے جیسا کہ اب تک اس کی تاریخ رہی ہے۔

(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS