ہندوستان کی حقیقی آزادی؟

0

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت کے حالیہ بیانات نے ایک بار پھر ملک کے سیاسی، سماجی اور تاریخی شعور کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ اندور میں 13 جنوری 2025 کو اپنے خطاب میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے دن ہندوستان نے اپنی ’’حقیقی آزادی‘‘حاصل کی۔ ان کے مطابق رام مندر کی تقدیس کی تاریخ کو ’’پرتشٹھا دوادشی‘‘ کے طور پر منایا جانا چاہیے۔ یہ بیانات نہ صرف تاریخ کے ایک متعین اور مستند بیانیے کو چیلنج کرتے ہیں بلکہ آزادی کی جدوجہد اور قومی آئین کی روح کو بھی پامال کرتے ہیں۔

موہن بھاگوت کا یہ کہنا کہ 15 اگست 1947 کو ہندوستان کو صرف سیاسی آزادی ملی، لیکن رام مندر کی تقدیس کے دن حقیقی آزادی حاصل ہوئی، اس بات کا مظہر ہے کہ آر ایس ایس ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے آخری پڑائوپر پہنچ چکا ہے۔ 15 اگست 1947 وہ دن تھا جب کئی دہائیوں کی جدوجہد، قربانی اور عدم تشدد کی تحریک کے بعد ہندوستان نے سامراجی تسلط سے نجات حاصل کی۔ یہ وہ دن تھا جب گاندھی، نہرو، مولانا آزاد، پٹیل اور لاتعداد گمنام مجاہدین کی کاوشوں کا ثمر ملا۔ لیکن بھاگوت کے بیانات اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں اور رام مندر تحریک کو ملک کی اصل آزادی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔آر ایس ایس کا یہ ایجنڈا نہ صرف تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش ہے بلکہ یہ ہندوستان کی تکثیریت اور تنوع کو یکسر مٹانے کی سازش بھی ہے۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف مذاہب، ثقافتوں اور زبانوں کے لوگ صدیوں سے باہم رہتے آئے ہیں۔ آر ایس ایس کے نظریات اس ہم آہنگی کو ختم کرکے ملک کو ایک مخصوص مذہبی تشخص کے دائرے میں محدود کرنا چاہتے ہیں۔

موہن بھاگوت کا یہ دعویٰ کہ رام مندر تحریک کسی کی مخالفت کیلئے نہیں بلکہ ہندوستان کے ’’خود‘‘ کو بیدار کرنے کیلئے شروع کی گئی تھی، ایک خطرناک سیاسی چال ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی مخصوص مذہب کے مذہبی مقام کو قومی شناخت کی بنیاد بنانا ایک جمہوری اور سیکولر ملک کے اصولوں کے مطابق ہے؟ ہندوستان کا ’’خود‘‘ اس کی تکثیریت، سیکولرازم اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی روایت میں مضمر ہے۔ رام مندر تحریک کو ’’خود‘‘ کی بیداری سے تعبیر کرنا اس ’’خود‘‘ کے محدود اور خطرناک مفہوم کی ترجمانی کرتا ہے۔
بھاگوت نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ حملہ آوروں نے ملک کے مندروں کو تباہ کیا تاکہ ہندوستان کی روح کو نقصان پہنچے۔ یہ بیانیہ تاریخی حقائق کو ایک مخصوص زاویے سے پیش کرنے کی کوشش ہے۔ ہندوستان کی تاریخ صرف حملوں اور تباہیوں کی تاریخ نہیں ہے بلکہ یہ تعمیر و ترقی، میل جول اور باہمی احترام کی تاریخ بھی ہے۔ ہر دور میں مختلف ثقافتوں نے ہندوستان کو نئے رنگ دیے ہیں اور اس کی شناخت کو وسعت بخشی ہے۔ لیکن آر ایس ایس کی کوشش ہے کہ ان رنگوں کو مٹاکر ملک کو ایک یک رنگی، سخت گیراور متشدد نظریے کی طرف دھکیلا جائے۔

اس پس منظر میں راہل گاندھی کے وہ بیانات اہم ہیں جن میں انہوں نے آر ایس ایس کو ہندوستان کی آزادی کی تحریک سے الگ اور سامراجی طاقتوں کا حامی قرار دیا تھا۔ ساورکر کا انگریزوں سے معافی مانگنا اور اس وقت کے کانگریس لیڈروں کی قید و بند کی صعوبتیں تاریخی حقائق ہیں، جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اس کے علاوہ آر ایس ایس کا ترنگے پرچم کے ساتھ رویہ بھی ان کے قومی نظریے پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔آر ایس ایس نے کئی دہائیوں تک ترنگا لہرانے سے گریز کیا جس کی وجہ ان کا یہ دعویٰ تھا کہ ہندوستان کو منو اسمرتی کی اصولوں پر چلایا جانا چاہیے۔ یہ رویہ ہندوستان کے جمہوری اور مساوات پر مبنی آئین کے خلاف ہے۔ موہن بھاگوت اور ان کے حامیوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آئین ہندوستان کے تمام شہریوں کے حقوق کا محافظ ہے اور اسے کسی مخصوص نظریے کے تابع نہیں کیا جا سکتا۔

رام مندر تحریک کے دوران یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا لوگوں کی روزمرہ ضروریات اور روزی روٹی کے مسائل کو نظر انداز کرکے مندر کی تعمیر کو ترجیح دینا درست ہے؟ بھاگوت نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی ترقی کا راستہ رام مندر کے دروازے سے گزرتا ہے۔ یہ بیانیہ عملی مسائل سے چشم پوشی کی علامت ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی اس کے شہریوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے سے ہوتی ہے نہ کہ مذہبی مقامات کی تعمیر سے۔

آر ایس ایس کے بیانات اور پالیسیاں بار بار یہ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ ہندوستان کے تکثیری تشخص کو یک رنگی میں تبدیل کرنے کی خواہاں ہے۔ لیکن یہ نہ صرف ہندوستان کے آئینی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ ملک کی ہزاروں سال کی تاریخ اور تہذیب سے بھی متصادم ہے۔ ہندوستان کی اصل طاقت اس کے تنوع میں مضمر ہے، جسے کسی بھی صورت محدود نہیں کیا جا سکتا۔موہن بھاگوت اور آر ایس ایس کو یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ ہندوستان کی ’’حقیقی آزادی‘‘ اس دن حاصل ہوئی تھی جب اس نے انگریزوں کی غلامی سے نجات پائی اور اپنے لیے ایک جمہوری اور سیکولر آئین بنایا۔ رام مندر کی تقدیس یا کسی اور مذہبی تحریک کو آزادی کی تعریف میں شامل کرنا تاریخ کے ساتھ کھلا ظلم ہے۔ ہندوستان کی ترقی، امن اور خوشحالی اسی وقت ممکن ہے جب وہ اپنے تمام شہریوں کے حقوق اور وقار کا تحفظ کرے اور تکثیریت کے اصولوں پر کاربند رہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS