ایم اے کنول جعفری
دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ کی کئی ریاستوں میںہو رہی برف باری سے جہاں عام زندگی مفلوج ہے، وہیں لاس اینجلس کے جنگل میں لگی آگ کے کئی شہروں کو اپنی گرفت میں لینے سے 250اَرب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ شدید برف باری کو لے کر تردد ہے توبے قابو آگ کے اسباب بھی تلاش کیے جا رہے ہیں۔ ماہرین اسے موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ مان رہے ہیں تو غزہ کے بے قصور شہریوں پر امریکی تعاون سے کی گئی اسرائیلی بمباری اور جبروتشدد کے پہاڑ توڑنے کو غلط ٹھہرانے والے لوگ برف اور آگ کے قہر کو قدرت کی بے آواز لاٹھی سے نکلا عذاب بتا رہے ہیں۔ 14 جنوری تک آگ میں جھلس کرہلاک ہونے والوں کی تعداد26 ہوگئی ہیں۔ان میں ایٹن کے16 اورپیلی سیڈس کے8لوگ شامل ہیں۔ 16 افراد لا پتہ ہیں۔ 13,400 سے زیادہ عمارتیں جل کر راکھ ہوگئی ہیں۔ محض8روز میں 200 اَرب ڈالرسے زیادہ کا نقصان معنی رکھتا ہے۔غزہ کو جہنم بنانے کی ضد پر اڑے سابق اور نو منتخب صدر ڈونالد ٹرمپ اور ان کے حواریوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کی تمام طاقتیں ایک ساتھ مل کر بھی باری تعالیٰ کی زبردست طاقت کے سامنے پل بھر نہیں ٹھہر سکتیں۔ ہر شخص بخوبی واقف ہے کہ آگ اور برف (پانی) ایک دوسرے کی ضد ہیں،لیکن امریکہ میں ایک دوسرے کے مخالف ان ہی عناصرنے2 لاکھ سے زیادہ افراد کو ایک ہی وقت میں گھر سے بے گھراور نقل مکانی پر مجبور کر دیا۔پیلی سیڈس میں 21,000 ایکڑ، ایٹن میں 14,000 ایکڑ، کینیتھ میں 1,000 ایکڑ، ہرسٹ میں 775 ایکڑ اورلیڈیا میں100ایکڑ سمیت 40,000 ایکڑ علاقہ آتش زدگی کی گرفت میں ہے۔
ماہرین کے مطابق مغربی امریکہ میں جنگل کی آگ اور برف تیزی کے ساتھ ’اوورلیپ‘ ہو رہے ہیں۔ آگ سے برف کی مقدار یا تہہ میں کمی کے امکان ہیں۔ جنگل کا اُوپری حصہ صاف ہونے سے سورج کی زیادہ روشنی برف تک پہنچ کر اُسے پگھلا دیتی ہے۔جس علاقے میں موسم کے مطابق برف پڑتی ہے، وہاں آگ لگنے کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کیلیفورنیا کے برف والے علاقوں میں 2018-19کے مقابلے2020-21میں آتش زدگی کے واقعات میں10فیصد تک کا اضافہ ہوا۔ برف باری اور بارش سے زندگی کا نظام درہم برہم ہے۔ راستے،پروازیں اور تعلیمی ادارے بند ہیں۔ اٹلانٹا ریاست میں برفیلے طوفان سے ٹیکساس، اوکلا ہوما اور آرکنساس کے زیادہ تر حصوں میں برف جمنے سے عام زندگی مفلوج ہے۔ یہاں 31سینٹی میٹر تک برف پڑی۔ جارجیا، شمالی کیرولینا، ٹینیسی اور مغربی ورجینیا کے کچھ حصوں میں20.32سینٹی میٹر برف گری، جب کہ لٹل راک میں25.4سینٹی میٹر بارش ہوئی۔برفانی طوفان کا مزید انتباہ دیتے ہوئے کئی صوبوں میں ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے۔ دوسری جانب لاس اینجلس میں لگی آگ کو تاریخ کی بدترین آگ بتایا جا رہا ہے۔یہ آگ خشک آب و ہوا اور تیز ہواؤں والے پیسفک پیلی سیڈس سے شروع ہوئی تھی،جو بری طرح تباہ ہوچکا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ ایک جانب جہاں بندوق کی گولی کی طرح نکلی آگ کی تباہ کاریاں جاری ہیں،وہیں برفانی طوفان سے نظام زندگی میں جمود کی صورت حال ہے۔ یہ صورت حال اسرائیل کے ذریعہ غزہ کے بے قصور، بھوکے، پیاسے، بے گھربار اور بے سہارا شہریوں پرآسمان سے گولے برساکر اُنہیں آگ کی لپٹوں اور مٹی کے ڈھیر میں دفن ہوتے دیکھ خوشیاں منانے والے لوگوں کے لیے مقام عبرت ہے۔ لیکن غزہ کے معصوم بچوں، کمزور بزرگوں،نحیف عورتوں اور عام شہریوں کی جلتی لاشوں کو دیکھ کر جشن منانے والے صہیونی رہنما اور معاون ممالک کے لیڈران ابھی بھی ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ہیں۔عالم اسلام سمیت پوری دنیا نے غزہ کے شہریوں کو لاشوں میں تبدیل ہوتے دیکھ کر بھی اپنے ہونٹوںکو سل رکھا ہے۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لا س اینجلس کے جنگلات میں لگی آگ بے قابو ہوکر رہائش گاہوں تک پہنچ گئی۔یہ شہر اپنی عالی شان بلڈنگوں اور خوبصورت عمارتوں کے لیے الگ پہچان رکھتا ہے۔ سیرو سیاحت پسند دنیا بھر کے دولت مند افراد اس شہر کا رُخ کرتے ہیں۔جنگل کی آگ نے اس خوبصورت اور دلکش شہر کو بری طرح تباہ کردیا ہے۔ کیلیفورنیا کے جنگلوںمیںعام طور پر جون سے اکتوبر کے درمیان آگ لگتی ہے،لیکن اس مرتبہ جنوری میں ہی آگ کی شدت اپنے عروج پر ہے۔درجۂ حرارت میں اضافہ اور بارش کی کمی اسے اور سنگین بنا رہی ہے۔ اسی طرح کے منظرنامے ہمیں آگاہ کرتے ہیں کہ حسن، خوبصورتی، دلکشی، جاذبیت،دولت،شہرت وقوت جیسی عنایات اور قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کو بھی زوال ہے۔ باری تعالیٰ انہیں دینے اور چھین لینے پر قادر ہے۔7جنوری بروز منگل سے شروع ہوئی آگ ہزاروں ایکڑ میں پھیل کر عمارتوں اور رہائش گاہوں کو تباہ کر چکی ہے۔ بے قابو آگ کی شدت کے مدنظر لاس اینجلس کے علاقہ’بریٹن ووڈ‘ میں مقیم نائب صدر کملا ہیرس کی عمارت کو بھی خالی کرانے کی نوبت آئی۔لاس اینجلس کاؤنٹی شیرف(ضلع سی ای او) رابرٹ لونا کا کہنا ہے کہ آگ ایسے لگ رہی ہے،جیسے ان علاقوں پر ایٹمی بم گرادیاگیاہو۔ امن و امان کی بگڑتی صورت حال کے مد نظر سنتا مونیکا شہر میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔امریکی فلمی صنعت ہالی ووڈ ہلز تک پہنچی آگ نے کئی مشہور و معروف شخصیات کے اربوں روپے کی مالیت کے گھر جلاکر خاکستر کر دیے ہیں۔ ان میں پیرس ہلٹن، اسٹیون اسپیل برگ، مینڈی مور، ایشٹن کچر وغیرہ شامل ہیں۔ اسرائیل-غزہ کے درمیان جاری جنگ میں اسرائیل کی حمایت کرنے،غزہ میں جنگ بندی نہیں کرنے اور’کِل دیم آل‘ یعنی ’سبھی کو مار ڈالو‘ کی بات کرنے والے ہالی ووڈ کے مشہور اداکار ’جیمس ووڈ‘ اپنا گھر جلتے دیکھ کر روتے ہوئے نظر آئے۔اس بے انتہا مہنگے علاقے میں لگی آگ سے 5,300 عمارتیں جل کر تباہ ہو چکی ہیں۔آگ سے ہونے والے نقصانات کی بھرپائی کو دیکھتے ہوئے انشورنس کمپنیوں کی راتوں کی نینداُڑ گئی ہے اور دن کا سکون چھن گیا ہے۔آگ بجھانے کے لیے84ہوائی جہاز و ہیلی کاپٹرز،7500فائر فائٹرس اور 15,000 رضاکار تعینات کیے گئے ہیں۔
امدادی ٹیمیں اپنا کام کر رہی ہیں،لیکن کئی مقامات پرآگ بجھانے کے آلات ’فائر ہائیڈرنٹس‘ خشک پڑے ہیں۔ پانی ختم ہونے سے بھی پریشانیاں بڑھی ہیں۔ اسکولوں، کمیونٹی مراکز اور دیگر محفوظ مقامات کو ہنگامی پناہ گاہوں میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔آگ کی لپٹوں میں گھری عمارتوں میں موجود لوگوں کوتلاش کرنے کا کام جاری ہے۔’ڈاگ اسکوائڈ‘ کی مدد بھی لی جا رہی ہے۔ کیلیفورنیا میں خشک آب و ہوا اور تیز ہواؤں کی بنا پر جنگل میں آگ لگنے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ خشک پیڑوں کے آپس میں ٹکرانے سے نکلنے والی چنگاریاں آگ لگنے کا باعث بنتی ہیں۔ حالیہ آگ کی بابت الگ الگ باتیں کی جا رہی ہیں۔ کوئی اسے جان بوجھ کر لگائی آگ بتا رہا ہے تو کوئی اسے دشمن ملک کی سازش کہہ رہا ہے۔بظاہر آگ لگنے کی 3 وجوہات ہیں۔ان میں خشک موسم، موسمیاتی تبدیلی اور سینٹا اینا ہوائیں شامل ہیں۔ عام طور پر یہ ہوائیں 100سے130کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں،لیکن کبھی کبھی شدت اختیار کرکے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ جاتی ہیں۔کیلیفورنیا کے علاقے پیلی سیڈس،ایٹن، ہرسٹ، لیڈیا،کینیتھاورسن سیٹ کی صورت حال آتش کدہ جیسی ہے،جب کہ کچھ دیگر علاقوں کے آگ کی زد میں آنے کا خدشہ ہے۔
دنیا کے امیرترین ملک امریکہ کے سب سے خوش حال شہر لاس اینجلس میں آگ پر قابو پانے کے انتظامات انتہائی اعلیٰ سطح کے ہیں۔ اس کے باوجود وہاں آگ سے 250ارب ڈالر کا نقصان ہوچکاہے۔ آگ میں کئی مشہور شخصیات کے گھربھی جلے۔یہ تصور کرناکافی مشکل اورتکلیف دہ ہے کہ وہاں کے لوگوں پر کیا گزر رہی ہے؟یقینی طور پر یہ سانحہ انتہائی درد دینے والا ہے، لیکن دنیا کو اسی طرح کی فکر، ہمدردی، انسانیت اورجذبہ غزہ کے لوگوں کے لیے بھی دکھانا چاہیے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]