محمد فاروق اعظمی
تعلیم ایک ایسا چراغ ہے جو اندھیرے میں روشنی دیتا ہے، قوموں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے اور انسان کو شعور اور شعائر کی بلندیوں پر لے جاتا ہے۔ مگر جب یہی تعلیم کسی سیاسی یا انتظامی کھیل کا شکار بنے تو یہ چراغ بجھنے لگتا ہے،اس کے ستون لرزنے لگتے ہیںاور یہ معاشرتی نظام کو زوال کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کی جانب سے حالیہ پیش کردہ رہنما خطوط اسی طرح کے ایک کھیل کا پتہ دیتے ہیں،جہاں اصلاحات کے پردے میں تعلیمی نظام کو ہدف بنایا جارہا ہے۔ یہ رہنما خطوط،جن کا مقصد بظاہر تعلیمی معیار کو بلند کرنا ہے،درحقیقت کئی بنیادی سوالات جنم دیتے ہیں۔
یو جی سی کی جانب سے تجویز کردہ سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ ایم ای اور ایم ٹیک پوسٹ گریجویٹس کو نیٹ(نیشنل ایلجبلیٹی ٹسٹ)پاس کیے بغیر اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے کیلئے اہل قرار دیا جائے گا۔ یہ اقدام بظاہر انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے میدان میں قابلیت رکھنے والے افراد کو تدریس کے مواقع فراہم کرنے کی غرض سے کیا گیا ہے۔ لیکن اس فیصلے سے نیٹ کی اہمیت کم ہو جائے گی جو اساتذہ کی قابلیت اور معیار کو جانچنے کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔ کیا یہ اقدام معیاری تعلیم کیلئے نقصان دہ ثابت نہیں ہوگا؟ نیٹ کا مقصد اساتذہ کی بنیادی قابلیت کو یقینی بنانا تھااور اس شرط کو ختم کرنے سے غیر معیاری تدریس کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ،صنعت کے ماہرین اور غیر تعلیمی شعبوں کے رہنمائوں کو وائس چانسلرز کے عہدے کیلئے اہل قرار دینے کی تجویز بھی قابل غور ہے۔ یہ تجویز بظاہر تعلیمی اداروں میں انتظامی مہارت لانے کی کوشش ہے،لیکن یہ فیصلہ تعلیمی اداروں کی خودمختاری اور معیار پر کیا اثر ڈالے گا؟ ایک وائس چانسلر کو نہ صرف انتظامی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ تعلیمی امور کی گہری سمجھ بوجھ بھی ضروری ہے۔ اس اقدام سے یہ خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ غیر تعلیمی پس منظر رکھنے والے افراد تعلیمی اداروں کی سمت کا تعین کریں گے،جو تعلیمی معیار کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
رہنما خطوط میں اکیڈمک پرفارمنس انڈیکیٹر(API) سسٹم کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے،جو اساتذہ کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے استعمال ہوتا تھا۔ اس کی جگہ تحقیقاتی اشاعتوں،جدید تدریسی طریقوںاور ڈیجیٹل مواد کی تخلیق پر توجہ دی جائے گی۔ اگرچہ یہ اقدامات مثبت دکھائی دیتے ہیں،لیکن API کو ختم کرنے سے شفافیت اور جواب دہی متاثر ہوسکتی ہے۔ اساتذہ کی ترقی کیلئے واضح اور قابل پیمائش معیارات کا ہونا ضروری ہے تاکہ کارکردگی اور ترقی میں توازن برقرار رکھا جا سکے۔
یو جی سی کے مسودے میں ریاستی حکومتوں کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش بھی واضح ہے۔ مجوزہ قوانین کے تحت،ریاستی حکومتوں کا وائس چانسلرز کی تقرری کے عمل میں عمل دخل نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔ یہ اقدام مرکزی حکومت کو غیر ضروری اختیارات دے سکتا ہے اور ریاستوں کی خود مختاری کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ کئی ریاستوں میں پہلے ہی گورنر اور حکومت کے درمیان اس مسئلے پر تنازع چل رہا ہے اور یہ تبدیلی اس تناؤ کو مزید بڑھا سکتی ہے۔
خاص طور پر مغربی بنگال میں،وائس چانسلر کی تقرری کو لے کر گورنر اور ریاستی حکومت کے درمیان شدید تنازع دیکھنے کو ملا ہے۔ ممتابنرجی کی حکومت نے گورنر پر الزام لگایا کہ وہ ریاستی حکومت کی جانب سے دی گئی امیدواروں کی فہرست کو نظر انداز کر کے اپنی مرضی سے وائس چانسلرز کی تقرری کر رہے ہیں۔ اس تنازع نے سپریم کورٹ تک کا راستہ دیکھا،جہاں گورنر کو ہدایت دی گئی کہ وہ ریاست کی طرف سے تجویز کردہ فہرست سے موزوں امیدواروں کا انتخاب کریں۔ یہ صورتحال اس بات کی عکاس ہے کہ کس طرح گورنر کی مداخلت ریاستی یونیورسٹیوں کے انتظام میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
مزید برآں،نئے رہنما خطوط کے مطابق،کسی مضمون میں پی ایچ ڈی کرنے والے امیدواروں کو اس مضمون میں تدریس کی اجازت ہوگی،چاہے ان کی انڈرگریجویٹ یا ماسٹر ڈگری کسی مختلف شعبے میں ہو۔ یہ تبدیلی بظاہر تدریس کے میدان کو مزید جامع بنانے کی کوشش ہے،لیکن کیا یہ طلبا کیلئے نقصان دہ ثابت نہیں ہو سکتی؟ کسی مضمون کی تدریس کیلئے اس مضمون کی مکمل سمجھ بوجھ ضروری ہوتی ہے اور متضاد تعلیمی پس منظر رکھنے والے اساتذہ کے لیے یہ ممکنہ طور پر چیلنج بن سکتا ہے۔
یو جی سی کے نئے مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو سخت سزا دی جائے گی،بشمول ان کی ڈگریوں کو مسترد کرنا اور ان کے آن لائن پروگرام بند کرنا۔ یہ اقدام سخت گیر دکھائی دیتا ہے اور تعلیمی اداروں کو مزید دباؤ میں ڈال سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی،ایسے سخت اقدامات سے تعلیمی اداروں کی خود مختاری اور ان کے آزادانہ کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔
یو جی سی کی ان تجاویز میں سیاسی ایجنڈے کی ناگواربدبو بھی اٹھ رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قوانین ریاستی یونیورسٹیوں میں مرکزی حکومت کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کیلئے بنائے گئے ہیں، خاص طور پر ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے۔ گورنر کے ذریعے وائس چانسلرز کی تقرری کے اختیارات میں اضافہ اور ریاستی حکومتوں کے کردار کو کم کرنے کی کوشش ان ریاستوں کی خود مختاری پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔
یہ بھی واضح ہے کہ نیٹ کو ختم کرنے اور وائس چانسلرز کیلئے غیر تعلیمی ماہرین کو اہل قرار دینے جیسے اقدامات تعلیمی معیار کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی جیسے معزز اداروں کے ماہرین پہلے ہی ان تجاویز کی مخالفت کر رہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ یہ اصول تعلیمی قابلیت کو نظر انداز کرتے ہیں اور تحقیق و تدریس کے معیار کو کمزور کرتے ہیں۔
دیگر مسائل میں،یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یو جی سی نے تحقیقی اشاعتوں کی قدر کو بڑھانے کیلئے ایک نظام تجویز کیا ہے۔ لیکن کیا یہ واقعی تحقیقی معیار کو بہتر کرے گا یا صرف اشاعت کی تعداد میں اضافہ کا باعث بنے گا؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔
ان حالات میں،یہ ضروری ہے کہ یو جی سی اپنی تجاویز پر نظرثانی کرے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ وسیع مشاورت کرے۔ معیاری تعلیم کو یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ان تبدیلیوں پر مزید بحث و مباحثہ کیا جائے،تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان کے اثرات مثبت ہوں۔ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا ستون ہے اور اس کے ساتھ کسی بھی قسم کی مصلحت بازی ناقابل قبول ہونی چاہیے۔ اگر یہ اصول نافذ ہوگئے تو یہ اعلیٰ تعلیم کے نظام کو مزید پیچیدگیوں میں ڈال سکتے ہیں اور معیاری تعلیم کی فراہمی میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