حق آزادیِ اظہارِ رائے کے حدود وضع اور واضح کرنے کی ضرورت: اسد مرزا

0

اسد مرزا

مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کے مالک ایلون مسک کے عالمی رہنماؤں اور حکومتوں کے خلاف حالیہ بظاہر سنکی اور غیر ضروری تبصروں نے ایک مرتبہ پھر آزادیِ اظہارِ رائے کی حدود متعین کرنے کے معاملے کو عالمی بحث کا حصہ بنادیا ہے۔ عملاً آزادیِ اظہارِ رائے معاشرے کے جمہوری اور شائستگی کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے،لیکن مسک اس کی پابندی کرتے نظر نہیں آرہے ہیں۔گویا کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ دنیا کو ہراساں کرنے کے لیے کافی نہیں تھے، کہ اب ان کے ساتھ ان کے حمایتی، ٹیک زار ایلون مسک بھی شامل ہوگئے ہیں۔ جنھیں اب عالمی رہنماؤں، شخصیات اور حکومتوں کو ٹرمپ کے ساتھ برداشت کرنا پڑے گا۔ مسک جو کہ بظاہر ٹرمپ جیسے سانچے میں ہی ڈھالے گئے ہیں، وہ مختلف ممالک کو نشانہ بنائے جانے والے اپنے سوشل میڈیا تبصروں کی وجہ سے عالمی رہنماؤں اور سیاست دانوں کے لیے ایک وبالِ جان بنتے جارہے ہیں۔ یہاں حیرت اس بات پر ہے کہ مسک کو ہر ایک پر تنقید کرنے کا حق کس نے دیا ہے؟ آپ کے ٹیک زار ہونے کے ناطے آپ کو کسی بھی عالمی مسئلے پر ناراضگی کا سبب بننے کا حق حاصل نہیں ہے۔مسک کے غیر شائستہ تبصروں اور نکتہ چینیوں نے تازہ ترین نشانہ برطانوی وزیر اعظم اور بادشاہ چارلس III کو بنایا ہے، جنہیں انہوں نے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کرانے کا مشورہ دیا ہے۔

بظاہر ٹیسلا کے باس نے مانچسٹر اور دیگر برطانوی شہروں میں مجرمانہ گینگ کی تحقیقات سے متعلق حکومت کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے اپنی ایک پوسٹ میں کہاکہ برطانیہ میں، عصمت دری جیسے سنگین جرائم کے لیے پولیس کو مشتبہ افراد پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے کراؤن پراسیکیوشن سروس کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ سی پی ایس کا سربراہ کون تھا جب عصمت دری کے گروہوں کو انصاف کا سامنا کیے بغیر نوجوان لڑکیوں کا استحصال کرنے کی اجازت دی گئی؟ کیر اسٹارمر، 2013 -2008۔ مسک نے نئے سال کے دن اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر پوسٹ کیا۔’’بادشاہ کو ضرورکارروائی کرنی چاہیے ۔ ہم کیر کو ملک کی سربراہی نہیں دے سکتے، جب کہ وہ اس وقت کراؤن پراسیکیوشن سروس [CPS] کے سربراہ تھے جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا۔‘‘
مسک کے ان تبصروں کو واضح طور پر لیبر پارٹی کی جانب سے متوقع تنقید حاصل ہوئی۔ ان کے تبصروں کا جواب دیتے ہوئے، ہیلتھ سیکریٹری ویس اسٹریٹنگ نے کہا کہ ’’مسک نے غلط اندازہ لگایا اور یقینی طور پر انھیں غلط معلومات دی گئیں۔‘‘ لیبر منسٹر اینڈریو گیوین نے ایل بی سی ریڈیو کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران ان جذبات کی بازگشت کی ’’ایلون مسک ایک امریکی شہری ہیں اور شاید انہیں بحر اوقیانوس کے دوسری طرف کے مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔‘‘

