راہل گاندھی کا حالیہ بیان سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز کر گیا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم بی جے پی،آر ایس ایس اور ہندوستانی ریاست سے لڑ رہے ہیں۔ یہ بیان دہلی میں آج بدھ کے روز کانگریس کے نئے ہیڈکوارٹر ’’اندرا بھون‘‘ کے افتتاح کے موقع پر دیا گیا،جس میں راہل گاندھی نے بی جے پی اور آر ایس ایس پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں تنظیموں نے ہندوستان کے تمام اداروں پر قبضہ کر لیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اب بی جے پی اور آر ایس ایس ہندوستانی ریاست کی شکل اختیار کرچکے ہیںاور اگر عوام یہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض ان تنظیموں سے لڑ رہے ہیں تو وہ غلط ہیں۔راہل گاندھی نے کہا کہ پارٹی کا ہر کارکن نظریات کی اس جنگ کو مشکل حالات میں لڑ رہا ہے جہاں اداروں پر بی جے پی اور آر ایس ایس نے قبضہ کر رکھا ہے اور تحقیقاتی ایجنسیوں کو اپوزیشن کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔راہل گاندھی کے اس بیان نے نہ صرف سیاسی محاذ پر ہلچل مچا دی ہے بلکہ بی جے پی کی جانب سے اس پر شدید ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے راہل گاندھی کے بیان کو کانگریس کی ’’بدصورت سچائی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ بیان ملک کی سالمیت اور اتحاد کیلئے خطرناک ہے۔
یہ بیان یقینا سیاسی افق پر انقلابی نوعیت کا حامل ہے،لیکن اس پر بی جے پی کی جانب سے کی جانے والی تنقید اس بات کا غماز ہے کہ حکومت راہل گاندھی کے اس بیان کو ایک خاص زاویے سے دیکھنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ گاندھی کا بیان نہ صرف آئین کی توہین ہے بلکہ یہ ملک کی تقسیم کی سازش کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جے پی نڈا نے گاندھی پر نکسلیوں اور ریاست دشمن عناصر کے ساتھ تعلقات رکھنے کا الزام عائد کیا، جو ہندوستان کی بدنامی چاہتے ہیں۔ ان سب کے باوجود،اگر ہم راہل گاندھی کے بیان کو بغض اور عداوت سے ہٹ کر دیکھیں تو یہ ایک تنقیدی نقطہ نظر ہے جو بی جے پی کی حکومتی پالیسیوں اور ان کے اداروں پر کنٹرول کے حوالے سے سوالات اٹھاتا ہے۔
راہل گاندھی کے اس بیان کو سبقت لسانی بھی قرار دیا جا سکتا ہے،کیونکہ اس میں ایک سیاسی محاذ پر اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ اگر بی جے پی اور آر ایس ایس کو ہندوستان کے اداروں میں اپنی جگہ بنانے کا پورا حق ہے تو اس کے خلاف آواز بلند کرنے والے افراد کو بھی ایک قوم کے طور پر اپنی بات کہنے کا حق ہونا چاہیے۔ یہ نکتہ واضح کرتا ہے کہ ریاست اور سیاست کے تعلقات میں فرق اور ان کی سیاست کا چہرہ کس طرح مختلف نظر آتا ہے۔
بیشک راہل گاندھی نے ایک ایسی زبان استعمال کی ہے جو کچھ لوگوں کو جارحانہ لگ سکتی ہے،لیکن یہ سیاسی زبان کے اندر ایک معمول کا حصہ ہے۔ ان کی یہ سبقت لسانی کسی بھی سیاستداں سے ہوسکتی ہے اور ماضی میں خود وزیراعظم نریندر مودی نے بھی بی جے پی کے مخالفین کے حوالے سے بعض اوقات انتہائی تیز، جارحانہ اور سخت ترین زبان استعمال کی ہے۔ سیاست میں زبان کا استعمال کبھی کبھار جذبات اور خیالات کے اظہار کا طریقہ بن جاتا ہے اور ایسا کرنے سے ہی وہ اپنے مد مقابل کے خلاف کڑی تنقید کرتے ہیں۔
موہن بھاگوت کے آئین دشمن بیان کو بھی گاندھی نے تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے غداری سے تشبیہ دی۔ راہل گاندھی کے مطابق بھاگوت کا بیان کہ رام مندر کی تقدیس کے بعد ہندوستان کو ’’حقیقی آزادی‘‘ ملی، غداری کے مترادف ہے اور یہ ہر ہندوستانی کی توہین ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی دوسرے ملک میں ایسا بیان دیا جاتا تو اس شخص کو گرفتار کر کے مقدمہ چلایا جاتا۔ یہ باتیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ بی جے پی اور اس کے حمایتی اس موضوع پر راہل گاندھی کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرکے دھیان ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دراصل، توہین کرنے کے بجائے یہ بیان آئین کی حقیقت اور آزادی کے معانی کو دوبارہ بیان کرنے کا ایک موقع تھا،لیکن حکومت اور اس کے حامیوں نے اسے ایک حملے کے طور پر پیش کیا۔
راہل گاندھی کا موقف واضح ہے کہ کانگریس ہمیشہ آئین کے دفاع میں کھڑی رہی ہے اور یہ آئین کی قدر اور اس کے ساتھ جڑی تمام اقدار کے حق میں ہمیشہ آواز بلند کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بیان کو توہین آمیز اور غیر ذمہ دارانہ قرار دینا صرف اس لیے تھا تاکہ وہ ملک کی تاریخ اور آزادی کی جدوجہد کو کمزور بنائیں۔
بی جے پی کے جے پی نڈا اور وزیر صحت نے راہل گاندھی کے اس بیان کو پورے ملک کی سالمیت کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ یہ ان کے نیتا کے بارے میں ایک ’’بے نقاب سچائی‘‘ ہے۔ نڈا نے گاندھی کے اس بیان کو محض ایک سیاسی حربہ قرار دیا،تاکہ اپوزیشن کے شکوک و شبہات کو دور کیا جا سکے اور اس کے ذریعے اپنے مخالفین کو نکسلیوں اور غیر ریاستی عناصر کے ساتھ جوڑ کر عوامی رائے ہموار کی جا سکے۔
راہل گاندھی کا یہ بیان سیاسی سطح پر جتنی اہمیت رکھتا ہے،اتنی ہی اس پر کی جانے والی تنقید بھی دلچسپی کا باعث ہے۔ ان کے اس بیان کو سبقت لسانی سمجھنا درست ہے کیونکہ سیاست میں کبھی کبھار ایسے بیانات دیے جاتے ہیں جو ایک وقت میں سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ دوسری جانب، حقیقت بیانی کے تناظر میں یہ بیان ان تمام حقائق اور مسائل کی عکاسی کرتا ہے جو راہل گاندھی نے اپنی تنقید میں پیش کیے ہیں۔ انہوں نے آئین کے تحفظ،اداروں کے قبضے اور حکومت کی پالیسیوں پر سوالات اٹھائے ہیں، جو ایک سیاسی حقیقت بیانی کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کا مقصد عوام کو یہ سمجھانا تھا کہ موجودہ سیاسی منظرنامہ ایک حقیقت ہے اور اس کے حوالے سے آواز بلند کرنا ضروری ہے تاکہ عوام میں شعور پیدا ہو سکے۔