خواجہ عبدالمنتقم
ہمارے وزیراعظم نے 18ویں پرواسی بھارتیہ دوس سمیلن کا افتتاح کرتے ہوئے یہ ایک انتہائی مثبت پیغام دیا کہ ہمارا مستقبل یدھ میں نہیں، بلکہ بدھ میں ہے۔یہ مفروضہ مبنی برحقیقت ہے اور اگر اس پر عمل کیا جائے تو یہ دنیا یقینی طور پر جنت نظیر بن جائے گی۔ آئیے اب اس بات پر غور کرتے ہیں کہ وزیر اعظم نے بدھ کا حوالہ کیوں دیا؟ انہوں نے یقینی طور پر اس مذہب کا حوالہ ان اصولوں اور اقوال کی بنیاد پر دیا جو ہم سب کے لیے دنیا میں امن وامان قائم رکھنے اور عدم تشدد کا راستہ اپنانے کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اس مفروضے کو ملکی اور عالمی پیمانے پرعملی شکل د ے کر بہت سے اندرونی و بیرونی مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ ان پر عمل کیے بغیرہمارے وزیراعظم کی یہ نصیحت بے معنی ہوجائے گی۔ یہ اقوال و نکا ت درج ذیل ہیں :
٭ صالح قول بغیر عمل صالح کے اس پھول کی مانند ہے جس میں رنگ تو ہے لیکن خوشبو نہیں ہوتی۔ پھول کی خوشبو ہوا کے خلاف پھیل نہیں سکتی لیکن اچھے آدمی کا احترام ہوا کے خلاف دنیا میں پھیل جاتا ہے۔
٭غلطیوں اور خامیوں کی نشاندہی اوربرائی کرنے والوں کا اس طرح احترام کیا جانا چاہیے گویا انہوں نے چھپا ہوا خزانہ دستیاب کرا دیا ہو۔
٭ دوسروں کی غلطیاں نکالنا آسان ہے لیکن اپنی غلطیاں تسلیم کرنا بہت مشکل ہے۔ آدمی سوچے بغیر دوسروں کے گناہوں کو نشر کرتا ہے لیکن اپنے غلطیوں کو اس طرح چھپاتا ہے جیسے کوئی جواری اپنے پانسے کو۔
٭ آدمی خود ہی اپنا مالک ہے، خود ہی اپنا نخلستان ہے، اسی لیے سب سے زیادہ اپنے آپ کو قابو میں رکھنا چاہیے۔ اپنے ذہن پر قابو پانا، بکواس نہ کرنا اور فکرمند رہنا دنیاوی بندھنوں سے نجات پانے کے لیے پہلا قدم ہے۔
٭جس طرح بڑا پتھر ہوا سے نہیں ہلتا، اسی طرح عقلمند آدمی پر خوشامد یا گالی کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ جو یہی سوچتا ہے کہ اس نے مجھے گالی دی، مجھ پر ہنسا، اس نے مجھے مارا، اس کا غصہ کبھی نہیں اترتا۔ ذہن میں مزاحمت کی موجودگی سے غصہ نہیں مٹتا ہے۔ مزاحمت کو بھول جانے سے ہی غصہ مٹ جاتا ہے۔ اگر چھت ٹھیک سے نہ بنائی گئی یا درست نہ کی گئی تو بارش کی بوندیں گھر میں چونے لگیں گی۔ اس طرح بے قابو یا غیر تربیت یافتہ ذہن میں لالچ گھس جاتا ہے۔
٭اپنے آپ پر فتح پانا یعنی صرف وہ کرنا جو جائز ہے، جنگ میں ہزاروں دشمنوں کو فتح کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔
٭ بیتے دنوں کے سائے کا پیچھا کرکے پچھتاناکٹے ہوئے سرکنڈوں کی فکر کرنا ہے۔ حال کے لیے عقلمندی اور سنجیدگی کے ساتھ زندگی بسر کرنا ذہن اور صحت دونوں کو درست رکھتا ہے۔ اس لیے حال کے ایک ایک لمحے پر دھیان رکھنا چاہیے۔ اگر حال میں کوئی کام غلط ہورہا ہے یا اچھی طرح نہیں ہورہا ہے تو اس کو ابھی عمل کرکے آج کے دن ہی اچھا بنایا جاسکتا ہے اور اسے کل تک کے لیے ملتوی نہیں کرنا چاہیے۔ جس طرح تیر بنانے والا اپنے تیروں کو سیدھا بنانے کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح عقل مند آدمی اپنے ذہن کو سیدھا رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ پریشان ذہن ہمیشہ سرگرم رہتا ہے، اس پر قابو پانا مشکل ہے اور وہ بھٹکتا رہتا ہے اس لیے ذہن پر قابو پانے سے ہی سکون حاصل ہوسکتا ہے۔ آدمی کا ذہن ہی اسے گناہ کی طرف لے جاتا ہے، اس کا دشمن یا حلیف نہیں۔
٭ عقیدہ (یعنی صحیح عقیدہ) آدمی کا ایسابہترین دوست ہے اور حکمت آدمی کی بہترین رہنما ،جو آدمی کو جہالت اور دکھ کی تاریکی سے نجات دلاسکتے ہیں۔
٭ ہر چیز بدلتی رہتی ہے، نئی نئی چیزیں ظہور میں آتی رہتی ہیں اور معدوم ہوجاتی ہیں۔ایسی صورت میں انسان کو کچھ دشواریوں کا سامنا تو کرنا ہی پڑسکتا ہے۔
٭ سچی تعلیمات کو بغیر جانے ہوئے سوسال زندہ رہنے کے مقابلے میں ان کو سن کر ایک دن جینا کہیں بہتر ہے۔
٭ جو خود اپنا احترام کرتا ہے، اسے خود کو گناہ سے بچتے رہنا چاہیے۔
٭ جس کو برائی سے نفرت کا احساس ہواور اچھی تعلیمات سننے سے مسرت کااحساس ہو، وہ کسی چیز سے نہیں ڈرتاہے۔
٭ لوہے سے پیدا شدہ زنگ لوہے کو برباد کردیتا ہے، اسی طرح برائی آدمی کے ذہن سے پیدا ہوتی ہے اور اس کو برباد کردیتی ہے۔
٭ یہ دنیا ہمیشہ جلتی رہتی ہے۔ لالچ، غصہ اور حماقت کی آگ میں جل رہی ہے۔ اس جلتے گھر سے جلد از جلد بھاگ نکلنا چاہیے۔
٭ نجاستوں میں سب سے بھیانک نجاست، جہالت کی نجاست ہے۔جہالت کو دور کیے بغیر آدمی اپنے ذہن اور بدنکو پاک کرنے کی توقع نہیں کرسکتا ہے۔ بے حیا بن جانا، کوے کی طرح زبان دراز اور بے باک ہونا، دوسروں کو چوٹ پہنچا کر بھی نہ پچھتانا آسان ہے مگر منکسر ہونا، دوسروں کی عزت کرنا، اپنے فکر وعمل کو پاکیزہ رکھنا اور عقل مند ہونا مشکل ہے۔
٭ تحمل کا عمل ایک مشکل ترین اصول ہے لیکن جو تحمل کرتا ہے آخری جیت اسی کی ہوتی ہے۔
٭ کوئی بھی برا عمل نہ کرنا، نیکی کرتے رہنا اور اپنے ذہن کو پاکیزہ رکھنا یہی بدھ کی تعلیمات کا جوہر ہے۔
مندرجہ بالا تمام اصول واقوال بہ اعتبار نوعیت ایسے ہیں جن کی صداقت اور معنویت کے بارے میں کوئی نادان ہی انگلی اٹھا سکتا ہے۔ان اصولوں پر عمل کرکے تو نہ صرف بیرونی بلکہ اندرونی مسائل کا بھی حل نکالا جا سکتا ہے مگر افسوس کہ آج کی دنیا میں ہم جن باتوں کی تبلیغ کرتے ہیں، ہم اس پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ ہم نے اپنی کئی تصانیف میں بھی اس بات پر زور دیا ہے اور اکابرین، سفارت کاروں و دانشمندوں سے اگر کہیں اس موضوع پر گفتگو کرنے کا موقع ملا تب بھی ہم نے یہی بات کہی۔ ہمیں یاد ہے کہ کئی سال قبل امریکی سفارت خانے میں ایک عشائیے کے دوران ہم نے امریکہ کے سیکریٹری آ ف اسٹیٹ نکولس برنس سے بھی دہشت گردی کے موضوع پر ایک مختصر گفتگو کے دوران یہ بات کہی تھی کہ ہم سب جو کچھ کہتے ہیں، اس پر عمل نہیں کرتے۔ نہ صرف ہمارے وزیراعظم بلکہ دنیا کے تمام سیاستداں ماسوائے چند گمراہ سیاستدانوں کے ہمیشہ یہی بات کہتے رہے ہیں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں اور کسی بھی مہذب معاشرے میں تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں لیکن آج دنیا کے مختلف حصوں میں، خواہ وہ یوکرین ہو، روس ہو، فلسطین ہو، یمن ہو، شام ہو یا اور دیگر ممالک، وہاں جو کچھ ہورہا ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے ،چھوٹے چھوٹے بچے اور حاملہ خواتین کو علاج میسر نہیں۔ اقوام متحدہ کے کارندوں اور صحافیوں و دیگر بے گناہ لوگوں کی کثیر تعداد میں جان جا چکی ہے۔ ایک طرف امن کی بات کی جارہی ہے تو دوسری جانب اپنے حلیف کو نام نہاد دفاع کے نام پر ہتھیار دیے جارہے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی کبھی اگر دشمن آپ کو ستائے تو ایسی کارروائیاں کرنی ہی پڑتی ہیں جیسے ہمیں سرجیکل اسٹرائیک اورہند-چین سرحد پر اپنے دفاع کے لیے ایسی کارروائیاں کرنی پڑیں۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]