مسک جو جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے تھے لیکن وہ ایک قدرتی امریکی شہری بھی ہیں، امریکی سیاست میں حصہ لینے کے لیے بھی جانے جاتے ہیں اور ٹرمپ کی صدارتی مہم کا ایک نمایاں حصہ تھے، حالانکہ اس سے قبل وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے سخت ناقد تھے، پھر بھی بظاہر انھوں نے صدارتی مہم کے دوران اپنی حمایت اور سیاسی موقف بدلتے ہوئے ٹرمپ کی مہم کے لیے تقریباً 277 ملین ڈالر عطیہ کیے تھے۔ اس کے بعد سے، وہ ٹرمپ کا ایک ملحقہ بن گئے ہیں اور ٹرمپ کے مار-اے-لاگو ریزروٹس میں ایک وِلا کرایہ پر لے کر رہتے ہیں، جس سے انھیں جب موقع ملتا ہے وہ ٹرمپ کی رہائش گاہ پرپہنچ جاتے ہیں۔ مسک سے اپنی بڑھتی ہوئی قربت اور تنقید کا مقابلہ کرنے کے لیے، گزشتہ ماہ ٹرمپ نے ان دعوؤں کی تردید کی تھی کہ انھوں نے مسک کو ’’صدارت سونپ دی ہے۔‘‘

برطانیہ کے سیاست داں مسک کی بڑھتی ہوئی سنکی مداخلتوں کا نشانہ بننے میں تنہا نہیں ہیں۔ انہوں نے جرمنی کے چانسلر اولاف شولز کو’’احمق‘‘ اور ملک کے سربراہ مملکت، صدر فرینک والٹر اسٹین مائر کو ’’جمہوریت مخالف اور ظالم‘‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کو بھی ’’ناقابلِ برداشت‘‘ قرار دیا ہے جو ’’زیادہ دیر اقتدار میں نہیں رہیں گے۔‘‘ انہوں نے ٹرمپ اور پوتن کے جھگڑے کے بعد یوکرین کے صدر زیلنسکی کا بھی مذاق اڑایا۔اس کے علاوہ وہ امریکی حکومت کی ویزا پالیسی اور دیگر مسائل پر تبصرہ بھی کرتے رہے ہیں۔
بی بی سی کے سفارتی نامہ نگار جیمز لینڈل نے بجا طور پرٹرمپ کے حالیہ تبصرے پر حیرت کا اظہار کیا جس میں انھوں نے برطانوی حکومت سے شمالی سمندروں میں تیل نکالے جانے کی حمایت کی تھی اور کہا کہ کیا یہ ٹرمپ کی طرف سے امریکی فرم کا محض جانا پہچانا دفاع تھا اور اس کی فوسل فیول کی حامی جبلتوں کی تکرار تھی؟ یا کیا یہ صدر منتخب کی طرف سے اپنے پرانے اتحادی کی اس کی گھریلو پالیسیوں میں مداخلت کے مترادف تھا ؟
اس کے ساتھ ہی لینڈل نے آگے کہا کہ اب بنیادی فرق – چار سال کے عرصے کے بعد کا یہ ہے کہ ٹرمپ اب اس طرح کے بیانات دینے میں اکیلے نہیں ہیں۔اب ان کے ساتھ ان کا طاقتور ساتھی ، ایلون مسک بھی ہے اور وہ شاید ٹرمپ سے بھی زیادہ قابل ہے، جس نے اپنے پلیٹ فارم، X کا استعمال کرتے ہوئے برطانوی حکومت پر پوری طرح سے حملہ کیاہے۔لینڈل کا مزید کہنا ہے کہ اس طرح کی جملہ بازی یا تبصرے سفارتی دنیا میں ناپسند کیے جاتے ہیں اور وہ بھی جب کہ آپ کے پاس کوئی سیاسی یا حکومتی پوزیشن نہ ہو۔ لینڈل کا کہنا ہے کہ برطانوی سیاست داں بحر اوقیانوس کے اس پار سے ان تبصروں کو نہیں روک سکتے، لیکن وہ اپنے ردعمل کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ انھوں نے ٹرمپ کی پہلی میعاد کے دوران کیا تھا، یعنی کہ حکومتوں – اور نیوز ڈیسک – نے وائٹ ہاؤس کے الیکٹرانک میزائلوں کا جواب دینے یا رپورٹ کرنے سے پہلے ایک لمحہ توقف اختیار کرنا سیکھا تھا، جس سے کہ بات بگڑے نہیں اور اب انھیں دوبارہ یہی کرنا ہوگا۔ایک اور مضمون میں بی بی سی کی ماریانا اسپرنگ کا کہنا ہے کہ جب سے مسک نے دو سال قبل سوشل میڈیا سائٹ ٹوئٹر حاصل کی ہے،تب سے انھوں نے ٹوئٹر کو آزادیِ اظہارِ رائے کا گڑھ قرار دیا ہے۔ لیکن 2024 کے دوران، X، جیسا کہ اسے اب کہا جاتا ہے، ایک فرقہ وارانہ سوچ اور ایک پولرائزڈ مرکز میں تبدیل ہوچکا ہے، جہاں خیالات اور پوسٹس اور بھی زیادہ متنازع لگنے شروع ہوچکے ہیں۔کچھ Xپروفائلز جنہوں نے سیاست اور خبروں کو گمراہ کن انداز میں شیئر کیا ہے، ان میں سے کچھ پر نفرت پھیلانے کا الزام بھی لگایاجاچکا ہے، لیکن اس کے باوجود انھیں مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔

ماریانا بہت مناسب طریقے سے کہتی ہیں کہ یہ سب کچھ اس لیے اہمیت رکھتا ہے کہ شاید X کے اتنے صارفین نہ ہوں جتنے دوسری بڑی سوشل میڈیا سائٹس کے ہیں، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ اس کا سیاسی مباحثوں پر خاصا اثر پڑتا ہے۔ نہ صرف یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں بعض اعلیٰ سطح کے سیاست داں، حکومتیں اور پولیس فورس بیانات اور خیالات کا اشتراک کرتے ہیں ، بلکہ اب اس کے مالک مسٹر مسک نے خود کو ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ براہ راست جوڑنے کے بعد ٹرمپ اور اپنی نافہم سوچ ظاہر کرنے کا مرکز بنادیا ہے۔

مسک کی X کی ملکیت کے آخری دو سالوں کے دوران، لوگوں نے دیکھا کہ یہ ایک نفرت انگیز پلیٹ فارم بن گیا ہے، جس پر دائیں بازو یا انتہائی دائیں بازو کا جھکاؤ رکھنے والے صارفین کو اپنے مخالفین پر تنقید کرنے کی زیادہ آزادی دی جاتی ہے یعنی کہ حقِ اظہارِ رائے کے بجائے اور اس کا ایک واضح ثبوت ہم ہندوستانی سیاست میں بھی دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح سے X پر جھوٹے اور فرضی اکاؤنٹس بناکر ایک خاص طبقے کے خلاف جھوٹی اور یکطرفہ خبریں، معلومات اور تبصرے پوسٹ کیے جاتے ہیں اور بظاہرXان فرضی اکاؤنٹس کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھاتے ہوئے ان افراد کے اکاؤنٹس کو بلاک کردیتا ہے جو کہ نازیبا اکاؤنٹس کی معلومات کا صحیح جواب یا ان کو صحیح تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہاں تک کہ ہندوستان میں اس طریقے کے افراد پر فردِ جرم بھی عائد کردی جاتی ہے، جو سچ یا حق کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔دراصل جب سے سوشل میڈیا سائٹس کا ایک سیلاب انٹرنیٹ پر آیا تھا، تب سے یہ امید کی جارہی تھی کہ شاید اب عالمی سطح پر سچی خبریں اور بیانات کو فروغ دیا جاسکے گالیکن جیسا کہ ہر عمل کا ایک منفی پہلو بھی ہوتا ہے اسی طرح ان سوشل میڈیا سائٹس پر بھی ایک طریقے سے جھوٹ کا غلبہ ہوتا چلا جارہا ہے جو کہ حقِ اظہارِ رائے کے اور جمہوری نظام کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوسکتا، اس کے لیے ضروری ہے کہ عالمی سطح پر کوئی ایسا نظام بنایا جائے جو کہ ان سوشل میڈیا سائٹس پر بھی قدغن لگاسکے۔

(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS