پنکج چترویدی
تجاوزات کے لیے خشک ہو رہی، گھریلو اور دیگر کچرے کی وجہ سے تعفن زدہ، پانی کے بہاؤ کے راستے میں حائل رکاوٹوں کی وجہ سے خشک ہوتی، صفائی نہ ہونے کی وجہ سے اُتھلی ہوتی اور آب و ہوا میں تبدیلی سے نبرد آزما دنیا بھر کی جھیلیں بیمار ہو رہی ہیں۔ انسانوں کی طرح ہی بیمار اور اس کا اثر پورے نیچر کے ساتھ ساتھ انسانوں پر بھی پڑ رہا ہے۔ بین الاقوامی جریدے ’’ارتھ فیوچر‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی تحقیق ’’گلوبل لیک ہیلتھ اِن دی اینتھروپوسین: سوشل امپلی کیشن اینڈ ٹریٹمنٹ اسٹریٹجس‘‘ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ جس طرح انسانی صحت کے لیے حکمت عملی بنائی جاتی ہے، ٹھیک اسی طرح جھیلوں کی صحت کے لیے جامع پالیسی ضروری ہے۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ جھیلوں کو بھی جانداروں کی مانند سمجھا جائے۔ اس تحقیق میں 10 ہیکٹیئر سے زیادہ پھیلاؤ والی دنیا کی 14,27,688 جھیلوں کی صحت کا جائزہ لیا گیا ہے، جن میں ہندوستان کے 3043 آبی وسائل بھی ہیں۔ جن جھیلوں کے آس پاس کاشتکاری ہو رہی ہے، وہاں کیمیائی کھاد اور دیگر غذائی اجزا زیادہ ہیں اور اس سے جھیلوں میں ایلجی (Algae) کی افزائش سے جھیلوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
یہ سمجھنا ہوگا کہ جھیلیں جاندار ہیں۔ انہیں سانس لینے کے لیے آکسیجن، خوش رہنے کے لیے صاف پانی اور اپنے اندر موجود مخلوقات کو زندہ رکھنے کے لیے متوازن توانائی اور غذائی اجزا کی فراہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔
جیسے جیسے انسان جھیلوں کے تئیں بے نیاز ہوتا جا رہا ہے، اپنے ساتھ فطرت کے ان انمول ورثوں کے لیے خطرہ پیدا کر رہا ہے۔ انسانوں کی ہی طرح جھیلیں مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہی ہیں، جیسے بخار آنا یعنی زیادہ گرم ہونا، گردش (جیسے انسانی جسم میں دوران خون)، سانس، غذائیت اور میٹابولک مسئلوں سے لے کر انفیکشن اور زہر تک جھیلوں کے کئی جسمانی مسئلے ہوسکتے ہیں۔ ایک بات اور، جھیلیں بارش سے جتنا پانی حاصل کرتی ہیں، اس سے دوگنا بخارات بناتی ہیں۔ اگر بارشیں کم ہوں گی، گرمی زیادہ ہونے کی وجہ سے بخارات زیادہ بنیں گے اور اُتھلے پن کی وجہ سے ان کی ذخیرہ اندوزی کی صلاحیت کم ہوگی تو ظاہر ہے کہ یہ جھیل کی صحت خراب کرے گی۔ اگر جھیل کی صحت کے تئیں لاپروائی برتی گئی تو پورے ماحولیاتی نظام پر اس کا اثر ہوگا، جس کی وجہ سے جھیل پر انحصار کرنے والی بڑی آبادی کی سماجی اور اقتصادی زندگی میں زلزلہ آجائے گا۔
ہندوستان کا ہر تالاب اپنے ارد گرد ارضیاتی تاریخ اور ماحولیاتی اہمیت کی ایک منفرد کہانی سمیٹے ہوئے ہے۔ صحت مند جھیلیں اور تالاب عالمی پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے انمول ماحولیاتی نظام ہیں۔ اگر تالاب کو بیمار ہونے سے بچانے یا پھر بیمار جھیل کے علاج کے لیے بہتر حکمت عملی نہ بنائی جائے تو اس کے آس پاس رہنے والے لوگ اور جنگلی حیات بھی غیر صحت مند ہو جاتے ہیں۔
ایک جھیل میں پانی کا شفاف ہونا اور وافر مقدار میں ہونا کئی طرح سے پورے ماحول کی اچھی صحت کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ آبی جانوروں جیسے کچھوؤں اور مچھلیوں کی نشوونما اور نقل و حرکت کو متاثر کرتا ہی ہے، پانی کم ہونے پر سماجی اور سیاسی مقامی تنازعات کو بھی جنم دیتا ہے۔ ہندوستان جیسے ملک میں، جہاں تالابوں کے کنارے بہت سے تہوار، عقائد اور مذہبی سرگرمیاں لازمی سمجھی جاتی ہیں، ان کا وجود ہی جھیل کی صحت پر منحصر ہے۔ جھیلیں اور تالاب بیمار ہو جاتے ہیں تو اس علاقے کا کاربن اور حرارت جذب کرنے کا عمل متاثر ہوتا ہے، جوحیاتیاتی تنوع کو نقصان اور سیلاب اور خشک سالی کے نتیجے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ مقامی سماج کے پانی کے ذرائع اگر صحت مند نہ ہوں تو پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں تو بڑھیں گی ہی۔
آخر کوئی جھیل بیمار کیسے ہوتی ہے؟ یوں سمجھ لیں کہ اگر آبی ذخائر میں پانی کی مقدار کم ہے تو ذرا سی گرمی میں ہی اس کا درجۂ حرارت بڑھ جائے گا، زیادہ گرمی ہوئی تو تیزی سے بخارات بن کر پانی کا ذخیرہ جلد خالی ہو جائے گا۔ کسی تالاب- جھیل میں آکسیجن کی مقدار کم ہونا بھی خطرناک ہے۔ یہ دوسرے آبی جانوروں اور پودوں کے لیے مہلک ہوتا ہے۔ جل کمبھی یا پھر پانی میں زیادہ مقدار میں فضلات کی موجودگی، گندے پانی کا ملنا آکسیجن کم ہونے کے اہم عوامل ہیں۔ اس سے پانی کا کھارہ پن بھی بڑھتا ہے، جو کسی تالاب کے شدید بیمار ہونے کی علامت ہے۔ غور کریں کہ صحت مند انسانی جسم کی ہی طرح جھیلوں کو بھی مناسب آکسیجن اور ضرورت سے زیادہ کھارہ پن یا تیزابیت سے نجات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک بات اور اگر ندی کا پانی صحت بخش نہ ہو تو اس سے اگنے والی مصنوعات میں بھی غذائیت کی کمی ہوتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ جھیلوں کی صحت کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔پانی کے بہت زیادہ استعمال اور بارشوں کی بے قاعدگی کی وجہ سے کئی جھیلوں میں پانی کی سطح تیزی سے گر گئی، جبکہ دوسری طرف پینے کے پانی، آبپاشی اور ماہی پروری وغیرہ میں پانی کے استعمال میں اضافہ ہوا۔ اس کی وجہ سے جھیلوں کا غذائی توازن تب گڑبڑا جاتا ہے جب اس میں غذائی اجزا کا ارتکاز یا تو زیادہ ہوجائے یا پھر بہت کم ہو جائے۔ اس طرح جھیل کا ماحولیاتی نظام غیر متوازن ہوجاتا ہے۔ غذائی اجزا کی اچانک زیادتی کی وجہ سے آبی ذخائر کی اوپری سطح پر سبز تہہ کے جمنے سے سبھی پہلے سے واقف ہیں۔ اسے سائنسی زبان میں ’ یوٹرو فکیشن‘ کہتے ہیں۔ درحقیقت ہراپن ایک قسم کے بیکٹیریا کی وجہ سے ہوتا ہے جسے مائیکرواسکوپک یا فلامینٹس ایلجی کہا جاتا ہے۔ گندے پانی، سیوریج، کارخانوں کے نکلے گندے پانی اور کھیتوں سے بہہ کر آئی کھاد سے اس قسم کی خرابی میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے پانی میں آکسیجن کی مقدار بھی کم ہو جاتی ہے۔
سمجھنا ہوگا کہ اس طرح کے ایلجی کے مضر اثرات صرف پانی کے وسائل تک ہی محدود نہیں رہتے، یہ براہ راست انسانی صحت کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں، کیونکہ کچھ سائنو بیکٹیریل سے زہریلا مواد پیدا ہوتا ہے، جو سانس، گیسٹروانسٹیسٹائنل اور جلد سے متعلق مسائل پیدا کر دیتا ہے۔ اس بین الاقوامی تحقیق کے مطابق اس طرح سے بیمار ہوئی جھیل میں نیوروٹاکسی سٹی اثرات ہوتے ہیں، جس سے سیلولر اور جینومک نقصان، پروٹین کی ترکیب کی روک تھام اور انسانوں اور جنگلی حیات میں ممکنہ کارسی نوجینیسس ہوتا ہے۔
جھیلوں کے پانی کا زیادہ گرم ہونا اور آئی اَنائزیشن کے ساتھ تیزابیت، نمکیات اور ایلجی کی وجہ سے بدرنگ ہونا، یہ سبھی جھیل کے میٹابولک توازن کو خراب کرسکتے ہیں۔ کان کنی کی سرگرمیوں، صنعتی آلودگی، فضا میں گندھک اور نائٹروجن پر مشتمل کیمیائی مادوں میں اضافے کی وجہ سے پانی کی پی ایچ ویلیو 6 سے کم ہوجاتی ہے۔ اگر پانی میں پہلے سے نائٹرک اور سلفیورک ایسڈ موجود ہوں تو یہ اور کم ہو سکتی ہے۔ یہ تالابوں اور جھیلوں کے پانی کے معیار کے لیے نقصاندہ ہے اور اس سے بہت سے پی ایچ حساس مائیکروبس، پودوں اور جانوروں کی نشوونما اور تولید پر واضح اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کئی بار اس کی وجہ سے مچھلیاں مر جاتی ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے ہر آبی ذخائر کے پانی کے معیار کی سال میں دو بار جانچ کی جائے اور اگر کسی طرح کا عدم توازن ہو تو اس کا فوری تدارک کیا جائے۔ کسی بھی تالاب کے آس پاس روایتی درختوں کی نسلوں، ان پر رہنے والے پرندوں کی رہائش اور پانی کے ذخائر میں مچھلی یا دیگر مصنوعات اگانے کے لیے کسی بھی قسم کی کیمیائی کیڑے مار دوا یا غذائی اجزا کا استعمال ممنوع ہونا چاہیے۔